تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     07-08-2019

کشمیر کا مستقبل

کشمیری گزشتہ کئی عشروں سے بھارت کے ریاستی جبر کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور انہیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حق خود ارادیت سے محروم رکھا گیا ہے۔ دنیا بھر میں بسنے والی دیگر اقوام کی طرح کشمیریوں کا بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اپنی مرضی سے کر سکیں‘ لیکن آمرانہ ہتھکنڈوں اور غیر جمہوری رویوں کے ذریعے ان کے اس مطالبے کو دبایا جا رہا ہے۔ بھارت اپنے آپ کو ایک سیکولر جمہوری ریاست قرار دیتا ہے ‘لیکن کشمیر کے مسئلے پر اس کا رویہ کلی طور پر آمرانہ ہے اور اس نے آج تک کشمیرکی عوام کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ یہ تاسف کا مقام ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزیوں کے باوجود بین الاقوامی برادری نے آج تک اس مسئلے میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا۔ دنیا کے کئی علاقے‘ جہاں پر غیر مسلم آبادیاں اپنے حقوق کے لیے آوازکو اُٹھاتی رہی ہیں‘ ان کے مطالبات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بین الاقوامی برادری نے ہر اعتبار سے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کیا‘ لیکن کشمیر‘ فلسطین اور برما جیسے تنازعات پر بین الاقوامی برادری اپنی ذمہ داریوں کا پاس کرتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ 
وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تو بھارتی حکومت نے اس پیشکش کو سختی سے مسترد کر دیا اور امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیان کوبھی کسی طور پر قبول نہ کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نے ان کو اس مسئلے میں ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ بھارت نے؛ اگرچہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا ہو ا ہے‘ لیکن بعض بھارت نواز سیاستدانوں کی ہمدردیوںکو حاصل کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 370 کو پیش کیا جاتا رہا‘ جس کے تحت بظاہر کشمیر کو ایک علیحدہ ریاست کا مقام دیا گیا تھا۔آرٹیکل 370 کے مطابق‘ کشمیریوں کو اپنا آئین داخلی حکمت عملی اور جھنڈا رکھنے کی مکمل آزادی تھی اور 1949 ء سے یہ آرٹیکل بھارت کے آئین کا حصہ تھا۔ دفاع ‘ مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ اس کو آئینی طور پر ایک خود مختار ریاست کی حیثیت حاصل تھی ‘لیکن حالیہ دنوں میں اس کی شناخت اور خود مختاری چھین کر اسے کلی طور پر بھارتی ریاست میں ضم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔بھارتی حکومت یہ منصوبہ بنا رہی ہے کہ کشمیر کو مرکزی حکومت کے زیر انتظام کر دیا جائے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں کشمیریوں سے حق حکمرانی کو چھین کر بھارت کے حوالے کیا جا رہا ہے اور نقل مکانی کے ذریعے مسلمان اکثریتی علاقوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے ایک منظم منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔ آرٹیکل370 کی رو سے کشمیر میں بیرونی آبادکاروں کے لیے سکونت یا پراپرٹی کی خریدوفروخت کی گنجائش نہ تھی اور اس طریقے سے بھارت کی واحد مسلمان اکثریت کے علاقے کی قومی شناخت کے برقرار رہنے کے کچھ نہ کچھ امکانات موجود تھے۔ 
ماضی میں کشمیر میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کے مقابلے میں بعض انڈیا نواز رہنما کشمیر کی اس ریاستی حیثیت کو اجاگر کرکے حریت پسند رہنماؤں کے بیانیے کو مسترد کرنے کی کوشش کرتے تھے‘ لیکن بھارتی حکومت نے حالیہ دنوں میں اولاً صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اور بعدازاں بھارتی ایوان بالا راجیہ سبھا میں جبراً آرٹیکل 370 کو منسوخ کروانے کے بعد اب‘ ایوان ِزیریں لوک سبھا سے اس آرٹیکل کو منسوخ کروانے کی پلاننگ مکمل کر لی ہے۔ اس آرٹیکل کے منسوخ ہونے کے بعد کشمیر کی خود مختار حیثیت آئینی طور پر ختم ہو جائے گی۔ اس وقت مسئلہ کشمیر بین الاقوامی میڈیا کی توجہات کا مرکز بنا ہوا ہے ۔ کل تک بھارت کے ساتھ وابستگی کا اظہار کرنے والے کئی رہنما بھی اس وقت اپنے گھروں میں نظر بند کیے جا چکے ہیں؛ چنانچہ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے بھارت نواز رہنماؤں کو اس وقت نظر بند کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح حریت رہنماؤں کو مختلف مقامات پرمحبوس کیا جا چکا ہے اور اس وقت ہزاروں مزید فوجیوں کو بھی وادی کشمیر میں داخل کیا جا چکا ہے۔ بین الاقوامی نشریاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق ‘کشمیر میں خوف وہراس اپنے پورے عروج پر پہنچ چکا ہے اور پوری وادی میں لاک ڈاؤن کی ایک کیفیت پیدا کی چکی ہے۔ انسانوں کی نقل وحرکت کو بری طرح منجمد کیا جا چکا ہے اور کاروبارِ زندگی ہر اعتبار سے مفلوج ہو چکا ہے۔ موبائل نیٹ ورک اور انٹر نیٹ سروس کو معطل کیا جا چکا ہے اور پوری وادی میں پکڑ دھکڑ کاسلسلہ جاری ہے۔ 
گزشتہ کئی عشروں سے جاری رہنے والا یہ تنازع‘ جہاں بین الاقوامی اداروں کی توجہات کا مستحق ہے۔ وہیں پر اُمت مسلمہ نے بھی اس حوالے سے اپنی اس ذمہ داری کو ادا نہیں کیا‘ جو ان کے کندھوں پر عائد ہوتی تھی اور بدقسمتی سے یہ مسئلہ بڑے مسلمان ممالک کی سیاسی ترجیحات میں شامل نہیں ہو سکا ۔ اُمت مسلمہ کے قائدین کو اس حوالے سے کتاب وسنت کی تعلیمات کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجرات کی آیت نمبر10میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ اسی طرح بخاری ومسلم کی ایک روایت‘ جس کے راوی حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں‘میں مذکور ہے: '' مومن کی مثال آپس میں ایک دوسرے سے رحم کا معاملہ کرنے ایک دوسرے سے محبت و تعلق رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی و معاونت کا سلوک کرنے میں ایک جسم کی طرح ہیں کہ اگر جسم کے کسی ایک عضو میں کانٹا لگنے یا بخار کی وجہ سے درد ہو تو پورے جسم میں وہ محسوس ہوگا۔‘‘
اس وقت لائن آف کنٹرول پر ہونے والی گولہ باریاں‘انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں اور بھارت کا جارحانہ رویہ کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے جاری رہنے والی تحریک آزادی نئے مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ اس حوالے سے بین الاقوامی برادری اور اُمت مسلمہ پر عائد ہونے والی ذمہ داریاں؛ اگرچہ اپنی جگہ پر خصوصی اہمیت کی حامل ہیں‘ لیکن جو ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے‘ وہ دنیا کے کسی اور ملک پر عائد نہیں ہوتی‘ اس لیے کہ کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کی بہت بڑی وجہ ان کی پاکستان کے ساتھ روحانی ‘سیاسی اور قومی وابستگی ہے۔ کشمیری ستر برس تک انڈیا کے غاصبانہ قبضے کے باوجود پاکستان سے لاتعلقی پر آمادہ وتیار نہیں ہوئے اور پاکستان کے یوم آزادی پر کشمیر کی پوری وادی میں پاکستان سے جس طرح وابستگی کامظاہرہ کیا جاتا ہے‘ اس سے کشمیریوں کی فکر اور ذہنی رجحانات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نظر نہیں آتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے میچز کے دوران بھی کشمیر کا نوجوان بھارت کی بجائے پاکستان کی حمایت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ 
مجھے دنیا کے مختلف مقامات پر کشمیری بھائیوں سے ملاقات کرنے کا موقع میسر آتا رہا ہے۔ برطانیہ میں بھی بڑی تعداد میں آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں ۔ میں نے ہمیشہ ان لوگوں کو پاکستان سے والہانہ وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے پایا ہے اور ان کی نظروں میں تنازعہ کشمیر کا واحد حل پاکستان سے الحاق ہے اور یہ لوگ کسی اور حل کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ چند ماہ قبل مجھے عمرے پر جانے کا موقع ملا تو مدینہ منورہ میں بعض کشمیری احباب بڑے ہی پرجوش انداز میںملے۔ بعد ازاں یہ کشمیری احباب مجھ سے ملاقات کے لیے اس ہوٹل میں بھی تشریف لائے‘ جہاں میرا قیام تھا۔ انہوں نے اس ملاقات میں کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو نقشہ کھینچا تو دل ودماغ پر ایک افسردگی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ سری نگر کے ان دوستوں میں پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت نظر آئی اور یہ دوست احباب پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بہت زیادہ متفکر نظر آئے۔ 
مغربی اقوام نے ہمیشہ حریت ِفکر اور جمہوری آزادیوںکی بات کی ہے‘ لیکن کشمیر پر ہونے والے غاصبانہ قبضے اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تلافی کے لیے تاحال انہوں نے بھی اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ کشمیر میں پیدا ہونے والی موجودہ بحرانی کیفیت ‘جس کا تعلق حالیہ آئینی تبدیلیوںکے ساتھ ہے ‘نے خطے کے امن کو داؤ پر لگا رکھا ہے اور پاکستان کی ریاست پر اس حوالے سے بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس موقع پر بحیثیت مجموعی ایک موثر اور جامع کردار ادا کرے اور یہ ذمہ داری فقط حکومت پر نہیں ‘بلکہ اپوزیشن پر بھی عائد ہوتی ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے بھارتی جارحیت کی مذمت کی ہے۔پاکستان میں اس حوالے سے پارلیمنٹ کا ہونے والا مشترکہ اجلاس بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کے عسکری اور دفاعی ادارے بھی انڈیا کی جارحیت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور کسی بھی غیر متوقع صورتحال میں انڈیا کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستانی قوم کو اس حوالے سے یکسو ہونے کی ضرورت ہے اور ملک کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو اہل کشمیر کی قربانیوں کا پاس کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیری ہر اعتبارسے پاکستان کی ہمدردیوں اور تائید کے طلب گار اور حق دار ہیں اور اس حوالے سے ہمیں بحیثیت ِقوم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘ تاکہ کشمیریوں کے دکھوں کا ازالہ ہو سکے ‘ ان کو اپنی منزل مل سکے اور ان کی خواہشات کے مطابق‘ پاکستان سے ان کے الحاق کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved