تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     08-08-2019

جغرافیہ کیسے بدلتا ہے؟

5 اگست 2019ء کو تاریخ بدلی ہے یا جغرافیہ؟
کیا بھارت، پاکستان یا کوئی ایک ملک، تنہا تاریخ و جغرافیہ بدلنے پر قادر ہے؟
قوت و اقتدار کے کھیل میں اخلاقیات کا کیا کوئی کردار ہے؟
واقعات، عالمِ اسباب کے تابع ہیں یا ماورائے اسباب بھی کوئی نظام ہے جو واقعات کا رخ متعین کرتا ہے؟
مسئلہ کشمیر، جو برسوں سے ان سوالات کے حصار میں تھا، اب ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا۔ ایک طرف سفارت کاری کا کھیل ہے جس میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ہر مسئلہ ایک عالمگیر تناظر رکھتا ہے اور اسی میں اس کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ پھر وہ کوششیں ہیں جن کا محور انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ یہ اس بنیاد پر ہیں کہ اخلاقیات عالمی رائے عامہ کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ایک طرف وہ مساعی بھی ہیں جو پاکستان اور بھارت دونوں جاری رکھے ہوئے ہیں کہ اس خطے کی تاریخ و جغرافیہ، ان کی خواہشات کے مطابق مرتب ہوں۔ ایک گروہ کشمیر میں جاری کشمکش کو ما بعدالطبیعاتی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ قدیم مذہبی کتب میں اسے حق و باطل کے معرکے کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور ان کے لیے بشارتیں ہیں جو اس میں شمشیر بکف شرکت کریں گے۔
ستر برس، یہ نقطہ ہائے نظر رکھنے والے سب گروہوں نے اپنی سی کوشش کر کے دیکھ لی۔ کوئی نتیجہ خیز نہیں ہو سکی۔ پاکستان اور بھارت اپنی اپنی خواہشات کے مطابق اس خطے کی صورت گری میں ناکام رہے۔ پھر یہ کہ برسوں سے انسانی حقوق کی پامالی جاری ہے مگر اس بنیاد پر کشمیریوں کے حق میں کوئی عالمی تحریک نہیں اٹھ سکی۔ مذہب کی بنیاد پر جنگ لڑ کر دیکھ لی گئی۔ اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر ہونے کی وجہ سے یہ عالمی مسئلہ بھی ہے مگر عالمی قوتیں اسے حل نہیں کر سکیں۔
سوال یہ ہے کہ 5 اگست کو کیا ہوا؟ کیا یہ کسی نئے حل کی طرف پیش قدمی ہے یا یہ کسی پامال راستے پر اٹھا ہوا کوئی قدم ہے؟
دو دنوں میں واقفانِ حال نے تجزیہ کر کے بتا دیا کہ بھارت کا یہ قدم کوئی سفارتی بنیاد رکھتا ہے نہ اخلاقی۔ حتیٰ کہ یہ اقدام خود بھارت کے آئین سے متصادم ہے۔ آئین ضروری قرار دیتا ہے کہ مقبوضہ کشمیرکی اسمبلی کی طرف سے اس طرح کی کوئی تجویز پیش ہو۔ یہ معلوم ہے کہ کشمیر کی اسمبلی نے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کس زعم میں یہ سمجھتا ہے کہ وہ تنہا اس خطے کی صورت گری کر سکتا ہے؟ اگر ماضی میں، وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا تو آج کیسے ہو سکتا ہے؟
اب اس پیش رفت کے دو ہی اسباب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ بھارت نے یہ قدم امریکہ سمیت اہم ممالک کو اعتماد میں لے کر اٹھایا ہے۔ پاکستان فیٹف کے مطالبات اور معاشی بحران کی وجہ سے دباؤ میں ہے۔ اس دباؤ سے نکالنے کی شرط پر، پاکستان کو آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھارتی اقدام کو قبول کر لے۔ اگلے مرحلے کے طور پر، پاکستان کو یہ لالچ بھی دیا جا سکتا ہے کہ لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنا دیا جائے۔ یوں پاکستان بھی فتح کا پھریرا لہرا سکتا ہے۔ سادہ الفاظ میں انجام کشمیر کی تقسیم ہے۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان بالجبر نہیں، بالارادہ اس عمل کا حصہ ہے۔ پاکستان کو بھی اس اقدام سے پہلے اعتماد میں لیا گیا ہے۔ دونوں ملک اب یہ جان چکے کہ کشمیر کا مسئلہ ان کی خواہشات کے مطابق حل نہیں ہو سکتا۔ جنگ کے بارے میں عمران خان صاحب نے پارلیمنٹ میں کہہ دیا کہ اس کا فاتح کوئی نہیں ہو گا۔ بھارتی قیادت بھی یہ بات جانتی ہے۔ یوں دراصل دونوں ممالک حقیقت پسندی کے ساتھ کشمیر کی تقسیم پر راضی ہو چکے اور انہیں اس معاملے میں عالمی قوتوں کی تائید بھی میسر ہے۔ یہی دراصل وہ ثالثی ہے جس کا ذکر صدر ٹرمپ نے کیا تھا۔
اس تجزیے پر چار سوالات اٹھ سکتے ہیں:
1۔کیا اہلِ کشمیر اس حل کو قبول کر لیں گے؟ کیا وہاں کوئی ایسی مزاحمتی تحریک اٹھ سکتی ہے جو اس پیش رفت کو سبوتاژ کر دے؟
2۔ مودی ہندو انتہا پسند ہیں۔ یہ انتہا پسندی ان کی سیاسی طاقت کی اساس ہے۔ ہندو انتہا پسند پاکستان کے وجود کے درپے ہیں اور کسی پرامن باہمی تعلق پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ اس حل کو کیوں قبول کریں گے جس میں آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائے اور پاکستان بھی مستحکم ہو؟
3۔ مذہبی بنیادوں پر منظم عسکری گروہ، کیا مزاحمت نہیں کریں گے اور کیا یہ امکان موجود نہیں کہ مقبوضہ کشمیر بدستور فساد کی آگ میں جلتا رہے؟
4۔ کیا پاکستان کی رائے عامہ ایسے حل کو قبول کر لے گی؟
اہلِ کشمیر میں بھارت کی نفرت سرایت کر چکی۔ بھارت نے انہیں ہمیشہ محکوم سمجھا ہے۔ اس کے باوجود، وقت کا اپنا جبر ہے۔ ایک طرف اہلِ کشمیر کی تین نسلیں اس آگ کا ایندھن بن چکیں۔ اس سے نکلنے کی خواہش فطری ہے۔ اگر بھارت کی ریاست ایسے اقدامات کرتی ہے جو ان کے زخموں پر مرہم رکھے تو اس سے بھی فرق پڑ سکتا ہے۔ پھر یہ کہ جب پاکستان اس حل کو بطور پالیسی قبول کرے گا تو پھر وہ کسی مزاحمتی قوت کی تائید نہیں کرے گا۔ اس تائید کے بغیر بھی کسی ایسی تحریک کا اٹھنا آسان نہیں۔
جہاں تک مودی کے انتہا پسند ہونے کا تعلق ہے تو اس امرِ واقعہ کے اعتراف کے باوجود، اس بات کا ادراک یقیناً بھارت میں موجود ہے کہ ہندو انتہا پسندی کا راستہ اگر نہ روکا گیا تو یہ بھارت کی جغرافیائی وحدت کے لیے سنگین خطرہ بن جائے گا۔ اگر انتہا پسندی، مسلمان معاشروں کے لیے خیر نہیں لا سکی تو ہندو انتہا پسندی کیسے باعثِ خیر ہو سکتی ہے۔ اس لیے یہ امکان موجود ہے کہ بالآخر یہ انتہا پسندی، کم از کم سیاسی سطح پر موثر نہ رہے۔ یوں بھی مودی کے بعد، اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ کوئی ہندو انتہا پسند بھارت کا وزیر اعظم بن سکے۔ رہی اہلِ اسلام میں انتہا پسندی تو مسلم دنیا میں اُس کی سرپرستی کمزور ہو رہی ہے۔ کوئی ریاست اب اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ غیر ریاستی سطح پر وسائل کی فراہمی بھی اب آسان نہیں رہی۔
پاکستان میں اِس وقت ریاستی قوت کے مراکز میں کوئی تصادم نہیں۔ آج بالفعل ایک ہی مرکز ہے۔ یہاں ایک طویل دور تو ایسا رہا‘ جب مارشل لا تھا۔ تب طاقت کا مرکز ایک ہی تھا۔ درمیان میں ایک دور وہ ہے جب بے نظیر بھٹو صاحبہ اور نواز شریف صاحب نے ایک مختلف نقطہ نظر اپنایا۔ بے نظیر بھٹو تو مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے مابین کیمپ ڈیوڈ طرز کے سمجھوتے کی علم بردار رہیں۔ نواز شریف صاحب نے بھی مسئلہ کشمیر کے غیر روایتی حل کی کوشش کی تھی۔
نواز شریف صاحب کی کوشش، آج تک پاکستان کے نقطہ نظر سے، سب سے با وقار حل کی طرف پیش رفت تھی۔ بد قسمتی سے بے نظیر اور نواز شریف کی سوچ طاقت کے دوسرے مراکز کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکی۔ یہ تاریخ کا جبر ہے کہ آج ریاستی طاقت کے مراکز اسی سوچ کے قائل ہو چکے جس کا عَلم بے نظیر اور نواز شریف نے اٹھا رکھا تھا۔ یوں اگر آج اگر ریاست پاکستان اس حل کی طرف بڑھتی ہے تو پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی طرف سے کسی بڑی مزاحمت کی توقع نہیں۔ یوں پاکستان میں کوئی ردِ عمل نہیں ہو گا۔
اگر یہ تجزیہ درست ہے تو پھر ہمیں ان سوالات کے جواب مل سکتے ہیں جو ابتدا میں اٹھائے گئے تھے۔ یوں مقدمہ یہ قائم ہوتا ہے کہ یہ اقدام صرف بھارت کی طرف سے نہیں اٹھایا جا رہا اور نہ وہ تنہا اس پر قادر ہے۔ اسے دوسرے فریق اور عالمی قوتوں کی تائید حاصل ہے۔ دنیا عالمِ اسباب کے تابع ہے اور یہاں کسی مسئلے کا کوئی مثالی حل موجود نہیں۔ 
اس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک گمبھیر اور ہمہ جہتی مسئلہ ہے۔ اس میں سب سے اہم سفارتی روابط اور عالمی ردِ عمل ہے۔ اس باب میں پاکستان کی مساعی بالخصوص اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی ہم نوائی بہت اہم ہے۔ اگلے کالم میں انشا اللہ ان کوششوں پر بات ہو گی اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے گی پاکستان کے پاس کون کون سے راستے ہیں اور ہم کس طرح ان پر چل کر پاکستان کی شہ رگ کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved