دنیا کا سفر جاری ہے۔ ہر شعبہ غیر معمولی تحقیق و ترقی سے متصف ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اپنے آپ کو منوانے کے لیے بے تاب و بے قرار ہیں۔ ہر معاشرہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طور اپنے آپ کو اس حد تک منوالے کہ دنیا اُسے باضابطہ شناخت کے ساتھ تسلیم اور قبول کرے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں لوگ کسی نہ کسی طور اپنی شناخت قائم کرنے کے لیے تگ و دَو میں مصروف رہتے ہیں۔ اس تگ و دَو ہی سے دنیا کے میلے کی رونق ہے۔
پاکستانی معاشرہ بھی کسی نہ کسی حوالے سے اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کر ہی رہا ہے۔ مسائل زیادہ ہیں۔ پیچیدگیاں ہیں کہ بڑھتی جاتی ہیں۔ کچھ پالیسیوں کی خرابی کا کیا دھرا ہے اور کچھ محلِ وقوع کی مہربانی ہے کہ ہم ''طوفان کی آنکھ‘‘ میں رہتے ہیں! بہت سے معاملات گھوم پھر کر ہم تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ گویا ؎
بے تابیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
جب کچھ نہ بن سکا تو مِرا دِل بنا دیا
ہم قوم کی حیثیت سے کس مقام پر ہیں‘ اس کا بیان ہم سے ممکن نہیں۔ اس کا اندازہ تو دنیا کو لگانا ہے۔ دنیا کے اندازے اپنے مزاج اور سوچ کے مطابق‘ ہوتے ہیں۔ دنیا چاہے کچھ بھی کہے‘ یہ تو ہمیں طے کرنا ہے کہ ہمیں کیا اور کس طور کرنا ہے۔
ہر دور متعدد سہولتوں کے ساتھ ساتھ بہت سے مسائل بھی لاتا ہے۔ مسائل کو حل کرنے پر متوجہ ہونے والے زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ کسی بھی دور کی پیدا کردہ سہولتوں سے لذت کشید کرنا کبھی کبھی بیماری کی سی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ جب لوگ آسانیاں تلاش کرنے کی راہ پر چلتے ہوئے بہت دور نکل جاتے ہیں تب انہیں مشکلات سے نمٹنے کی عادت نہیں رہتی اور یوں ہر مشکل پیچیدہ تر ہوتی چلی جاتی ہے۔
زندگی صرف آسانیاں تلاش کرنے کا نام نہیں۔ کسی بھی معاشرے کو سب کچھ بنا بنایا نہیں مل جاتا بلکہ عشروں‘ اور بعد کیسز میں صدیوں کی‘ محنت کے نتیجے میں کچھ حاصل ہو پاتا ہے۔ کوئی بھی ملک بڑی طاقت اُسی وقت بنتا ہے جب وہ اپنے آپ کو بدلتا ہے‘ طاقت حاصل کرتا ہے‘ مستقبل پر نظر رکھتا ہے اور زمانے کے تقاضوں کو نبھانے سے رُو گردانی نہیں کرتا۔
ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں بھی اقوام عالم میں اپنے آپ کو منوانا ہے۔ اس راہ میں بہت سی رکاوٹیں پائی جاتی ہیں۔ کسی بھی قوم کے لیے اپنے آپ کو منوانا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے عشروں یا صدیوں تک محنت کرنا پڑتی ہے۔ کئی اقوام نے صدیوں کی ریاضت کے بعد خود کو منوانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یورپ کی بیشتر اقوام کا یہی حال ہے۔ انہوں نے خود کو ''تاریک ادوار‘‘ سے نکالنے کے لیے صدیوں تک محنت کی‘ خود کو مکمل طور پر تبدیل کیا اور سہولتوں سے مزین زندگی کا ایسا معیار پیش کیا کہ آج دنیا اُنہیں ماڈل تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ یورپ‘ امریکا اور کینیڈا مل کر مغربی دنیا کہلاتے ہیں۔ مغربی دنیا نے ثابت کیا ہے کہ ان تھک محنت کے ذریعے خود کو اس قدر تبدیل کیا جاسکتا ہے کہ دنیا دیکھے تو حیران رہ جائے اور پہچانتے ہوئے بھی پہچان نہ پائے۔
ہم اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کی اختتامی گھڑیوں میں جی رہے ہیں۔ یہ گھڑیاں ہم سے بہت کچھ کہہ رہی ہیں۔ اور ہم سے کیا‘ یہ تو سبھی سے کچھ نہ کچھ کہہ رہی ہیں۔ کوئی سُنی کو اَن سُنی کردے تو اور بات ہے۔ دنیا بھر میں تحقیق و ترقی کا بازار گرم ہے۔ زندگی کا معیار بلند سے بلند تر کرنے پر غیر معمولی توجہ دی جارہی ہے۔ ہر معاشرہ چاہتا ہے کہ کچھ ایسا کر دکھائے کہ دنیا متوجہ ہو اور حیران رہ جائے۔ یہ بات کہنے‘ سُننے اور پڑھنے کی حد تک بہت اچھی لگتی ہے‘ مگر جب عمل کی دنیا میں قدم رکھیے تو دانتوں تلے پسینہ آجاتا ہے۔ عمل کی دنیا قدم قدم پر ایثار کی طالب رہتی ہے۔ انسان کو بہت کچھ اپنانا اور بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے۔ جبر صرف چھوڑنے میں نہیں‘ اپنانے میں بھی ہے۔
اہلِ پاکستان کو طے کرنا ہے کہ وہ کس حوالے سے پہچانے اور یاد رکھے جائیں۔ وقت کے تقاضے ہیں کہ بڑھتے جاتے ہیں۔ وہ تو بڑھنے ہی ہیں۔ ہر طرف مسابقت ہے۔ ہر شعبہ غیر معمولی کارکردگی کا طالب ہے۔ ہر فرد اور ہر معاشرے کو صرف آج کے لیے ‘بلکہ آنے والے زمانے کے لیے بھی جینا ہے۔ یہ کام نہ چاہتے ہوئے بھی کرنا ہے۔ وسائل کے تناسب سے آبادی بڑھتی جاتی ہے اور اسی تناسب سے رسّا کشی کا گراف بھی بلند ہو رہا ہے۔ ایسے میں تاخیر و تساہل کی ذرا بھی گنجائش نہیں۔ جو کرنا ہے‘ سو کر گزرنا ہے۔
پاکستان کی مجموعی کیفیت انتہائی پریشان کن‘ بلکہ مایوس کن ہے۔ تعلیم ِ عامہ کا بُرا حال ہے۔ لوگ نئے علوم و فنون سیکھنے کے معاملے میں اپنی اولاد کی حوصلہ افزائی اُس انداز سے نہیں کر رہے‘ جس انداز سے کی جانی چاہیے۔ آج کی دنیا علم و فن کے کاندھوں پر سوار ہوکر آگے بڑھ رہی ہے۔ جو سیکھتا ہے ‘وہی پاتا ہے۔ اور سیکھنا بھی بہت کچھ ہے ‘کیونکہ جو کچھ سیکھنا ہے‘ اُس کا حجم بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اہلِ پاکستان کو اِس حوالے سے واضح سوچ اپنانی ہے۔ زمانے میں پنپنے کیلئے جو کچھ سیکھنا لازم ہے‘ وہ سب کچھ سیکھنے کا محض عزم ہی نہیں کرنا‘ اس حوالے سے عمل نواز رویہ بھی یقینی بنانا ہے۔
پہلے نمبر پر کردار ہے۔ زمانے میں جن اقدار کے لیے غیر معمولی احترام پایا جاتا ہے‘ اُن تمام اقدار پر مبنی کردار کو پروان چڑھانا ہے۔ اس منزل سے بخیر گزرنے ہی پر اطمینان بخش ترقی کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔ آج کی دنیا میں ہر وہ معاشرہ آگے بڑھتا ہے ‘جو ایک خاص کردار کا حامل ہوتا ہے۔ یہ کردار‘ چونکہ بہت سے بنیادی نوعیت کی صفات پر مشتمل ہوتا ہے ‘اس لیے معاشرے کے توانا اور بلیغ اذہان کو بہت کچھ سوچنا ہوتا ہے ‘تاکہ معاشرے کے لیے کسی واضح سمت کا تعین کیا جاسکے۔ آج کے ترقی یافتہ معاشروں پر طائرانہ سی نظر بھی ڈالیے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ کردار کے اعتبار سے ایک خاص سانچے میں ڈھلے بغیر کوئی مانتا ہے‘ نہ پہچانتا ہے۔ ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے معاشرے کے کردار کا تعین لازم ہے۔
دوسرا مرحلہ مستقبل پر نظر رکھنے کا ہے۔ فی زمانہ وہی اقوام کامیاب ہیں‘ جو محض حال سے مطمئن ہوکر گوشہ نشین نہ ہو رہیں‘ بلکہ آنے والے دور کے تقاضوں پر بھی نظر رکھیں۔ حالات تیزی سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ بہت کچھ ہے ‘جو راتوں رات یوں تبدیل ہو جاتا ہے کہ پہچانا بھی نہیں جاتا۔ ایسے میں لازم ہوگیا ہے کہ تبدیلیوں پر نظر رکھی جائے‘ تاکہ مستقبل کے لیے تیار رہنے میں آسانی ہو‘ جن افراد یا اقوام کو مستقبل کے لیے تیار رہنے میں الجھن کا سامنا ہو‘ اُن کے لیے آنے والا دور انتہائی پریشان کن ثابت ہوتا ہے۔ مستقبلیات‘ اب ایک مستقل موضوع ہے ‘جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مستقبلیات سے متعلق شائع ہونے والی کتب کے مطالعے سے انسان اپنی سوچ کو بدل ہی نہیں سکتا ‘بلکہ وسیع بھی کرسکتا ہے۔ سوچ میں وسعت آنے سے انسان خود کو آنے والے دور کے لیے بہتر انداز سے تیار کر سکتا ہے۔ مستقبل کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش سے متعلق رجحان و میلان کو اب futuristic کا اسم ِ توصیف دیا گیا ہے۔ اب ‘جو futuristic ہے‘ وہی آگے بڑھنے کا اہل اور حقدار ہے۔