تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     06-08-2019

سرخیاں‘ متن‘ ریکارڈ کی درستی اور سید عامر سہیل

کشمیر پر وزیراعظم کی خاموشی افسوسناک ہے:مریم نواز
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''کشمیر پر وزیراعظم کی خاموشی افسوسناک ہے‘‘ اور اس سے زیادہ افسوسناک خاموشی وہ ہے‘ جو وہ میرے خلاف انتقامی کارروائی کے سلسلے میں اختیار کئے ہوئے ہیں اور میری گرفتاری کی بھی تیاریاں ہو رہی ہیں‘ جبکہ چچا جان میرے راستے کی مستقل دیوار بنے ہوئے ہیں‘ بلکہ میرے مقابلے کیلئے حمزہ شہباز کو بھی تیار کیا جا رہا ہے؛ حالانکہ میں وزراتِ عظمیٰ کی پوری پوری ریہرسل کر چکی ہوں ‘بلکہ اس تقریب کیلئے کپڑے بھی سلوا رکھے ہیں اور خاص میک اپ کا بھی اہتمام کر رکھا ہے آپ اگلے روز لاہور میں مسلم لیگ ن کے کارکنوں سے خطاب کر رہی تھیں۔
حکومت کو بے نقاب کرنا اپوزیشن کی فتح ہے:بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت کو بے نقاب کرنا اپوزیشن کی فتح ہے‘‘ اور جیل میں والد صاحب سے سینیٹ چیئرمین کے خلاف تحریک ِعدم اعتماد کے سلسلے میں جیل میں ایک با اعتماد شخص کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس کا واحد مقصد حکومت کو بے نقاب کرنا ہی تھا‘ جس میں ہم مکمل طور پر کامیاب ہوئے اور اس ضمن میںدوچار اپنے سینیٹرز کیلئے بھی اشارہ دیاتھا کہ تحریک کیخلاف ووٹ دے کر حکومت کو بے نقاب کریں اور جس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ہمارے ڈپٹی چیئرمین بھی صاف بچ نکلے اور بے نقاب ہونے کے بعد اب‘ حکومت منہ چھپاتی پھرتی ہے اور جس کیلئے انہیں کوئی جگہ نہیں مل رہی اور ادھر ہمارے سینیٹرز نے اپنے استعفے ہمارے پاس جمع کروا کر ثابت کر دیا ہے کہ بے ضمیر لوگوں میں ہمارے سینیٹرز شامل نہیں تھے ‘لیکن قومی مفاد میں یہ استعفے منظور نہیں کیے جا رہے۔ آپ اگلے روز مولانا فضل الرحمن سے فون پر بات کر رہے تھے۔
ارکان کو بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے:مولانافضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ارکان کو بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے‘‘ جبکہ خواجہ آصف کے بیان نے اپوزیشن اتحاد کا بھٹہ ہی بٹھا دیا ہے اور جس سے میری لیڈرشپ کو بے اندازہ نقصان پہنچا ہے کہ خدا خدا کر کے مجھے اپوزیشن کا امیر بننے کا موقعہ ملا تھا اور اگر‘ اپوزیشن اسی طرح تاش کے پتوں کی طرح بکھرنے لگی‘ تو میرا کیا بنے گا؟ پھر اوپر سے میری جیب تلاشی کی بھی باتیں ہو رہی ہیں؛ حالانکہ کوئی بھی عقلمند آدمی پیسے جیب میں نہیں رکھتا‘ اس لیے میری جیب تلاشی لینے والوں کو ایک دمڑی بھی نہیںملے گی؛ اگرچہ میری واسکٹ کی کئی ایسی پرُاسرار جیبیں ہیں کہ ان میں جتنے مرضی پیسے ڈال لو‘ کوئی ان کا سراغ ہی نہیں لگا سکتا اور بجائے اس کے کہ حکومت میرے مسائل پر کوئی توجہ دی جائے‘ الٹا میرے خلاف انکوائری وغیرہ کی دھمکیاں دی رہی ہے‘اس لیے یہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ آپ اگلے روز چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سے فون پر گفتگو کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
جناب آصف عفان نے اپنے کل والے کالم ''خدا کی بستی‘‘ میں افتخار عارف کا شعر اس طرح درج کیا ہے: ؎
کہانی آپ اُلجھی ہے یا اُلجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے جب تماشا ختم ہو گا
پہلے مصرعے میں لفظ ''یا‘‘ محل ِنظر ہے‘ جس میں اس کی الف بری طرح گرتی ہے ‘ اس سقم کو دُور کرنے کیلئے ''یا‘‘ کی بجائے ''کہ‘‘ استعمال کرنا چاہیے ‘تاکہ مصرعہ پورے وزن میں آ جائے کہ ہو سکتا ہے اوریجنل شعر میں بھی مصرعہ اسی طرح ہو؛ اگرچہ افتخار عارف جیسے کہنہ مشق اور معتبر شاعر سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
نفیس صدیقی نے اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح نقل کیا ہے ؎
جو دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے
مصرعہ اول میں ''دھجی‘‘ میں ''ی‘‘ گرتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اصل مصرعہ ‘اسی طرح سے ہو ‘جبکہ پہلے دو لفظوں کی ترتیب بدل دینے سے یہ نقص دُور ہو سکتا ہے۔
اور اب‘ آخر میں سید عامرؔ سہیل کی شاعری:
خداوند عالم!
غزل نینوا ہے غزل کوئی خانم
خداوند عالم
رات حنائی
لیکن پھر بھی رات ہے بھائی!
رات حنائی
کرچو کرچی
ایک محبت مرچو مرچی
کرچو کرچی
برف سے پہلے
تم ہو ہر ہر حرف سے پہلے
برف سے پہلے
ہوا سن رہی ہے
میں کیا کہہ رہا ہوں‘ وہ کیا سن رہی ہے
ہوا سن رہی ہے
دکھ دیتی ہیں
بندوقیں کب سکھ دیتی ہیں
دکھ دیتی ہیں
آج کا مطلع
نہ کوئی بات کہنی ہے‘ نہ کوئی کام کرنا ہے
اور اُس کے بعد کافی دیر تک آرام کرنا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved