دل دل پاکستان ‘جان جان پاکستان‘ پاکستان کا مطلب کیالا الہ الا اللہ‘ کشمیر بنے گا پاکستان‘ لے کے رہیں گے آزادی‘ ہم کیا مانگیں‘ آزادی‘ لے کے رہیں گے آزادی ‘مودی سرکار مردہ باد‘ دہلی سرکار مردہ باد۔یہ نعرے مقبوضہ کشمیر کے طول و عرض میں لگ رہے ہیں‘ سبز ہلالی پرچم اب کشمیری نوجوان برسرِ عام لہرا رہے ہیں۔ کشمیر کی گلی گلی میں تحریک ِآزادی چل رہی ہے اور آئے روز اس کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ اس تحریکِ آزادی میں پاکستان کی افرادی قوت شامل نہیں ۔ مقبوضہ وادی میں چلنے والی تحریکِ آزادی وہاں کے پڑھے لکھے جوانوں نے شروع کی ہے‘ یہ کشمیر کی وہ نسل ہے جس نے بھارت کے ظلم وستم کے دور میں آنکھ کھولی‘ بھارتی فوج کے ظلم و ستم اور بربریت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا‘ اپنی ماؤں‘ بہنوں کی بھارتی فوج کے ہاتھوں زیادتی دیکھی۔ یہ نوجوان کشمیری پڑھے لکھے ہیں ‘سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا سے رابطے میں بھی ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی بربریت اور غیر انسانی سلوک کو مہذب دنیا تک کسی نہ کسی طریقے سے پہنچا بھی رہے ہیں۔گزشتہ ادوارِ حکومت میں تو شاید کشمیر ترجیح نہیں رہا اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی اُلجھا رہا‘لیکن اس دوران مقبوضہ کشمیر میں برہان الدین وانی جیسے نوجوانوں نے تحریک آزادی کو نئے زاویے‘ نئی سوچ ‘نئی حکمت عملی سے شروع کیااور یہ تحریک خاموشی سے مقبوضہ کشمیر کے گھر گھرپہنچ گئی۔ بھارت کے پاس دراندازی کے فرسودہ الزامات لگانے کے لیے اب کوئی ثبوت باقی نہیں بچا تھا۔یورپی پارلیمنٹ ‘مغربی ممالک اور دیگر روشن خیال ممالک کی پارلیمانوں میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی فوج کے ظلم و ستم اورانسانیت سوز واقعات کی مذمت کی جا رہی ہے اور بھارت یہ مسئلہ دو طرفہ قراردے کر دبانے میں بھی ناکام ہوچکا ہے ۔ بھارت کے حالیہ انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے الیکشن جیتنے کیلئے کشمیر کارڈ استعمال کیا اور اس کارڈ کو کھیلنے کے ڈرامے میں بھارتی فوج‘خفیہ ایجنسی رااوروہاں کی انتہا پسند تنظیمیں بھی شامل تھیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی سیاسی جماعت نے اپنے منشور میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارتی آئین کے دو حصوں آرٹیکل 35اے اور 370کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ بی جے پی کو الیکشن جتوانے کے لئے پلوامہ ڈرامہ رچایا گیا‘جس کی بنیاد پر بھارت نے پاکستان پر فضائی حملہ کیا اور بالاکوٹ میں میزائل داغے ۔پاکستان کو اس بزدلانہ حملے میں کسی قسم کا کوئی جانی مالی نقصان تو نہیں ہوا‘ لیکن بھارتی جارحیت اور بالادستی کا بیانیہ ضرور تقویت پکڑنے لگا۔ پاکستان نے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اس جارحیت کا جواب دیا اور بھارت کے دو طیارے مار گرائے‘ ایک پائلٹ ابھی نندن کو زندہ گرفتار کر لیا اور بھارت کا غرور خاک میں ملادیا ۔ بھارت تمام تر دباؤ کے باوجود پاکستان پر دوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہ کرسکا۔
پلوامہ ڈرامے کے نتیجے میں نریندرمودی نے سیاسی فوائد حاصل کیے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی‘ تاہم بالاکوٹ حملے کے بعد پاکستان کے جوابی وار نے بھارتی فوج کی ناکامی کی قلعی کھول دی اور عالمی سطح پر بھارتی فوج کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا‘ جبکہ دوسری جانب بھارت کی اندر بسنے والے مسلمانوں اور خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے اندر ایک نئے جذبے نے جنم لیا اور وہ اپنے آپ کو مضبوط تصور کرنے لگے ہیں ‘اسی لیے بھارت کے اندر اب مسلمانوں‘سکھوں‘عیسائیوں اور دیگر ہندو اقلیتوں کو دبانے کے لیے تمام حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ پلوامہ ڈرامے کے بعد بھارت اور اسرائیل مل کر بھی ایک ایڈونچر کرنا چاہتے تھے جس کا پاکستان کی طرف سے بھارت اور اسرائیل کو الگ الگ پیغام دیا گیا اور عالمی برادری کو بھی بتا دیا گیا کہ اگر بھارت کی طرف سے کوئی حملہ کیا گیا تو ایک خطرناک جنگ بھی چھر سکتی ہے ۔پاکستان کے اس پیغام اور تمام تیاریوں سے آگاہی کے بعد بھارت اوراسرائیل کو مل کر بھی نئے حملے کی جرأت نہ ہو سکی اور اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سرخرو کیا۔ نریندر مودی انتخابات جیت چکے ہیں اور پارٹی منشور کے تحت اب بھارتی آئین کے آرٹیکل35 اے اور370کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔آرٹیکل 35اے کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کسی غیر کشمیری کو جائیداد خریدنے کی ممانعت ہے اور کسی غیر کشمیری کو مقبوضہ کشمیر میں رہائشی کا درجہ بھی نہیں دیا جاسکتا‘جبکہ آرٹیکل 370کے تحت بھارتی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی درجہ دیا ہوا ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں حکومت کو اپنا جھنڈا‘ اپنا آئین اور اپنی الگ جغرافیائی شناخت کا تحفظ حاصل ہے۔یہ آئینی ضمانتیں بھارتی سرکار نے ایک معاہدے کے تحت مقبوضہ کشمیر کی قیادت کو دی ہیں۔ یہ معاہدے اور ضمانتیں مقبوضہ کشمیر کی دہلی نواز کشمیری قیادت کو دی گئیں ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر کی بڑی اکثریت اس معاہدے کو بھی تسلیم نہیں کرتی اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے تمام انتخابات میں دہلی نواز کٹھ پتلی حکومتیں ہی قائم کی گئی ہیں‘ جبکہ بڑی اکثریت نے ہمیشہ ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ بی جے پی کے اس منشور کی مخالفت مقبوضہ کشمیر کی دہلی نواز کشمیری قیادت کر رہی ہے اور محبوبہ مفتی ‘ فاروق عبداللہ اور عمر فاروق بھی میدان میں اترے ہوئے ہیں‘ جبکہ مقبوضہ کشمیر کی حقیقی قیادت گھروں میں نظر بند ہے ۔
وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صدر ٹرمپ کی دعوت پر امریکہ کا دورہ کرتے ہیں اور پاکستان کو ایک بڑی سفارتی کامیابی حاصل ہوتی ہے‘ صدر ٹرمپ کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کرتے ہیں‘ جس کے بعد کشمیر عالمی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے اور بھارتی وزیراعظم اور واشنگٹن میں مقیم بھارت کے سفارت کاروں کو بھارت میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔بھارت یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کی باعزت واپسی امریکیوں کے لیے زندگی اورموت کا مسئلہ ہے‘ امریکہ افغانستان میں مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ کی تشکیل اور امریکی افواج کے باعزت انخلا پر پاکستان کو منہ مانگی قیمت نہ سہی ‘لیکن پھر بھی بہت کچھ دے سکتا ہے ۔ افغانستان سے بھارت کا کردار پہلے ہی محدود ہو چکا ہے اور اگر پاکستان کی مغربی سرحدیں مکمل طور پر محفوظ ہوگئیں اور افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو گیا تو پاکستان اور امریکہ مزید قریب آ جائیں گے۔ دوسری جانب کلبھوشن یادیو کا عالمی عدالتِ انصاف میں مقدمہ ہارنے کے بعد بھارت ایک دہشت گرد ریاست ثابت ہوچکا ہے‘ کراچی سے الطاف حسین کا نیٹ ورک ختم ہو چکا ہے اور فاٹا کا علاقہ قومی دھارے میں شامل ہوچکا ہے ‘ان حالات میں سی پیک بھی اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے تو پاکستان مستقبل میں بھارت کو ایک ٹف ٹائم دے گا اور کشمیر کا مسئلہ مزید اجاگر ہوگا۔ خوشحال مضبوط پاکستان بھارت کے اندر رہنے والے مسلمانوں اور خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں ہوگا‘ شاید یہ وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ایک بڑے فوجی آپریشن کی تیاری شروع کر دی ہے۔ بھارت فوجی اور سیاسی دونوں طرح سے مقبوضہ کشمیر کا سٹیٹس تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ایک طرف بھارت آرٹیکل 35اے کو ختم کرکے مقبوضہ وادی میں اسرائیلی طرز کا بندوبست کرنا چاہتا ہے‘ تاکہ غیر کشمیریوں کو لداخ اور کشمیر ڈویژنوں میں لاکر بسایا جائے اور مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے تاکہ دس پندرہ سال بعد اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کروانا بھی پڑے تو جیت ہندوؤں کی ہو اور مقبوضہ وادی میں ہندو اکثریت بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرے‘ جبکہ آرٹیکل 370کو ختم کرکے بھارت چاہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ ختم کرکے اسے بھارت کا لازمی حصہ بنا دیا جائے اور یوں عالمی برادری کو کہہ سکے کہ اب کشمیربھارت کا اٹوٹ انگ ہے ۔ (باقی صفحہ 11 پر)
فوری طور پر بھارت نئی فوجی کمک کو اتار کر اس بڑے فیصلے کے ردعمل کو دبانے کے لئے اقدامات کر رہا ہے اور اگر 35اے اور 370کا خواب بھی پورا نہ کر سکا تو دہلی سرکار مقبوضہ کشمیر میں مستقل گورنر راج لگانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر کے تمام امور براہ راست دلی سرکار کے ذریعے انجام دئیے جائیں ۔
بہت دور کی کوڑی لانے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کے ان جارحانہ اقدامات کے پیچھے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ایک حلقے کا ہاتھ بھی ہوسکتا ہے تاکہ افغانستان کے معاملے میں پاکستان کو مسلسل دباؤ میں رکھا جا سکے اور اگر یہ کشیدگی خوفناک حد تک بڑھتی ہے تو امریکہ ثالثی کے لیے میدان میں اترے اور اس وقت جو بھی حالات ہوں اس میں محض کشیدگی کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے تا وقتیکہ افغانستان کا مسئلہ پاکستان امریکہ کی خواہش کے مطابق حل نہ کروا دے ۔ عالمی اور علاقائی سیاست کے تانے بانے ہر ملک اپنے مفاد کے مطابق ہی بُنتا ہے‘ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے میں عالمی ضمیر کو جگائے اور ایسے دوست ممالک کواپروچ کرے جن کے ساتھ بھارت کے تجارتی مفادات جڑے ہوئے ہیں اور امریکہ کے ساتھ خاص طور پر اپنی سیاسی اور عسکری‘ دونوں سطحوں پر سفارتکاری تیز کرے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو ایل او سی پر بھارت کی وحشیانہ بمباری اورکلسٹر بموں سے ہونے والے نقصانات کا مشاہدہ کروائے ۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو یہ ٹاسک سونپیں کہ وہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو ایک جگہ جمع کریں اور حالات کی سنگینی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل مرتب کریں‘ کیونکہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ‘اپنی شہ رگ کو بچانے کے لئے ہمیں ایک ہونا پڑے گا۔