تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     06-08-2019

کشمیر کا مستقبل!

گزشتہ تین دہائیوں میں ‘ کشمیر کی تحریکِ آزادی کئی موڑ مڑ چکی ۔1989ء میں جنم لینے والی سیاسی تحریک اُس وقت اس قدر طاقتور تھی کہ آزادی کی منزل بہت قریب نظر آرہی تھی‘ لیکن بھارت نے کسی نہ کسی طرح اسے دبا ہی لیا۔ یہ کڑوا سچ ہے کہ فوج ‘ ٹینکوں اور جہازوں پہ مشتمل ریاستی طاقت بہت خوفناک ہوتی ہے اورغیر مسلح شہریوں کو آزادی حاصل کرنے کے لیے خون کے کئی دریا عبور کرنا ہوتے ہیں ۔
2010ء میں جب کچھ کشمیری نوجوانوں کوبھارتی فوج نے جعلی مقابلوں میں شہید کیا‘ تو اس کے بعد شروع ہونے والے ہنگامے بہت خوفناک تھے۔ اس وقت بھی یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ یہ مظاہرے نتیجہ خیز ثابت ہوں گے ‘لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
پھر مظفر وانی کا زمانہ شروع ہوتا ہے ۔وہ ایک نوجوان کمانڈر تھا ‘ جو بھارتی فورسز کیخلاف نا صرف مسلّح کارروائیوں میں مصروف تھا‘ بلکہ سوشل میڈیا پر بھارتی سرکار اور فوج کو ان کی اوقات بھی یاد دلاتا رہتا تھا۔کشمیری نوجوانوں کے دلوں میں وہ گھر کر چکا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مظفر وانی سے متاثر ہو کر مسلح جدوجہد کی طرف مائل ہو رہی تھی ۔ 
برہان وانی کے منظرعام پر آنے سے قبل 8برس پر مشتمل جنرل پرویز مشرف کا پورا دور گزر چکا تھا۔ جنرل مشرف ‘ جنہوں نے کبھی کارگل جیسا ایڈونچر کیا تھا‘ وہ اقتدار میں آنے کے بعد مسئلہ کشمیر حل کرنے کی خواہش میں بھارت کو کئی آئوٹ آف دی باکس تجاویز پیش کر چکے تھے۔ ان تجاویز میں اس وقت کی حکومت اپنے اس آہنی موقف سے پیچھے ہٹتی دکھائی دیتی تھی کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ۔نائن الیون کے پس منظر میں پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں جہادی تنظیموں کی مدد مکمل طور پر بند کر دی تھی ۔ اس پورے دور کا حاصل یہ تھا کہ کشمیری حریت لیڈرشپ کا کہنا یہ تھا کہ پاکستان بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگنا چھوڑکر حریت لیڈرشپ کو اخلاقی اور سیاسی سپورٹ فراہم کرنا شروع کرے ۔
یہ وہ حالات تھے‘ جن میں کشمیری نوجوان اس نتیجے پر پہنچ رہے تھے کہ سیاسی طور پر اس مسئلے کا کوئی حل نہیں اور آزادی انہیں چھین کر ہی لینی پڑے گی؛چنانچہ برہان وانی ان حالات میں ایک بہت محبوب شخصیت بن کے ابھر رہا تھا۔ 
8جولائی 2016ء کو جب برہان وانی شہید ہوا‘ تو یہ 2010ء کے بعد تحریکِ آزادی کو جِلا دینے والا سب سے بڑا واقعہ تھا۔ اس شہادت کے نتیجے میں مسلح بھارتی فوج سے کشمیری عوام کے ایسے پے درپے تصادم کی راہ ہموار ہوئی ‘ جس کے نتیجے میں مزید 96افراد شہید ہوئے ۔ 15ہزارشہری اور 4ہزار بھارتی فوج زخمی ہوئے ۔جموں کشمیر کے علاقے میںمسلسل 53دن کرفیو نافذ رہا ۔یوں 2010ء کے بعد کشمیر کی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ ہنگامہ خیز دن تھے ۔ 
14فروری 2019ء کو مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کا واقعہ پیش آیا۔ خود کش بمبار نے دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی کار سکیورٹی اہلکاروں کے قافلے سے ٹکرا دی‘ جس کے نتیجے میں چالیس سکیورٹی اہلکار مر گئے ۔ جہادی لیڈر شپ ایک بار پھر آگے بڑھتی ہے اور وہ یہ کہتی ہے کہ آزادی ہمیں لڑ کر ہی چھیننا ہوگی ۔ اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل نہیں ۔ 
کہا جاتاہے کہ بھارت اب‘ مقبوضہ کشمیر میں ایک بڑے قتل ِ عام کی تیاری کر رہا ہے ۔ غیر ملکی اور بھارتی سیاحوں کو علاقے سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ قریباً38 ہزار تازہ دم فوجی دستے اتارے جا چکے ہیں ۔سید علی گیلانی کا کہنا یہ ہے کہ بھارت کشمیر میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا قتل ِعام کرنے جا رہا ہے ۔ 
کشمیر کا مستقبل کیا ہے ؟ کیا وہ بھارتی تسلط سے آزاد ہو پائے گا؟ کہتے ہیں کہ سیاسی پرندے سب سے زیادہ مستقبل شناس ہوتے ہیں ‘ جس طرح حالیہ برسوں میں محبوبہ مفتی سمیت بھارت نواز کشمیری لیڈرشپ کے لہجے بدلے ہیں ‘ اس سے لگتا یہ ہے کہ کشمیر جلد آزاد ہونے والا ہے ۔ خود بھارت کے بہت سے سیاسی لیڈروں کا کہنا یہ ہے کہ ہم کشمیر کھو چکے ہیں ۔ پیلٹ گنوں سے کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد کو اندھا کرنے کی انتہائی بربریت کے باوجود کشمیریوں کو ان کے گھروں میں بند نہیں کیا جا سکا۔ ہر شہید کے جنازے میں ہزاروں افراد امنڈ آتے ہیں ۔ 
یہ کالم لکھا جا رہا تھا کہ خبر آئی کہ بھارت نے آرٹیکل 35اے ختم کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے ۔ یہ اقدام غیر کشمیریوں کو کشمیر میں جائیدادیں خریدنے سمیت دوسری آزادیاں دے گا‘ جس کے ذریعے آہستہ آہستہ کشمیر کی مسلمان اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی۔ جیسا کہ ہم فلسطین میں دیکھ چکے ہیں ‘ لیکن بھارت ایک بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہے ۔ فلسطین کی پشت پر اس طرح کی سپورٹ موجود نہیں ہے ‘ جس طرح کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز بھارت کو چیلنج کر تی رہتی ہے ۔ ابھینندن والا واقعہ ابھی پرانا نہیں ہوا‘ جب پاکستانی عسکری قیادت نے دنیا بھر میں بھارت کو انتہائی سبکی اٹھانے پر مجبور کر دیا ۔ 
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شام کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے ۔ 8سال میں چار لاکھ افراد قتل ہونے کے بعد بھی بشار الاسد کی افواج کو ہرایا نہیں جا سکا‘ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ روس سے لے کر ایران تک کی مدد بشار الاسد کو حاصل ہے ۔ یہ بھارت کی غلط فہمی ہے کہ وہ شام یا فلسطین کی طرح آزادی کی تحریک کو کچل کے رکھ دے گا۔ بھارت‘ شام جیسی بمباری اور قتل ِ عام کشمیر میں کبھی بھی نہیں کر سکے گا۔
یہ بات درست ہے کہ پاکستان سے جا کر نجی گروہوں کو کشمیر میں مسلح کارروائیوں کا حق نہیں ہے‘ لیکن جو کشمیری آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں ‘ ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سیاسی اور مسلح جدوجہد میں سے جس کا چاہے انتخاب کر سکتے ہیں ۔ اس کی ایک بڑی مثال یٰسین ملک ہیں ‘ جن کی صحت انتہائی حد تک خراب ہو چکی ہے ۔ مستقبل قریب میں ان کے حوالے سے کسی بھی وقت کوئی بھی بری خبر سننے کو مل سکتی ہے اور یہ ایک ایسا ایونٹ ثابت ہو سکتا ہے کہ جو برہان وانی کی شہادت کے مقابلے میں کہیں بڑا ثابت ہو ۔ 35اے کو ختم کرکے بھارتی حکومت نے ایک ایسی غلطی کر دی ہے ‘ جو کشمیر کی تحریکِ آزادی کے لیے نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔ بھارت‘ کشمیر میں ہار چکا ہے ۔ یہ بات وہ اب تسلیم کرے یا دس سال بعد ‘ یہ اس کی اپنی بصیرت پہ منحصر ہے ۔ 
بھارت‘ کشمیر میں بری طرح مصروف ہے ۔لاکھوں کی تعداد میں اس کی افواج‘ کشمیر میں پھنسی ہوئی ہیں ۔ بد دلی پھیل رہی ہے ۔ ''انڈیا ٹوڈے‘‘ سمیت بھارتی اخبارات کے مطابق ‘2009ء سے 2014ء کے درمیان 597بھارتی جوان اور افسر خود کشی کا ارتکاب کر چکے‘ یعنی 120سکیورٹی اہلکار سالانہ۔ ناکام خودکشیوں کے واقعات اس کے علاوہ تھے ۔ بھارت کبھی بھی عسکری فاتح نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجودہمیشہ ان پہ حکومت کرتے رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں بہت بڑا احساسِ کمتری پایا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ بڑ ہانکنے میں مشغول رہتے ہیں اور نتیجہ وہ نکلتا ہے ‘ جو ابھینندن کی صورت میں نکلا تھا ۔ 
الغرض یہ بھارت کی خام خیالی ہے کہ اگر ‘وہ کشمیر میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی کرے گا‘ تو پاکستان خاموش رہے گا۔ ایسی صورت میںعالمی ضمیر بھی خاموش نہیں رہے گا !بھارت کو شاید اس بات کا ابھی ادراک نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved