عمران خان نے کشمیر‘ ٹرمپ کے ہاتھوں بیچ دیا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عمران خان نے کشمیر‘ ٹرمپ کے ہاتھوں بیچ دیا‘‘ اور سارے پیسے خود ہی ہڑپ کر گیا ہے اور میں جو سال ہا سال تک کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا ہوں‘ اس میں سے میرا حصہ نکالا ہی نہیں جو کہ سراسر زیادتی ہے اور میرے پاس وہی سیر سپاٹے اور فراغتیں رہ گئی ہیں‘ جن سے میں اُس دوران مستفید ہوتا رہا ‘جو رہ رہ کر یاد آتی ہیں‘ تاہم عمران خان بتائیں کہ ٹرمپ سے کشمیر کے کتنے پیسے وصول کیے ہیں اور وہ کہاں ہیں؟ بلکہ ان کی منی ٹریل بھی بتائیں اور میری بد دُعاؤں کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار رہیں اور سشما سوراج بیچاری بھی خواہ مخواہ میری بد دُعاؤں کی زد میں آ گئی‘ جو دراصل نریندر مودی کیلئے تھیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
مودی سے بات کرنی ہے تو نواز شریف کی طرح کی جائے: ایاز صادق
سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ ''مودی سے بات کرنی ہے تو نواز شریف کی طرح کی جائے‘‘ یعنی کسی عزیز کی شادی پر اُسے شرکت کی دعوت دی جائے اور تحفے تحائف کا تبادلہ کرنے کے علاوہ بھارت میں اپنے کاروبار کے حوالے سے بھی بات چیت کی جائے اور اس دوران باتوں باتوں میں کشمیر پر بھی گپ شپ کر لی جائے ‘تاہم اس ضمن میں اتنی احتیاط ضروری ہے کہ اس ملاقات پر دفتر خارجہ‘ بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی اندھیرے میں رکھا جائے اور اُنہیں کلبھوشن کے بارے میں بھی بتا دیا جائے کہ وہ بالکل خیریت سے ہیں اور اس بات کی داد بھی طلب کی جائے کہ میں نے قومی سطح پر اس قدر شور شرابہ کے باوجود کلبھوشن کا کبھی نام تک نہیں لیا اور اس طرح دوستی کا پورا پورا حق ادا کر دیا ہے اور یہی مودی سے بات کرنے کا آسان ترین طریقہ بھی ہے‘ بیشک اسے آزما کر دیکھ لیا جائے۔ آپ اگلے روز سیالکوٹ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
جیل کے مزے
ایک اخباری اطلاع کے مطابق ‘کئی فراڈ کے ملزم ہسپتالوں میں مزے اُٹھا رہے ہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل کیمپ میں چیک اپ کروانے کے لیے آئے ملزم تین ماہ سے ہسپتال میں بیٹھے ہیں۔ ایم ایس ہسپتال کی ملی بھگت سے ملزم داخل ہوئے‘ کوئی کارروائی کرنے والا نہیں‘ وغیرہ وغیرہ؛ اگرچہ یہ کوئی خبر نہیں‘ کیونکہ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور جونہی کوئی سیاسی شخصیت یا بیورو کریٹ شکنجے میں آتا ہے‘ قدرتِ الٰہی سے وہ لازماً بیمار پڑ جاتا ہے اور داخل ہسپتال ہو کر اُسے گھر جیسی سہولیات حاصل رہتی ہیں؛ حتیٰ کہ سزایابی کے بعد بھی وہ انہی عیاشیوں سے مستفید رہتا ہے ‘جس سے سزا کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے‘ بلکہ سزا سے کوئی سبق حاصل کرنے کی بجائے وہ دوبارہ ایسا ہی جرم کرنے کے لیے بے چین ہو جاتا ہے‘ اور اگر اُس نے لوٹ مار بھی کر رکھی ہو‘ تو ان حالات میں اُس پیسے کی واپسی ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ سو‘ جیل ہو یا ہسپتال؛ دونوں میں ایک ہی جیسے مزے ہیں۔
کلاسیکی ادب کی فرہنگ
اس کتاب کے مرتب نامور محقق‘ نقاد اور ماہر متونیات رشید حسن خاں ہیں‘ جو مجلس ِترقیٔ ادب‘ لاہور نے چھاپی ہے۔ ضخامت 714صفحات‘ جبکہ انتساب اس طرح سے ہے: ''اچھے افسانہ نگار اور بہت اچھے انسان انور خاں (مرحوم) کی یاد میں ‘‘۔بقول اقبالؔ ؎
جوہرِ انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں
ناشر ڈاکٹر تحسین فراقی حرفے چند میں لکھتے ہیں:اُمیدِ واثق ہے کہ اہلِ قلم اس کتاب سے کماحقہ استفادہ کریں گے۔ یہ فرہنگ مستقبل میں تیار ہونیوالے اُردو لُغات کے رقبے کو بھی وسیع کرے گی اور اس سے یہ اندازہ لگانا بھی کسی قدر آسان ہو جائے گا کہ اُردو کا کلاسیکی ادب اپنے دامن میں الفاظ و تراکیب کا کیسا زندہ اور تحیر خیز خزانہ سمیٹے بیٹھا ہے‘ جس کے جاننے سے دانش و بینش کے کتنے ہی در وَا ہو سکتے ہیں اور فکر و خیال کو تازہ توانائی میسر آ سکتی ہے۔ ع
بسم اللہ اگر تاب و تواں ہست کسے را
پیش لفظ ڈاکٹر خلیق انجم کے قلم سے ہے‘ وہ لکھتے ہیں: ''اُردو میں متون کی فرہنگیں کافی تعداد میں تیار کی گئی ہیں۔ یہ بات پوری ذمہ داری کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ فرہنگ نویسی کے سلسلے میں اس پائے کا عالمانہ اور محققانہ کام اُردو میں پہلی بار ہوا ہے ‘‘۔(آپ جنرل سیکرٹری انجمن ترقیٔ اُردو‘ ہند ہیں)
اور‘ اب آخر میں رفعتؔ ناہید کی یہ تازہ غزل:
اک ویران گلی کے موڑ پہ کالا مندر‘ پیلا گھر
باہر اندر سناٹا ہے‘ اندر باہر پیلا گھر
خواب نگر سے چلتے چلتے میں کس در پر آ پہنچی
رنگ برنگے دروازے ہیں نیچے اوپر‘ پیلا گھر
سرد ہوا کی رہداری میں سوکھے پتے اڑتی دُھول
گیٹ کے اندر ویرانی ہے اور بھی اندر پیلا گھر
زرد ورانڈہ‘ دھوپ سنہری‘ سائے اُودھے‘ مٹی لال
پھول کٹیلے‘ جامن نیلے‘ پیڑ سے اوپر پیلا گھر
اک دوجے کے شانے پر سر رکھ کر دونوں اُونگھ گئے
گرم سلگتی دوپہروں میں نیلا انبر پیلا گھر
بے شک باغ نہیں ہے اس میں‘ ڈال تو پھولوں والی ہے
اور بھی رنگ مکانوں کے ہیں‘ سب سے بہتر پیلا گھر
میں دہلیز سے باہر جا کر اُس کی یاد کو چھوڑ آئی
جا کر واپس آ بیٹھی ہوں گلے لگا کر پیلا گھر
بول سہیلی کیا کہتی ہے چل کھیلیں ہم ریت کے ساتھ
آ مری مچھلی سُرخ جزیرہ‘ ہرا سمندر پیلا گھر
آج کا مقطع
سرخیاں ہیں مرے چہرے پہ ظفرؔ اس گھر کی
یوں کسی نے مجھے رنگِ در و یوار دیا