اس روز ٹورنٹو میں خوب برف پڑی۔ سڑکیں سائیڈ واکس اور چھتیں برف کی سفید چادر میں چھپ گئی تھیں۔ ان دنوں میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ یونیورسٹی کے طلبا کیلئے ڈائون ٹائون میں دو بلند و بالا عمارتیں بنائی گئی تھیں۔ 30 چارلس اور 35 چارلس سٹریٹ ویسٹ۔ ہمارا اپارٹمنٹ 35 چارلس سٹریٹ کی بلڈنگ میں تھا۔ یہ ایک 22 منزلہ عمارت تھی جس کی انیسویں منزل پر ہمارا اپارٹمنٹ تھا۔ سڑک کی طرف کھڑکی نما شیشے کی دیوار تھی۔ ہم پردے ہٹاتے تو چارلس سٹریٹ کا سارا منظر ہمارے سامنے ہوتا۔ ٹورنٹو میں آ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ سرد موسم کیا ہوتا ہے۔ سردیوں میں جب درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے بہت نیچے گر جاتا اور شمال کی سرد ہوائیں چلتیں تو یوں محسوس ہوتا کہ انٹارکٹکا کے خطے میں آ گئے ہیں‘ لیکن گھر کے اندر یونیورسٹی‘ دکانوں‘ دفتروں میں Heating کے انتظام بہت اچھے تھے۔
اتوار کا دن تھا۔ میں کھڑکی کے پاس کھڑا باہر کا منظر دیکھ رہا تھا جہاں برف روئی کے گالوں کی طرح آسمان سے اتر رہی تھی اور چارلس سٹریٹ سفید برف سے ڈھک گئی تھی۔ بچے‘ صہیب اور ہاجرہ جو یہاں کے پبلک سکول میں پہلی اور دوسری کلاس میں پڑھتے تھے‘ ابھی سو کر اٹھے تھے۔ اسما کچن میں بیکنگ (Baking) میں مصروف تھی۔ جیسا کہ بیان کیا اتوار کا دن تھا اور ہم چھٹی منا رہے تھے۔ اچانک ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ موبائل فونز کا زمانہ نہیں تھا اور پاکستان میں پی ٹی سی ایل فون بھی گھر گھر نہیں لگے تھے۔ ہم ہفتے میں ایک بار پاکستان فون کرتے تھے‘ اس روز فون آیا تو میں نے سوچا‘ یہ ٹورنٹو میں کسی پاکستانی فیملی کا فون ہو گا‘ لیکن ایسا نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد اسما کچن سے باہر آئی‘ اس کے چہرے پر حیرت اور دکھ مجسم ہو گئے تھے۔ کہنے لگی: راولپنڈی سے میری بھتیجی سارہ کا فون تھا‘ بتا رہی تھی ''چھ سو چودہ فوت ہو گئے ہیں‘‘۔
یہ سن کر صہیب‘ ہاجرہ اور میں Living Room میں پڑے ڈائننگ ٹیبل کے ارد گرد بیٹھ گئے‘ مجھے یوں لگا جیسے میرا جسم بے وزن ہو گیا ہے۔ اسما بھی میز کی چوتھی کرسی پر بیٹھ گئی۔ ہاجرہ نے کہا: 614 فوت ہو گئے؟ اب وہ ہم سب میں نہیں رہے؟ چھ سو چودہ کا اصل نام کسی کو بھی معلوم نہیں تھا‘ سب اسے چھ سو چودہ کے نام سے اس لئے جانتے تھے کہ اس کی ٹیکسی کا نمبر614 تھا‘ وہ ایک مورس ٹیکسی تھی‘ ٹیکسی کیا تھی شکستگی کا نمونہ تھی۔ چھ سو چودہ کی شخصیت ایسی تھی کہ اس پر خواہ مخواہ بھروسہ کرنے کو جی چاہتا تھا اور مجھے یاد ہے اس نے ہمیشہ ہمارے بھروسے کا بھرم رکھا۔ اس کا قد لمبا تھا‘ شاید اسی وجہ سے ذرا جھک کر چلتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک خاص طرح کی روشنی تھی جسے مفلسی کی گرد بھی مدھم نہیں کر سکی تھی۔
چھ سو چودہ کو میں نے پہلی بار اس وقت دیکھا جب راولپنڈی کے ایک محلے میں ہم نے کرائے پر گھر لیا تھا۔ اس وقت میں شاید پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ایک روز میں نے چھت کی فصیل میں بنے سوراخوں میں پائوں رکھ کر دیوار کے سہارے کھڑے ہو کر دیکھا کہ ہمارے گھر کی پشت پر ایک حویلی ہے جس کا وسیع کچا صحن ہے۔ اس روز ہمارے گھر میں ایک عورت دودھ لے کر آئی‘ اس کا مقصد شاید یہ تھا کہ نئے کرایہ دار آئے ہیں وہ گاہک بن جائیں گے۔ اس نے بتایا کہ وہ ہمارے گھر کے عقب میں واقع حویلی میں رہتی ہے۔ والدہ نے کہا: ٹھیک ہے کل سے تم دودھ دے جایا کرو۔ اس کے بعد حُسن جان ہر روز ہمارے گھر دودھ دینے آتی۔ اس کے شاید دو بھائی تھے‘ انہی بھائیوں میںچھ سو چودہ بھی تھا۔ اپنے دوسرے بھائی کے برعکس انتہائی شریف النفس۔ کبھی کبھار وہ ہمارے گھر دودھ دینے آتا تو ہمیشہ نگاہیںجھکا کر رکھتا۔ پھر ہم اس محلے سے دور ایک اور محلے میں چلے گئے۔ اب چھ سو چودہ سے ملاقات کبھی کبھار ہوتی۔
پھر ایک دن پتہ چلا کہ اس کے بڑے بھائی نے اسے اور بہن کو اس حویلی سے نکال دیا ہے۔ یہیں سے چھ سو چودہ کی زندگی کا ایک اور سفر شروع ہوا جس میں اپنوں کی بے وفائی اور زمانے کی بے حسی کا ہاتھ تھا۔ جیسے تیسے کر کے اس نے ایک پرانی ٹیکسی خرید لی۔ یہ ایک مورس گاڑی تھی‘ بظاہر بہت مضبوط لیکن 614 نے اسے جس حالت میں خریدا تھا وہ انتہائی خستہ تھی۔ وہ راولپنڈی کی کچی پکی سڑکوں پر گھسٹتی رہتی تھی‘ اپنے مالک کی زندگی کی طرح جسے اپنے بڑے بھائی نے مکان بدر کر دیا تھا۔ اب وہ تھا اور زمانے کی تیز دھوپ۔ چھ سو چودہ کا ہمارے گھر سے خاص لگائو تھا اور ہم بھی اسے اپنے گھر کا فرد سمجھتے تھے۔ صہیب اور ہاجرہ نے جب سکول جانا شروع کیا تو وہ چھ سو چودہ کی گاڑی میں آتے جاتے تھے۔ چھ سو چودہ بڑے پیار اور لاڈ سے بچوں کو گاڑی میں بٹھاتا اور اسی پیار سے واپس لے کر آتا۔ اس کی گاڑی کی کھڑکیوں کے شیشے ہمیشہ ادھ کھلے رہتے تھے وہ اس پوزیشن میں اس طرح جم گئے تھے کہ ان کو اوپر نیچے نہیں کیا جا سکتا تھا‘ بالکل چھ سو چودہ کی اپنی زندگی کی طرح جو وقت کے ایک موڑ پر آ کر رک سی گئی تھی۔ ایک بار سکول سے فون آیا کہ صہیب اور ہاجرہ کو لینے کوئی نہیں آیا‘ ہمیں حیرت بھی ہوئی اور تشویش بھی کیونکہ چھ سو چودہ ہمیشہ وقت کی پابندی کرتا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس دن چھ سو چودہ کی گاڑی کا پہیہ نکل گیا تھا۔ یہ اس زمانے کی مورس ٹیکسیوں کا مخصوص ٹیکنیکل پرابلم تھا۔ بچوں نے بتایا اس روز چھ سو چودہ انکل کے کپڑے پسینے سے تر تھے‘ وہ بار بار معذرت کر رہے تھے‘ اس روز چھ سو چودہ انکل نے ہمیں ایک ایک ٹافی بھی دی۔ وہ واپسی کے سارے راستے میں گاڑی کو کوستے رہے جس کی وجہ سے وہ سکول وقت پر نہیں پہنچ سکے تھے۔ دن یونہی گزرتے رہے۔ پھر ایک روز میں سکالرشپ پر کینیڈا آ گیا‘ بچوں نے کچھ ماہ بعد آنا تھا۔ میری غیر موجودگی میں چھ سو چودہ نے زیادہ ذمہ داری کے ساتھ بچوں کی ڈیوٹی سنبھال لی۔ ٹیکسی پرانی تھی اس لیے اس میں روز کچھ نہ کچھ خرابی نکل آتی‘ بالکل چھ سو چودہ کی اپنی صحت کی طرح۔ اب اس کی کمر جھک گئی تھی‘ چہرے کی تازگی مستقل تھکن میں بدل گئی تھی لیکن اب بھی اس کی آنکھوں کے ستارے کبھی کبھار جگمگا اٹھتے۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ صہیب نے بتایا کہ اس روز چھ سو چودہ انکل بہت خوش تھے‘ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ کینیڈا سے تمہارے پاپا نے مجھے عید کارڈ بھیجا ہے‘ اس کارڈ کو انہوں نے ڈیش بورڈ پر سجا لیا تھا اور ٹیکسی میں بیٹھنے والی ہر سواری کو فخر سے اس کارڈ کی کہانی سناتے تھے۔ ایک روز چلتے چلتے ٹیکسی کا ڈرائیور کی سائیڈ والا دروازہ گر گیا‘ صہیب اور ہاجرہ کیلئے یہ ایک دلچسپ منظر تھا‘ چھ سو چودہ نے گاڑی روکی‘ دروازے کو سڑک سے اٹھا کر ڈکی میں رکھا اور دوبارہ گاڑی چلا دی‘ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس کے بعد کا سارا عرصہ گاڑی بغیر دروازے کے چلتی رہی۔ پھر صہیب اور ہاجرہ بھی اسما کے ساتھ کینیڈا آ گئے۔ اب کبھی کبھار میری بھتیجی سارہ چھ سو چودہ کی خبر دے دیتی تھی۔ ایک بار اس نے بتایا کہ چھ سو چودہ نے گاڑی بیچ دی ہے اور اب وہ پرانے برتنوں کی ایک ریڑھی لیے پھرتا ہے۔ اب اس کی ذہنی حالت نارمل نہیں رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا خالی پن اُتر آیا تھا‘ جس میں دیوانگی کی جھلک دیکھی جا سکتی تھی۔ زندگی کے دکھوں نے اس کے اعصاب کو چٹخا دیا تھا۔ اور پھر آج اس کی موت کی خبر ملی۔ میں نے نظر اٹھا کر کھڑکی سے باہر دیکھا ٹورنٹو کے گلی کوچوں میں برف تواتر سے گر رہی تھی اور ہم چاروں پاکستان سے دور‘ بہت دور ڈائننگ ٹیبل کے ارد گرد بیٹھے تھے‘ خاموش اور چُپ چاپ۔ ایک ایسے شخص کی یاد میں جس کا اصل نام بھی ہمیں معلوم نہیں تھا۔