ادبی رسالہ ''مکالمہ‘‘ اکادمی بازیافت کراچی سے شاعر اور نقاد مبین مرزا نکالتے ہیں ‘جو اس دفعہ بھی مجلد ہے‘ ضخامت 534 صفحات‘ ٹائٹل دیدہ زیب‘ آغاز افسانوں سے کیا گیا ہے۔ افسانہ نگاروں میں اسد محمد خاں‘ رضیہ فصیح احمد‘ مسعود اشعر‘ زاہدہ حنا‘ سلمیٰ اعوان‘ اے خیام‘ طاہرہ اقبال‘ محمد حامد سراج‘ شہناز خانم عابدی‘ امجد طفیل (تین افسانے)‘خالد محمود سنجرانی‘ زین سالک‘ الیاس دانش‘ اشتیاق احمد‘ محمد ہاشم خاں‘ فیصل سعید ضرغام اورخواجہ عاکف محمود شامل ہیں۔مضمون نگاروں میں ڈاکٹر قاضی افضال حسین‘ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ‘ ڈاکٹر انیس اشفاق‘ محمد سہیل عمر‘ یاسمین حمید‘ ڈاکٹر ضیاء الحسن‘ ڈاکٹر نجیبہ عارف‘ ڈاکٹر طارق ہاشمی‘ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک اور جمیل الرحمن ہیں۔شاعری میں نظمیں اور غزلیں ایک ساتھ ہی چھاپی گئی ہیں۔ شعراء میں خاکسار کے علاوہ سحر ؔانصاری‘ پیرزادہ قاسم‘ انور شعور‘ تحسین فراقی‘ جلیل عالی‘ جمیل الرحمن‘ ضیاء الحسن‘ خورشید ربانی‘ عطا الرحمن قاضی‘ عبیرہ احمد‘ سیدہ عطیہ خالد اور شہباز اکمل شامل ہیں۔ تراجم میں آرتھری کلارک کے مضمون کا ترجمہ محمد سلیم الرحمن نے کیا ہے‘ اس کے علاوہ روبرٹ گریوز اور شہزادہ اتسو کا ترجمہ بھی محمد سلیم الرحمن ہی نے کیا ہے‘ جبکہ مارٹن لنگز کے مضمون کا ترجمہ تحسین فراقی نے کیا ہے۔یادیں اور خاکوں میں خاکسار کی درگزشت کی 20ویں قسط ‘ حسن منظر کا 'اوراق بوسیدہ‘ فاروق خالد کا ' زنداں نامہ‘/ 'میرے بزرگ اور گرم و سرد زمانہ‘ پر محمد حمزہ فاروقی نے لکھا ہے ‘جبکہ حمیرا خلیق نے 'میری زاہدہ سے زاہدہ حنا تک‘ پر قلم آرائی کی ہے۔ اخلاق احمد نے 'میرا مہاراجا ‘پر نجیب عارف نے 'حسن محبوب شد‘ سید عامر سہیل نے 'میرے لطیف الزمان صاحب ملتانی ‘پر اور خرم سہیل نے 'دردمند‘ مخلص اور شفیق انسان ‘کے عنوان سے مضمون باندھا ہے۔
اس کے بعد غالبؔ‘ اقبالؔ اور فیضؔ کے حوالے سے تحریریں ہیں‘ جن میں 'فیض ؔاور اقبالؔ کا دردِ مشترک‘ کے عنوان سے فتح محمد ملک کی تحریر ہے ‘جبکہ محمد حمید شاہد نے ' فکرِ اقبالؔ کی عصری معنویت ‘پر لکھا ہے‘ جبکہ ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی کے مضمون کا موضوع ہے' علامہ اقبالؔ ہائیڈل برگ اور ایک شام‘۔سفر و حضر کے تحت محمد عارف جمیل نے 'حاضر سائیں ‘پر لکھا ہے ‘جبکہ سبوحہ خان نے 'زرد پتوں کا بن- جو مرا دیس ہے‘ پرمضمون باندھا ہے۔طنز و مزاح کے حصے میں وحید الرحمن خان کا 'خانہ خراب کے خطوط‘ کے عنوان سے مضمون ہے‘ پھر ایک حصہ حاصلِ مطالعہ کا ہے ‘جس میں فتح محمد ملک نے 'فیضؔ اور ملکۂ شہر ِزندگی‘ پر لکھا ہے‘ ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے 'گورا صاحب‘ ہمارا احساس کم تری اور اردو‘ پر قلم اٹھایا ہے‘ جبکہ ایم خالد فیاض نے محمد عمر میمن کا افسانہ 'واپسی‘ پر لکھا ہے۔اس کے بعد انور سجاد پر 'طائفہ ‘کے عنوان سے یونس جاوید کا مضمون ہے اور ڈاکٹر امجد طفیل نے 'انور سجاد‘ جدید اردو فکشن کا سرخیل‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔آخر پر قارئین کے خطوط ہیں‘ جن میں پروفیسر سحرؔ انصاری اور محمد حمزہ فاروقی شامل ہیں۔ حصۂ نثر حسب ِ معمول خاصا وقیع ہے ‘جبکہ حصۂ غزل کی حالت حسب ِ معمول پتلی ہے‘ تاہم نظموں میں سے کچھ نمونے حاضر ہیں:
انکار کی روشنی (پیرزادہ قاسم)
ابھی وقت نے مرے کان میں / نئی زندگی کا سخن کہا / نئی روشنی کی نوید دی / گئی تیرگی کو گہن کہا / وہ جو نا رسائی تھی بخت کی / اُسے زندگی کی گھٹن کہا / نئی زندگی کا سخن ہے‘ اب / تری زندگی مری زندگی / نئی روشنی کا نصاب ہے / تری روشنی‘ مری روشنی / اسی روشنی نے تو وقت کو / نئے حوصلوں کی کمان دی / وہ جو آبلے تھے ‘زبان کے / انہی آبلوں کو زبان دی / جو یہ قفل ٹوٹے تو یوں لگا / کہ کسی نے حرفِ یقیں کہا / سربزم میری زبان نے / بڑے بانکپن سے نہیں کہا
جھوٹ اور سچ کے تماشے (عبیرہ احمد)
ذرا دیکھ میرے مقدر کی شاخوں پہ / جتنے شگوفے تھے / سب جل گئے ہیں / مرے رختِ جاں پر / بہاروں کا ضامن / کوئی گل نہیں ہے / ذرا یاد کر جب / تری خوش بیانی نے / جھوٹ اور سچ کے تماشے میں / میری زباں کاٹ دی تھی / وہ دن شوقِ پرواز میں جب / ترے بازوئوں نے / مری شاخِ جاں کاٹ دی تھی / ترے مرمریں قصر کے سنگِ بنیاد میں / میرا خوں ہے / ترے بعد برسوں / تمازت میں چل چل کے میرے قدم / تھک گئے ہیں / جبھی یخ کدے میں بھی تو بے سکوں ہے / مسیحائی کے زعم میں جتنے نشتر / ترے ہاتھ سے / میری رگ رگ میں اُترے / سبھی پر ترے خوں مرے خوں / کے دھبوں سے لپٹا ہوا ہے / مری قطعِ جاں ہی سے تیری نمو ہے / مگر یہ یہ بھی سچ ہے / تری آبرو ہی مری آبرو ہے / ترا حال میری نظر سے عیاں ہے / کہ تُو میری جاں ہے!
اور ‘ اب آخر میں مجموعہ کلام ''ماخذ‘‘ سے فیصل ہاشمی کی یہ نظم:
گاہے گاہے
جدا جدا ناموں میں بٹی ہیں / وہ دنیائیں‘ جن کی حقیقت / ایک حساب سے گھٹتی بڑھتی/ زندگیوں کا محور تھی / جانے کس پل-سارے سورج / راتوں کی سیّال کشش میں / ڈوب گئے تھے / گردش کرتی اُداسی کے مرکز میں / بھید بھنور تھا ‘جو بھی / وہیں کہیں چکرا کے گرے تھے / سارے زمانے / جن کے کچھ ایّام ابھی تک تیر رہے ہیں / پانی میں / پانی ‘جس کی رواں موجوں کی / ٹھنڈک ہے‘ سب چہروں پر / پانی‘ جس میں تیرا میرا سب کا رُوپ نہاںہے / پانی‘ جس کی فیض رساں تقسیم---ابد کی منزل ہے / پانی‘ جس کی معطّر چھایا-- /پہناوا اس دنیا کا /کیسی کیسی باتوں سے / اور کتنے ہی بے ساخت حوالوں کے حربوں سے / تمہیں بتانا چاہا میں نے / کتنے خزانے چھُپے ہوئے ہیں / اس پانی کی گہرائی میں / تھکی ہوئی اس رعنائی میں /کتنی صُبحیں کتنی شامیں سوئی پڑی ہیں / پھیل رہی ہیں / گاہے گاہے ‘ان بھیدوں کے / بچھواڑے میں / زنجیروں میں جکڑے ہوئے اجسام / رہائی پا جاتے ہیں / گاہے گاہے اپنے آپ کو بھولنے والے / سارے زمانے یکجا ہو کر / گردش کرتی اس دوری میں / ہم سے ملنے آ جاتے ہیں!!
آج کا مطلع
وہ دن بھر کچھ نہیں کرتے ہیں‘ میں آرام کرتا ہوں
وہ اپنا کام کرتے ہیں‘ میں اپنا کام کرتا ہوں