تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     07-08-2019

منقسم کشمیر

بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کے اعلان کے بعد پاکستان کے کئی شہروں اور پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر میں اس فیصلے کے خلاف مظاہرے شروع ہوچکے۔ان مظاہروں میں کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی اور بھارتی فیصلے کی پرُ زور مذمت کی جا رہی ۔ الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ‘دونوںپر اسی ایشو کا چرچا ہے۔
بھارت کے اس فیصلے سے لائن آف کنٹرول پرپاکستان کی طرف رہنے والے کشمیریوں میں خوف پیدا ہوچکا۔پاکستانی سرحدی علاقوں میں بھی کشیدہ صورتحال ہے۔لائن آف کنڑول پر کشیدگی کوئی نئی بات نہیں‘بھارت کئی بار نہتے شہریوں پر گولہ باری کرتا رہا ہے ۔اس حوالے سے حالیہ دنوں میں بھارتی گولہ باری سے متاثرہ علاقوںکا اقوام متحدہ اور عالمی مبصرین کو دورہ بھی کروایا گیا۔دریں اثناء پاکستانی پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی نے اپنے معمول کے ایجنڈے کو معطل کر کے مقبوضہ کشمیر پر بات چیت کرنے کا فیصلہ بھی کیا ۔ صدرِ پاکستان نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا ‘ جبکہ پاکستانی فوج بھی اس پر غور وغوض کے لیے کورکمانڈرز کانفرنس کا انعقاد کیا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اس فیصلے کی بھر پور مذمت کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اس طرح کے فیصلوں سے اس کی بین الاقوامی حیثیت تبدیل نہیں ہوگی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کشمیری اس فیصلے کو کسی صورت بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ پاکستان متنازعہ کشمیر کے فریق کے طور پر اس غیر قانونی اقدام کے خلاف ہر ممکنہ قدم اٹھائے گا۔کوئی شک نہیں کہ پاکستان 70 سال سے اپنے اس موقف پر ڈٹا ہواہے اوراس نے اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار ِیکجہتی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اب‘عالمی برادری بھی اس مسئلے پر نظر جمائے ہوئے ہے ‘اوربہت سے سوالات ان کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں کہ آیا آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کس کو فائدہ ہو گا؟ کیا اس سے کشمیریوں کو کوئی فائدہ ہو گا؟ بھارت نے اس ترمیم کے اطلاق کے لیے کیسے اقدامات کیے ہیں؟ کتنے فوجی کشمیر میں لے آیا ‘ کرفیو لگا دیا گیا‘ انٹرنیٹ بند کر دیا ‘ مواصلات کے تمام ذرائع بند کر دئیے گئے۔ان سب اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کو کشمیر کے لوگوں سے مزاحمت کا خوف تھا۔ہونا بھی چاہیے ‘ کیونکہ کشمیری اپنا حق مانگ رہے ہیں۔وہ بھارت کے اس فیصلے کے خلاف تھے اور خلاف ہیں۔کسی بھی ملک کو اختیار نہیں کہ وہ کسی بھی قوم یا ریاست کی شناخت ختم کردے ۔
مقبوضہ کشمیر کو اقوام متحدہ بھی ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کرتی ہے‘ لیکن تنازعہ کا حل ابھی تک ایسا معما ہے ‘جو حل موجود ہونے کے باوجود بھارت حل نہیں کرنا چاہتا۔ بھارت ابھی تک اپنی ہٹ دھرمی (مقبوضہ کشمیر پرناجائز قبضہ) پر تلا ہوا ہے ۔ کشمیریوں کے حقوق‘ جن میں بنیادی حق‘حق ِخود ارادیت ہے‘ وہ دینے کے لیے تیار نظر نہیں ۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کو طاقت‘ ظلم و جبر کے زور پر اپنی قابض اَفواج کے ذریعے اپنے اندر اس طرح ضم کر لے کہ کشمیر کا کوئی نام نہ لے سکے۔ہندوستان کے آئین میں آرٹیکل370 کے تحت کشمیر کا خصوصی سٹیٹس تسلیم کیا گیا‘ لیکن انتہا پسند بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے بی جے پی کے انتخابی منشور میںدعویٰ کیا تھا کہ کشمیر کا خصوصی سٹیٹس ختم کر دیا جائے گا۔یہ سٹیٹس آرٹیکل 370 میں محفوظ کیا گیا تھا۔یوںمودی نے ایک بار پھر کشمیری عوام پر شب وخون ماراہے۔
ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کا تاریخی پس منظر‘ اس کی اہمیت اور اسے منسوخ کرنے کے لیے قانونی حیثیت کیا ہے‘بہت سے لوگ واقف ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق بھارتی قانون کا آرٹیکل 370‘ جنوری 1950ء کوآئین کا حصہ بنا۔ آرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ ریاست کا اپنا آئین ہو گا اور بھارت کی قانون ساز اسمبلی کا اختیار فقط تین شعبوں(دفاع ‘ مواصلات اور خارجہ امور) تک محدود رہے گا۔
بھارتی حکومتیں ہمیشہ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے الحاقی دستاویز(Instrument of Accesion)کو بھارتی ایکٹ 1953ء کے آرٹیکل2(1) کے تحت گورنر جنرل کے لیے قانونی جوازبناتی ہیں‘مگرگورنر جنرل نے الحاق کی منظوری میں لکھے گئے خط میں لکھا ہے کہ کشمیر میں امن وامان کی صورتحال بحال ہوتے ہی اِس مسئلے کا حل(الحاق) کشمیری عوام کی اُمنگوں کے مطابق حل کیا جائے گا۔ اِس کے علاوہ1954ء میں بھارتی حکومت نے بھی تسلیم کیا کہ کشمیری لوگوں کی خواہشات معلوم ہونے تک یہ الحاق عارضی سمجھا جائے گا۔ بھارت سمجھتا ہے کہ الحاقی دستاویز مہاراجہ کی ذاتی رائے ہے‘ اگر ایسا ہے تو الحاقی دستاویز کی شق7 واضح کرتی ہے کہ ریاست کی دستور ساز اسمبلی ریاست کا آئین تشکیل دے گی اور بھارت کا آئین نہیں اپنایا جائے گا۔ مہاراجہ کے اعلانیہ سے واضح ہے کہ بھارت یونین سے مراد یہ نہیں کہ بھارتی آئین بھی مقبوضہ کشمیر میں لاگو ہو گا۔
آرٹیکل370 اور اِس کے مقبوضہ کشمیر پر اطلاق سے متعلق بہت سے سوالات عوام کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں۔ ایک ملک کا قانون ایسی مقبوضہ ریاست میں لاگو ہو سکتا ہے‘ جس پراس نے وہاں کی عوام کی اُمنگوں کے خلاف قبضہ کیا ہو؟کون سی دستور ساز اسمبلی مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے سکتی ہے؟ وہ کون سے عوامل ہو ں گے‘ جو دستور ساز اسمبلی کو قانونی حیثیت دیں گے؟کیا یہ دستور ساز اسمبلی لوگوں کی حقیقی نمائندہ ہو گی؟مقبوضہ کشمیر کبھی بھی بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں تھا ۔ اگر ‘ہم آرٹیکل 370 اور مقبو ضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کا پس منظردیکھیںتو وہ در حقیقت شروع ہی سے متنازعہ اور کالعدم ہے۔
پاکستانی حکومت اور مسلح افواج مسئلے پر سر جوڑے ہوئے ہے ۔امید ہے وہ بھارت کے ناجائز اقدام کو عالمی سطح پر اٹھائیں گے اورکشمیریوں کو ان کا حق ضرور دلوائیں گے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved