مقبوضہ کشمیر کی دستوری ہیئت میں تبدیلی کے ذریعے بھارت نے جو کرنا تھا کر لیا۔ انتہا پسندی کے نرغے میں آئی ہوئی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی اس حرکت نے ثابت کر دیا ہے وہ اپنے مسائل سلجھانے کی صلاحیت کھو بیٹھی ہے۔ اس نے بندوق کی طاقت کے ساتھ ساتھ ہندوتوا کی عددی طاقت کشمیریوں کے حق آزادی کو روندنے کے لیے استعمال کر کے ثابت کر دیا ہے کہ اپنے داخلی تضادات پر اپنے تئیں قابو پانے کے لیے وہ کسی بھی بین الاقوامی معاہدے کو روند سکتی ہے۔ اسے اقوام متحدہ میں کیے گئے وعدوں کا کوئی پاس ہے نہ پاکستان کے ساتھ طے پائے ہوئے شملہ معاہدے کی اس کی نظر میں کوئی قدر ہے۔ یہ واضح ہو چکا کہ بھارت کی اجتماعی دانش بھی مذہبی جنون کا شکار ہو کر فیصلے کرنے لگی ہے‘ جس کے تابع اس نے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار لی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے اس نے اپنے ترکش میں موجود آخری تیر چلا ڈالا ہے۔ اس کے بعد اب اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا سوائے اس کے کہ وہ مذاکرات کرے۔ اور کسی ملک کے لیے اس سے بڑی بدنامی کیا ہو سکتی ہے کہ وہ ایسے علاقے کے بارے میں مذاکرات کرے جسے وہ دستوری طور پر اپنا قرار دے چکا ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر کی دستوری حیثیت میں تبدیلی صورتحال کو جوہری طور پر بدل سکتی تو بھارت ناگا لینڈ، میزو رام یا میگھالیہ میں علیحدگی پسند تحریکوں پر قابو پا چکا ہوتا کیونکہ ان ریاستوں کی قانونی حیثیت تو پہلے سے وہی تھی جو مقبوضہ کشمیر کی اب کی گئی ہے۔ بھارت کے گھاگ سیاستدان یہ بات بھی بھول گئے ہیں کہ آزادی کی تحریکیں قانونی نظام کے تابع نہیں ہوتیں بلکہ قانونی نظام جتنا سخت ہوتا چلا جاتا ہے یہ تحریکیں اتنی ہی مضبوط ہوتی جاتی ہیں۔ رہ گیا یہ سوال کہ اب مقبوضہ کشمیر میں ہندو اکثریت جائیدادیں خرید کر یہاں آبادی کا تناسب بدل ڈالے گی تو یہ خام خیالی ہے۔ تقسیم ہندوستان کے وقت پاکستان کے علاقوں میں جائیدادیں ہندوؤں اور سکھوں کی ملکیت تھیں، لیکن ملک تقسیم ہو گیا تو سب جائیدادیں یہیں کی یہیں رہ گئیں۔
یہ طے ہے کہ بھارت اپنے دستور میں ترمیم کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں زمینی حقائق تبدیل نہیں کر پائے گا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس اقدام سے اس نے پاکستان کے لیے خارجی اور داخلی نوعیت کے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ خارجی مسائل کا تعلق افغانستان اور امریکہ سے جبکہ داخلی مسائل کا تعلق ہمارے ماضی سے ہے۔ ہمیں اس موقع پر غیر معمولی دانش مندی سے افغانستان، امریکہ، بھارت، کشمیر اور اپنے داخلی مسائل کو ایک دوسرے سے الگ رکھنا ہو گا۔ اگر ہم نے موجودہ حالات میں افغانستان کے حل کو کشمیر سے جوڑا یا مقبوضہ کشمیر کے حق میں اٹھنے والی لہر کو غلط سمجھا تو خطا کھائیں گے۔ بے شک ان معاملات میں مشترک عنصر پاکستان ہے لیکن اس اشتراک کے باوجود یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہیں۔ ہم افغانستان اور کشمیر کو آپس میں جوڑ کر پہلے ہی خاصا نقصان اٹھا چکے ہیں، اگر اب ہم نے ایسا کیا یا کرنے کی کوشش کی تو ہمارا پاؤں بھارت کے تیار کردہ جال میں پڑے گا اور وہ افغانستان میں ہمارا حریف بن کر آ جائے گا۔ اس موقع پر روایات میں جکڑا ہمارا دفتر خارجہ لا یعنی باتوں کے سوا کچھ نہیں کر پائے گا۔ ہمیں کچھ نیا سوچنا ہو گا اور اس طرح کہ پہلے مقاصد کا تعین کیا جائے، پھر ان کے حصول کی حکمت عملی ترتیب دی جائے تاکہ ہم اس بے وقوف کی طرح نہ ہو جائیں جس کے ہاتھ میں ہتھوڑا آ جائے تو وہ ہر مسئلے کو کِیل سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔
کشمیر کے حوالے سے ہمیں اپنے نظام کا بھی از سرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔ پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کو ہی لے لیجیے، اس کے چیئرمین جب نوابزادہ نصراللہ خان تھے تو یہ کچھ نہیں کرتی تھی، حامد ناصر چٹھہ اس کے سربراہ بنے تو وہ بھی اس گھوڑے میں جان نہیں ڈال سکے، مولانا فضل الرحمن رہے تو بھی یہ بے معنی رہی۔ اب فخر امام ہیں تو بھی کچھ نہیں کرتی۔ یہ اتنی ناکارہ ہے کہ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر اس کا تعارف بھی مکمل نہیں، حتیٰ کہ کشمیر میں ہونے والی شہادتوں کے اعداد و شمار بھی صرف دو ہزار آٹھ تک کے ہی دیے گئے ہیں۔ اس بے عملی کی وجہ صرف یہی ہے کہ اس کی سربراہی دراصل سیاست دانوں کی پارکنگ کا بندوبست ہے، اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اصولاً تو اس کمیٹی کو بہت پہلے سے حالات کو بھانپ کر کچھ کرنا چاہیے تھا لیکن اپنی ساخت کی وجہ سے یہ پہلے کچھ کر پائی نہ اب کچھ کر سکتی ہے۔ اگر یہ کمیٹی متحرک ہو جائے تو پاکستان دنیا میں بھارت کے لیے کئی مصیبتیں کھڑی کر سکتا ہے۔ بھارت نے داخلی نظام کے ذریعے کشمیر جیسے بین الاقوامی مسئلے کو اپنے تئیں حل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے مقابلے پر ہمارا نظام اس صورتحال کا قبل از وقت ادراک کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں رہا، اس لیے ہمیں ایک بحرانی کیفیت نظر آ رہی ہے۔ یہ کیفیت وقتی ہے، اگر ہم اس کا تحمل سے جائزہ لیں تو اس میں بھارت کی ہزیمت کے روشن امکانات بھی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ بشرطیکہ ہم تیزی سے منصوبہ بندی کر کے اسے عمل میں لے آئیں۔
اس نئی صورتحال میں ہمارے سامنے حقیقت پسندانہ مقاصد یہ ہو سکتے ہیں کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارت کی طرف سے عالمی معاہدوں کو نظر انداز کرنے کے عمل کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اس مقصد کے لیے کسی بیوروکریٹ کو ذمہ داری دینے کی بجائے ایسے ماہر آدمی کو دی جائے جو دنیا کے ہر دارالحکومت میں جا کر لوگوں کو صرف کشمیر کے بارے میں آگاہ کرے۔ ہم اسے کشمیر کے لیے نمائندہ خصوصی بنا کر سفیر یا نائب وزیر خارجہ کا درجہ بھی دے سکتے ہیں۔ سیاستدانوں کو بھی اس کام سے دور رکھنا چاہیے کیونکہ یہ لوگ اپنے اپنے حلقوں کے اسیر ہو کر بین الاقوامی طور پر کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں پی ٹی وی کے انگریزی چینل کو بھی بہتر بنانے کی طرف بھرپور توجہ دینی چاہیے تاکہ دنیا بھر میں ہمارا موقف تو پہنچ سکے۔ اردو میڈیا پر ہم کتنا ہی زور لگا لیں وہ مقامی طور پر تو مؤثر ہو سکتا ہے لیکن بین الاقوامی طور پر اس کی پہنچ صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں تک ہی محدود ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے دو ایسے پہلو بھی ہیں جن کے بارے میں ہماری ہیئت حاکمہ کو سوچنا ہو گا۔ دو میں سے ایک پہلو سیاسی ہے اور دوسرا پالیسی سے متعلق۔ سیاسی پہلو یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر آواز بلند کرنا ہو گی۔ اس آواز میں توانائی اسی وقت آئے گی جب حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو نظام کے اندر کچھ جگہ ملے گی۔ گزشتہ ایک سال کے دوران سیاست میں اتنی تلخی گھل چکی ہے کہ حزبِ اختلاف کی کوئی بھی سیاسی جماعت پوری طرح کام نہیں کر پا رہی۔ اس لیے اس موقع پر سیاسی تلخیوں کو کم کرنے کے لیے جو کچھ ممکن ہو کرنا چاہیے۔ پالیسی سے متعلق پہلو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ آپریشن جبرالٹر سے لے کر کارگل تک ہم نے اپنے حصے کی غلطیاں کر لی ہیں۔ کسی بھی قسم کی غیر سیاسی یا غیر سفارتی کارروائی کا راستہ روکنے کے لیے ہمیں جو کچھ بھی کرنا پڑے کرنا چاہیے۔ ہمارے اندر آج بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کشمیر کو بنیاد بنا کر ایسی حرکتیں کی ہیں جو عالمی سطح پر ہمارے لیے خفت کا باعث بنی ہیں۔ ان لوگوں پر کڑی نظر رکھیں گے اور ہم اس طرح کی خفت سے بچے رہیں گے تو کشمیریوں کی جدوجہد مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائے گی۔ ہم کشمیر پر جتنے شفاف انداز میں آگے بڑھیں گے دنیا اتنی ہی توجہ سے ہماری بات سنے گی۔ اگر ہم ترانے ہی گاتے رہے تو اس کا نقصان کشمیر کو ہو گا۔