تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     04-08-2019

EXPIRY DATE

گھنٹی بجنے پر دروازہ کھولنے کے لیے باہر نکلا تو میرے عزیز دوست انجینئر ناظر خان اندر قدم رکھتے ہی کہنے لگے: کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں ہمارے اور بچوں کے روزمرہ استعمال میں آنے والی درجنوں پراڈکٹس ‘ EXPIRY DATEجعل سازی سے تبدیل کر تے ہوئے مزید ایک اور دو سال تک قابل استعمال بنا ئی جا رہی ہیں۔ میں بازو کھولے اپنے عزیز دوست کے استقبال کے لیے کھڑا تھا لیکن وہ میرے کھلے ہوئے بازو نظر انداز کرتے ہوئے غصے سے بولتے ہوئے نشست گاہ میں پہنچے اور ایک لمبی سانس لیتے ہوئے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے خوبصورت قسم کے کسی غیر ملکی برانڈ کے چاکلیٹ باکس میرے سامنے رکھ کر خاموشی سے بیٹھ گئے ۔میں انہیں دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسا کر مروڑتے ہوئے دیکھتا رہا‘پھر ان کی خاموشی سے تنگ آ کر اپنے سامنے رکھے ٹین کے بنے خوبصورت ڈبے سے چاکلیٹ نکال کر کھانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ میرے دوست نے جھپٹ کر میرا ہاتھ پکڑ تے ہوئے انتہائی رنجیدہ آواز میں کہا: خدا کے لیے مت کھایئے گا یہ تو میں صرف آپ کو دکھانے کے لیے لایا ہوں نہ کہ آپ کے اور بچوں کے کھانے کے لیے ۔ میں تو یہ بتانے کے لیے آیا ہوں کہ بتا سکوں کہ ہمارے یہاں کیا ہو رہا ہے‘ بچوں کے گلے گھونٹے جا رہے ہیں‘ ان کو موذی امراض کا شکار کیا جا رہا ہے ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہمارے تاجر، سرمایہ دار اور بڑے بڑے‘ مشہور سٹور مالکان ہماری نسلوں کی تباہی کے لیے اس قدر گر سکتے ہیں۔ اس دیدہ زیب ٹین پیک کے اندر بڑی خوبصورتی سے سجاکر رکھے ہوئے چاکلیٹ بچوں کے پسندیدہ ہوتے ہیں اور اس معاشرے، اس انتظامیہ اور اس ملک میں کسی ایک کو بھی احساس نہیں کہ حرام کی دولت کمانے کے نشے میں دھت لوگ قوم کے بچوں کے ساتھ کیا ظلم کر رہے ہیں؟اپنے دوست کے رو دینے والے لہجے نے مجھے پریشان سا کر دیا اور میں نے سامنے پڑے چا کلیٹ کے ڈبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ آخر کیا خرابی ہے اس ڈبے میں جو تم اس قدر رنجیدگی ظاہر کر رہے ہو؟ 
انجینئر ناظر خان اپنی عملی زندگی کے پندرہ سے زائد سال دنیا کے بڑے بڑے ملکوں میں مشہور ترین بین الاقوامی ٹیلی کام کمپنیوں میں ایگزیکٹو عہدوں پر کام کر چکے ہیں اور انتہائی پر کشش مشاہرے اور بہترین سہولیات کو قربان کر کے دل میں وطن اور اس کی نئی نسل کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ لئے پاکستان واپس آئے تھے۔انہیں اس دکھ بھرے لہجے میں بات کرتے دیکھ کر میں خود بھی پریشان ہو چکا تھا۔ میرے دوست نے چاکلیٹ بنانے والی ایک بہت ہی مشہور بین الاقوامی کمپنی کے اس خوبصورت اور دیدہ زیب ڈبے کو کھول کر بہترین ریپر میں محفوظ کی گئی ایک چاکلیٹ نکالی تو وہ اندر سے بھر بھری ہو چکی تھی۔ انجینئر ناظر خان ایک کے بعد دوسری چاکلیٹ کھول کر مجھے دکھاتے ہوئے کہنے لگے: کمپنی نے ان چاکلیٹس کے لیے جو مدت مقرر کی ہے اس کے مطا بق یہ ایکسپائر ہوچکی ہے‘ لیکن لاہور کی مشہور شاہ عالم مارکیٹ کے پلازوں اور دوسری مختلف جگہوں پر نہ جانے کتنے لوگ مشینوں کے ذریعے کمپنی کی درج کی گئیEXPIRY DATE کو اس طرح مٹا دیتے ہیں کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا اور پھر ایک اور مشین کے ذریعے ان پر نئی مینو فیکچرنگ اور ایکسپائری ڈیٹ لکھ کر یہ مارکیٹ میں پھیلا دی جاتی ہیں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس قسم کی باتیں کر رہے ہیں ۔ مجھے اپنی جانب منہ کھولے دیکھتے ہوئے انجینئر ناظر خان چاکلیٹ کے ٹین پر لکھی ہوئی ایک ایک تحریرمیرے سامنے کرتے ہوئے رو دینے والے انداز میں بتانے لگے کہ کس طرح پہلے سے پرنٹ کی گئی مینو فیکچرنگ تحریر کو مٹا کر ایک خاص مشین سے نیا پرنٹ بنایا گیا‘ جو عام آدمی جان ہی نہیں سکتا۔جیسے جیسے ناظر خان مجھے مختلف پراڈکٹس کی پیکنگ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے متعلق بتاتے جا رہے تھے میرے سامنے پڑا ہوا ٹین پیک ہی نہیں بلکہ گھر میں رکھی ہوئی اس قسم کی تمام چیزیں مجھے خطرناک سانپوں کی طرح پھنکارتی ہوئی دکھائی دینے لگیں۔ اپنے اور قوم کے چھوٹے بڑے لاکھوں بچوں اور بڑوں کا خیال آتے ہی ایک سرد سی لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں سرایت کر گئی ۔ مجھے یاد آنے لگا کہ عرب امارات کے بڑے بڑے سٹورز میں دنیا بھر سے درآمد کی جانے والی بچوں اور بڑوں کے استعمال کی درجنوں پراڈکٹس‘ جن میں کھانے پینے کی اشیا بھی شامل ہیں‘ زائد المیعادہونے سے کوئی تین ماہ قبل نصف سے بھی کم قیمت پر پاکستان کے بڑے بڑے تاجر ، سٹور مالکان اور کمپنیاں کنٹینروں کے حساب سے خرید لیتی ہیں ۔دبئی اور خلیج کے دوسرے ممالک میں ہونے والے یہ تمام سودے نظروں کے سامنے گھومنے لگے ‘لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا کہ ان کنٹینروں کو پاکستان کے تاجراپنے گوداموں تک پہنچانے کے بعد ان کے اندر موجود اشیا کی ایکسپا ئری تاریخیں تبدیل کرنے کے بعد دوبارہ مقامی مارکیٹوں میں پہنچا دیتے ہیں۔ مارکیٹوں میں پہنچائی گئی ان پراڈکٹس میں مختلف چاکلیٹس، ادویات ، روزمرہ استعمال کی اشیا اور دودھ کے ڈبے بھی شامل ہوتے ہیں‘ جنہیں بیرون ملک سے آدھی سے بھی کم قیمت میں خریدا جاتا ہے ۔ جعلی ادویات سے لے کر مردار اور حرام جانوروں کے گوشت تک وہ کون سی چیز ہے جو پاکستان میں بنی نوع انسان کے پیٹ میں جھوٹی انا اور دولت اکٹھی کرنے کے لیے نہیں ڈالی جا رہی ۔ بڑے بڑے بنگلوں، بیش قیمت گاڑیوں، تزئین و آرائش کے جنون اور دکھاوے کے لیے پہنے ہوئے زیورات اور عیش و عشرت کے لیے اپنی ہی قوم کے بچوں کوقتل کرنے کا سنگین جرم سب کے سامنے کیا جا رہا ہے۔کیا مقامی پولیس اور انتظامیہ اس سے بے خبر ہو سکتی ہے؟کیا سول اور پولیس افسران اس حرام اور نجس رزق کے باقاعدہ حصہ دار نہیں ؟لگتا ہے ان سب کواس سے کوئی غرض نہیں کہ کسی چاکلیٹ، سویٹ یا دودھ سے اب تک کتنے بچے کینسر اور دیگر موذی امراض کے شکار ہو کر ماں باپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داغِ مفارقت اور علاج پر آنے والے اخراجات سے کئی کئی لاکھ کے مقروض کرچکے ہیں۔
لاہور کی مختلف سڑکوں پر نصب کئے گئے کیمروں کودیکھتے ہی ہر قسم کی سواری ڈرائیو کرنے والے الرٹ ہوجاتے ہیں اور ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ ان سے ٹریفک قوانین کی کوئی معمولی سی بھی غلطی نہ ہو‘ کیونکہ کسی بھی خلاف ورزی پر کیمرہ ان کی فوٹیج محفوظ کر لے گا اور اس خلاف ورزی پر چالان ان کے گھروں تک پہنچ جائیں گے اور یہ جرمانہ اد انہ کرنے کی صورت میں پولیس ان کو گھروں سے حوالات لے جانے کے لیے آجائے گی ۔ کیمروں سے مختلف قسم کی گاڑیوں کے مالکان اور ان کے ڈرائیور خوف کھاتے ہوئے صرف اس وجہ سے کوئی غلطی نہیں کرتے ‘کوئی جرم نہیں کرتے ‘کسی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے کہ ایسا کرنے کی صورت میں ان کو 500 سے سات سو تک جرمانہ ہو جائے گا مگر کس قدر دکھ اور شرم کی بات ہے کہ لوگوں کو سیف سٹی کیمروں سے سے ڈر لگتا ہے مگر ان بدبختوں کو خدا سے ڈر نہیں لگتا جو بچوں بڑوں کو زائد المیعاد خوراک، ادویات، دودھ اور انتہائی شوق سے کھائی جانے والی سویٹس اور چاکلیٹس کھلا رہے ہیں۔ایکسپائر ہونے کے بعد ان پر مزید ایک ‘ دو سال کے لیے قابل استعمال ہونے کی مہریں ثبت کر رہے ہیں ۔ انہیں وہ کیمرہ نظر نہیں آتا جو ان کی نظروں سے تو اوجھل ہے ‘لیکن ایک ایک حرکت کی ریکارڈنگ کر رہا ہے ۔
بڑے بڑے بنگلوں، بیش قیمت گاڑیوں، 
تزئین و آرائش کے جنون اور دکھاوے کے 
لیے پہنے ہوئے زیورات اور عیش و عشرت کے لیے اپنی ہی قوم کے بچوں کوقتل کرنے کا سنگین 
جرم سب کے سامنے کیا جا رہا ہے۔کیا مقامی پولیس اور انتظامیہ اس سے بے خبر ہو سکتی ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved