وزیراعظم عمران خان کے امریکی انتظامیہ کے ساتھ اپنے تلخ تعلقات کی بحالی کیلئے مذاکرات اوردونوں مملکتوں کے مابین نیٹو فورسز کی افغانستان سے محفوظ واپسی پہ اتفاق رائے کے باوجود امر واقعہ میں کسی جوہری تبدیلی کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں‘بلکہ افغان تنازعہ کو جلدی میں نمٹانے کی کوشش اس خطہ میں کئی نئے تنازعات کو جنم دینے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔حالیہ میل ملاپ کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ نیٹو فورسز کی افغانستان سے واپسی کا فیصلہ کر لینے کے باوجود مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ کی اس تعلّی میں کہ ''وہ ہفتہ کے اندر افغان جنگ جیت سکتے ہیں ‘لیکن اس میں دس ملین لوگ مارے جائیں گے‘‘۔ دراصل ایک سپرپاور کی بے بسی کا اظہار دکھائی دیتا تھا‘اسی لئے خود امریکی دانشوروں کا ایک موثر حلقہ اس'' امن معاہدہ‘‘ کو ''پسپائی معاہدہ‘‘ سے تشبیہ دے رہا ہے۔
بلاشبہ امریکی تاریخ کی یہ طویل ترین جنگ ایسے سنڈروم کی صورت اختیار کر چکی ہے‘ جس سے فریقین کیلئے دامن چھڑانا اب ‘مشکل ہوتا جا رہا ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد چیئرمین آف دی جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل مارک ملّے نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو افغان وار پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ''افغان جنگ سے جلدی میں نکلنے کی کوشش تزویری غلطی ہو گی‘‘۔انہوں نے کہا کہ ''میرے خیال میں یہ جنگ؛ اگرچہ سست رفتار‘ دردناک‘اور سخت ہے‘ لیکن ضروری بھی ہے‘‘۔جنگی ماہرین کہتے ہیںکہ کسی بھی فریق کیلئے اپنی مرضی سے جنگ میں داخل ہونا تو آسان کام ہے‘ لیکن میدان ِجنگ سے واپس نکلنا یا من مانے نتائج لینا ناممکنات کے قریب ہوتا ہے۔ہرچند کہ بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ افغان جنگ کے فریقین اور علاقائی طاقتیں اس تنازعہ کا ''پرُامن‘‘حل چاہتی ہیں‘لیکن پھر بھی تمام سٹیک ہولڈرز کے مفادات میں توازن اور جنگ کے بہتے دھارے کو کنٹرول کرنا آسان نہیں ہو گا‘جس دن وزیر اعظم عمران خان امریکی انتظامیہ کے ساتھ افغان تنازعہ کے پرامن حل کیلئے بات چیت میں مصروف تھے ‘عین اس وقت طالبان کاخراسانی گروپ ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ اورڈسٹرکٹ ٹیچنگ ہسپتال کے ٹراما سنٹر میں ہونے والے خودکش دھماکہ کی ذمہ داری قبول کر رہا تھا۔
28 جولائی کی صبح کابل شہر میں افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سابق چیف اور اشرف غنی کے ہمراہ نائب صدارت کے امیدوار امراللہ صالح کے چار منزلہ پارٹی ہیڈکوارٹر پہ ہونے والا خودکش حملہ‘جس میں 20 سے زیادہ لوگ جاں بحق اور پچاس کے لگ بھگ زخمی ہوگئے‘صدرٹرمپ کی دس ملین افراد ہلاک کرنے کی تعلّی کا جواب تھا‘یہ خودکش حملہ کابل کے قلب میں واقع ایک ایسی عمارت کے چوتھے فلور پر ہوا ‘جہاں سخت ترین سیکورٹی انتظامات اور نہایت مشاق محافظ فورس ہمہ وقت چوکس کھڑی رہتی ہے؛اگرچہ امراللہ صالح اس جان لیوا حملہ میں بچ نکلے‘ لیکن اس مہلک حملہ کا پیغام یہی تھا کہ غیر ملکی فورسز کی موجودگی کے باوجود کابل میں اشرف غنی حکومت کا وجود بتدریج تحلیل ہوتا جائے گا۔ طالبان کے ترجمان شیرمحمد ستانکزئی کہتے ہیں کہ ''امریکہ شکست کے دہانے پہ کھڑا ہے‘وہ کسی مہمل سے معاہدہ کا سہارا لیکر یہاں سے نکل جائے گا یا پھر نکال دیا جائے گا‘‘۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی فورسز افغان جنگ کی حرکیات پہ قابو پانے میں ناکام رہی ہیں‘امریکی اگر اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کی طاقت رکھتے تو کسی حد تک ان کیلئے میدان ِجنگ کے میرٹس و مفادات کو اپنے ہاتھ میں رکھنا ممکن ہوتا ‘ لیکن نیٹو فورسز کی کمزوری انہیں افغان جنگ کو حتمی نتیجے تک پہنچانے سے پہلے ہی کسی عبوری بندوبست کے ذریعے میدانِ جنگ سے نکل جانے پہ مجبور کر رہی ہے‘بلکہ افغانستان میں عام انتخابات کا التواء بھی امن مذاکرات سے قبل طالبان کی بڑی کامیابی سمجھا گیا‘ لہٰذا ایسے ناگفتہ بہ حالات میں امن معاہدات یا انخلاء کے عمل کو امریکی ضرورتوں کے مطابق ‘ڈیزائین کرنا دشوار ہوگا۔جنوبی ایشیا کیلئے نئی امریکی پالیسی کے تحت افغان تنازعہ کے کسی قابل عمل حل سے قبل صدر ٹرمپ اپنے تزویری مفادات کے تحفظ کی خاطر بلگرام ائربیس سمیت افغانستان میں کچھ مستقل فوجی اڈوں کی موجودگی اورپاکستان میں ایک کوارڈی نیٹنگ آرمی کی فراہمی یقینی بناناچاہتا ہے۔اس لیے وہ افغانستان میں طالبان کی بجائے ''عوام‘‘کی نمائندہ ایک ایسی مخلوط حکومت بنانے کا خواہش مند ہے ‘جو فیصلہ سازی کی استعداد اور ریاستی استبداد کی قوت سے عاری ہو‘شاید اسی لئے امریکن ہر قیمت پہ پاکستان کو سیٹو‘سینٹو سے مماثل معاہدات کی طرف واپس لانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں‘ تاکہ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی انہیں جنوبی ایشیاء میں ایک مضبوط آرمی کی موثر شراکت داری میسر رہے۔
لیکن اب شاید مذکورہ بالادونوں منصوبوں کو ویسے عملی جامہ پہنانا ممکن نہ ہو‘ جس طرح 50 کی دہائی میں ایک خاص قسم کی صورت حال میں اسے یقینی بنایا گیا تھا۔ایک تو طالبان اپنے مقاصد و نظریات سے متضاد کسی ایسے تجویز کو قبول نہیں کریں گے‘ جو ان کی طویل جدوجہد اورناقابل فراموش قربانیوں کے ثمرات کو ضائع اور ان کی نظریاتی وحدت کو تقسیم کرنے کا ذریعہ بنے۔دوسرے طالبان فوری طور پہ سیزفائر کریں گے ‘نہ افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی کو قبول کریں گے۔وہ اس تنازعہ کے کسی ایسے سیاسی حل کو بھی نہیں مانیں گے‘ جس میں ان کی پوزیشن ثانوی رہ جائے‘پھر آج کے حالات میں‘جب جنوبی ایشیا میں امریکہ کا اثر ورسوخ گھٹ رہا ہے۔پاکستان کیلئے بھی50 اور60 کی دہائی میں واپس پلٹ کے زندہ رہنا ممکن نہیں ہو گا۔ اس لیے برطانیہ و امریکہ کو کوارڈی نیٹنگ آرمی کے فرسودہ تصور سے دستبردارہونا پڑے گا۔بلاشبہ اس وقت افغان جنگ کو اپنے فطری انجام کی طرف بڑھنے سے روکنا ممکن نہیں رہا ۔اس لیے اسی خطہ میں اپنی موجودگی یقینی بنانے کی خاطر امریکہ کو یا تو اس جنگ کو جاری رکھنا پڑے گا یا پھر اسے پرامن پسپائی کی ایسی شرائط قبول کرنا ہوں گی‘ جو مڈل ایسٹ کی سٹرٹیجک حیثیت کو بدل ڈالیں گی۔اگر ‘ہم جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال پہ نظر ڈالیں تو امریکہ کیلئے چین کی مربوط اقتصادی پیشقدمی سے زیادہ مڈل ایسٹ میں ایران کی جارحانہ پیشقدمی کو کنٹرول میں رکھنے کا مسئلہ زیادہ اہم ہے۔امریکہ کو عراق جنگ کے نتیجہ میں ابھرنے والی ابومصف الزرقاوی کی جماعت التوحید‘القاعدہ‘جبّۃ النصر اور داعش جیسی تحریکوں کو کچلنے کی خاطر ایران کی زمینی فورسز کو عراق اور شام میں داخل کرانے کی حکمت عملی مہنگی پڑی ہے۔خوف و ترغیب کے تمام ترہتھکنڈے کا سامنا کرنے کے باوجود ایران اپنی گراونڈ فورسز کو مڈل ایسٹ سے نکالنے پہ آمادہ نہیں ہو رہا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ ایران پہ حملہ کرنے سے اس لئے ہچکچا رہا ہے کہ ایران ‘اگر جنگ کی لپیٹ میں آیا تو افغانستان سے لیکر شام تک پھیلا پورا مسلم خطہ مہیب خانہ جنگی کے ایسے سیلاب کی لپیٹ میں آ جائے گا‘ جومستحکم عرب ریاستوں سمیت اسرائیل کو بھی بہا لے جائے گا؛چنانچہ آبنائے ہرمز اورمڈل ایسٹ کے بحران سے نمٹنے کے لئے انہیں کابل میں فرینڈلی حکومت کے علاوہ جنوبی ایشیا میں کوارڈی نیٹنگ آرمی کی ضرورت ہے۔ اسی تناظر میںوزیراعظم عمران خان نے یو ایس اے کے انسٹیٹیوٹ آف پیس میں بھی گفتگو کی۔ بہرحال !اب‘ افغان تنازعہ کاجنگی یا پُرامن حل ہی پاکستان کے مستقبل کا تعین کرے گا۔