آج کل ہمارے کچھ دوستوں کا سارا وقت ہمیں اس بات پر قائل کرنے پر خرچ ہو رہا ہے کہ سیاست میں سب چلتا ہے۔ یہاں غیراخلاقی حرکات‘ لوٹ مار اور گھوڑوں کی خریدوفروخت ہوتی رہتی ہے‘ لہٰذا ہمیں تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ کچھ دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی غیراخلاقی سیاست کی حمایت ضروری ہے کیونکہ یہ مکافاتِ عمل ہے۔ الٹا ہمیں کمینگی پر مبنی ایک خوشی کی لذت اٹھانی چاہیے کیونکہ اس گندی سیاست کا شکار نواز شریف اور زرداری کی پارٹیاں ہیں‘ جو ماضی میں خودانہی حرکات کی وجہ سے اقتدار میں آئیں۔ انہوں نے ہی اس کرپٹ سیاست کی بنیاد رکھی‘ کرپشن متعارف کرائی۔ شریفوں اور زرداریوں نے ہی سیاست میں کرپشن کو عروج دیا‘ شرافت کی سیاست کا جنازہ نکال دیا‘ لہٰذا آج اگر ان کی سیاست کا جنازہ آج کے حکمران انہی کے راستوں پر چلتے ہوئے نکال رہے ہیں تو ایسے اقدامات کی مذمت نہیں بلکہ تعریف ہونی چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں جیسے کبھی یہ نعرہ لگتا تھا ''ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ اب عمران خان سب پر بھاری ہیں۔ اس طرح نواز شریف جیسے کبھی گھوڑوں گدھوں کی خریدوفروخت کے بعد خود کو پنجاب کا شیر کہلوانے میں فخر محسوس کرتے تھے‘ ویسے ہی آج عمران خان صاحب کو بھی فخر کرنا چاہیے کہ انہوں نے 35 سینیٹرز ہونے کے باوجود 70 سینیٹرز والوں کو شکست فاش دے دی۔
ہمارے دوست سمجھانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ زہر کا علاج زہر سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں سیاست کے پرانے طور طریقے بھی سمجھائے جاتے ہیں کہ سیاست میں بھلا کب اخلاقیات ہوتی ہیں‘ جس کا دائو لگ جائے وہ لگا لیتا ہے۔ سیاست ایسے ہی ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی۔ ہمارے جیسے آئیڈیلسٹ کو اپنے دماغ کے علاج کی ضرورت ہے جو اس دور میں اخلاقی سیاست کا رونا روتے ہیں۔ سیاست میں جو بھی پرانا اور نیا گند گھولا جارہا ہے اسے 'جیسے ہے جہاں ہے‘ کی بنیاد پر قبول کریں ورنہ دفع ہوجائیں۔ ایک چوتھی قسم کے دوست بھی ہیں جو فرماتے ہیں کہ پی پی پی اور نواز لیگ کے ان چودہ سینیٹرز کو بالکل برا بھلا نہ کہیں کیونکہ یہ اتنے نیک ہیں کہ ان کا ضمیر اس وقت فوراً جاگ گیا جب یہ مہر لے کر ایک کونے میں پہنچے اور وہاں انہیں فیصلہ کرنا تھا کہ انہوں نے کس کے حق میں مہر لگانی ہے۔ ان باکردار لوگوں کو اچانک یاد آیا کہ زرداری اور شریف تو غلط لوگ ہیں‘ انہوں نے ملک لوٹا ہے‘ انہیں ووٹ دینا اپنے ضمیر سے غداری ہوگی۔ ضمیر فوراً جاگ گیا اور سنجرانی صاحب کے حق میں ووٹ دے دیا۔ ان دوستوں کے بقول ہمیں ایسے سینیٹرز کو سراہنا چاہیے‘ اور اسی لیے سیکرٹ بیلٹ رکھا گیا تھا تاکہ اندھیرے میں ضمیر جاگ سکیں۔
سوال یہ ہے کہ جب ہاؤس میں کہا گیا‘ وہ لوگ کھڑے ہوجائیں جو سنجرانی صاحب کے خلاف ہیں تو اس وقت ان لوگوں کا ضمیر کیوں نہ جاگا؟ بھلا یہ کہاں لکھا ہے کہ ضمیر ہمیشہ کسی اندھیرے کونے میں بنائے گئے باکس کے اندر ہی جاگتا ہے؟ مزے کی بات یہ ہے کہ ضمیر ووٹ ڈالنے کے بعد پھر سو گیا اور اپوزیشن پارٹی کے اجلاس میں وہی پینسٹھ سینیٹر موجود تھے اور سب کا دعویٰ تھا کہ سنجرانی صاحب کے خلاف ووٹ ڈالا۔ یہ ضمیر میری سمجھ سے تو بالاتر ہے۔ ہم تو سنتے اور پڑھتے آئے تھے کہ جب ضمیر جاگتے ہیں تو لوگ اس مردے کی طرح ہوتے ہیں جو کفن پھاڑ کر بولتے ہیں۔ ضمیر کی تو تعریف ہی یہی کی جاتی ہے کہ یہ انسان کو بے چین کردیتا ہے‘ راتوں کو سونے نہیں دیتا‘ بھوک اڑ جاتی ہے‘ سر کے بال جھڑنا شروع ہوجاتے ہیں‘ ضمیر کچوکے لگاتا رہتا ہے اور پھر وہ لمحہ آن پہنچتا ہے جب وہ نتائج کی پروا کیے بغیر پھٹ پڑتے ہیں اور ہر قسم کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ جو سزا اور اذیت انہیں ضمیر کی آواز سن کر دنیا دے گی‘ وہ اس سزا سے بہت کم ہوگی جو جسم کے اندر روح انہیں دے رہی ہے۔ کئی ایسی مثالیں دی جاسکتی ہیں جب کئی لوگوں نے برسوں بعد اپنے جرائم کا اعتراف کیا‘ جو انہوں نے بہت پہلے کیے تھے لیکن اب وہ راتوں کو سو نہیں پاتے تھے۔ وہ سزا کا سامنا کرکے اپنے ضمیر کو مطمئن کرنا چاہتے تھے۔ اگر ان سینیٹرز کے ضمیر جاگے ہوتے تو وہ ببانگ دہل سینیٹ میں دھواں دھار تقریر کرکے پوری دنیا کو بتاتے کہ وہ شریف اور زرداری خاندان کی کرپشن کی وجہ سے ضمیر کی آواز پر سنجرانی صاحب کو ووٹ ڈال رہے ہیں‘ جس نے ان کے خلاف کارروائی کرنی ہے کرلے‘ وہ ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہیں‘ ان کیلئے اپنی روح اہم ہے نہ کہ دنیاوی عہدے۔ لیکن یہ پاکستانی سینیٹرز کا ضمیر ہے جو بہت سمجھدار ہے‘ اسے پتہ ہے کہ صرف چند سکینڈز کیلئے جاگنا ہے‘ مہر لگانی ہے اور فوری طور پر سو جانا ہے بلکہ ایسی اداکاری کرنی ہے کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلنا پائے کہ ضمیر جاگ گیا تھا ورنہ آپ سیاسی‘ سماجی رتبے‘ دنیا بھر کی سیر سپاٹے‘ مفت علاج ‘ ٹی اے ڈی اے اور سیاسی اثرورسوخ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اگر ضمیر جاگ گیا تھا تو پتہ تو ہونا چاہیے تاکہ انہیں اس کارنامے پر نہ صرف داد دی جائے بلکہ پھول اور مٹھائی بھیجی جائے اور انہیں ہم اپنی نسلوں کیلئے رول ماڈل بنا کر پیش کریں۔ لیکن ان ہیرو سینیٹرز کا کسی کو علم نہیں جن کا ضمیر جاگا اور پھر سو گیا۔
اب آتے ہیں اس جواز کی طرف کہ چونکہ زرداری اور شریف کرپٹ ہیں‘ لہٰذا مقابلے پر وہی اتارے جائیں جو اتنی ہی کرپشن اور وہی ہتھکنڈے استعمال کریں۔ زرداری صاحب کا سیاست میں رول ماڈل نواز شریف تھے۔ زرداری نے بینظیر بھٹو کو سمجھایا تھا کہ اگر شریفوں کے مقابلے میں سیاست کرنی ہے تو اتنی دولت کمانی ہوگی جتنی شریفوں کے پاس ہے۔ بی بی قائل ہوگئیں۔ اس کے بعد بی بی اور زرداری کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے‘ جبکہ وہ سب شریف‘ زرداری سمیت جیل میں ہیں یا مفرور ہیں جو رول ماڈل تھے۔ اب وہی ماڈل عمران خان اپنا رہے ہیں کہ زرداریوں اور شریفوں کا مقابلہ انہی کے سٹائل میں ہوگا۔ تو کیا میرے دوست آج کے حکمرانوں کے ایسے ہتھکنڈوں کی حمایت کرکے نئے زرداری اور شریف تو پیدا نہیں کررہے؟ میں چند اچھے صحافیوں کو جانتا ہوں جو اس طرح شریفوں اور زرداریوں کے ٹریپ میں آئے تھے جیسے آج کل کچھ دوست عمران خان کے ٹریپ میں آچکے ہیں۔ اس وقت یہ کہہ کر زرداری اور نواز شریف کی حمایت کی گئی کہ وہ آمر کے خلاف جمہوریت کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ کچھ بڑے قد کے صحافیوں نے تو لندن کے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دونوں پارٹیوں کو قریب لانے میں اہم کردار بھی ادا کیا تھا‘ کچھ نے اس چارٹر کو لکھنے تک میں مدد کی تھی۔ میں انہیں ہرگز غلط نہیں سمجھتا کیونکہ وہ یہ سب ذاتی لالچ یا اقتدار میں سے حصہ لینے کیلئے نہیں کر رہے تھے بلکہ دل سے چاہتے تھے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک بنے اور لوگوں کی زندگیاں آسان اور بہتر ہوں۔ پھر زرداری اور شریفوں نے ان کے اعتماد کو دھوکا دیا اور جس طرح ان دس برسوں میں لوٹ مار کی گئی وہ سامنے ہے۔ اب وہی رعایت عمران خان اور ان کے ATMsکو دی جارہی ہے کہ وہ سیاست میں اگر غیراخلاقی طریقے اپناتے ہوئے شریفوں اور زرداریوں کو شکست دے سکتے ہیں تو ان پر بھی اس طرح ہاتھ ہولا رکھنا چاہیے جیسے شریفوں اور زرداری پر رکھا گیا تھا اور مشرف کو شکست دی تھی۔ پھر کیا ہوا تھا؟ کیا مشرف کو نکالنے کے بعد زرداری اور شریف بدل گئے؟
اگر ہم نے عمران خان کو وہی رعایتیں دینی ہیں جو ان سے پہلے والوں کو دی گئی تھیں تو نتیجہ وہی نکلے گا جو پہلے نکلا تھا۔ سیاستدان ہمیشہ لوگوں کو جھوٹ بول کر اور استعمال کرکے اقتدار میں پہنچتے ہیں۔ اگر عمران خان نے بھی وہی راستہ لینا ہے جو زرداری اور شریفوں نے لیا تھا تو پھر ان دونوں میں کیا برائی تھی؟ ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک بندہ صحرا سے گزرا تو کسی کے کندھوں پر دو گدھ دیکھے جو کندھوں سے گوشت نوچ رہے تھے۔ وہ بھاگ کر گیا اور گدھوں کو اڑا دیا۔ وہ بندہ چیخ پڑا: ظالم یہ کیا کیا۔ یہ گدھ تو صبح سے گوشت نوچ رہے تھے۔ اب ان کا پیٹ بھر گیا تھا‘ یہ اب کندھوں پر بیٹھے قیلولہ کررہے تھے‘ تم نے انہیں اڑا دیا۔ اب ان کی جگہ نئے آئیں گے جو خالی پیٹ ہوں گے!