تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     08-08-2019

بیک فائر

لتے لیتے رہیں ‘ مذمتیں کرتے رہیں یا دُنیا کی توجہ حاصل کرنے کی کوششیں کرتے رہیں‘ بھارت نے جو کرنا تھا کر گزرا۔نہ اخلاقیات کا پاس ‘نہ اپنے آئین کی پاسداری۔ 26اکتوبر1947ء میں بھارتی حکومت اور کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے درمیان ہونے والا معاہدہ آڑے آیا‘ نہ 1952ء کے دہلی‘ سری نگر سمجھوتے نے کوئی رکاوٹ ڈالی۔ گویا معاہدے کاغذ کا ٹکڑا تھے‘ جنہیں استعمال کرنے کے بعد بھارت نے انہیں ٹشو پیپر کی طرح ڈسٹ بِن میں پھینک دیا ہے۔ پہلے معاہدے کے تحت اُمورخارجہ ‘ کرنسی اور دفاع کے معاملات کو چھوڑ کر کشمیر اسمبلی کے قوانین کی بالادستی تسلیم کی گئی تھی ۔اسے بھارتی آئین میں شق نمبر370کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا۔دوسرے معاہدے کے تحت کشمیریوں کی شہریت کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔اس کے تحت کوئی بھی غیرکشمیری مستقل طور پر کشمیر میں رہائش پذیر ہوسکتا تھا‘ نہ وہاں جائیداد خرید سکتا تھا۔اس حق کو بھارت کے آئین میں شامل شق نمبر 35اے کے تحت آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ۔یہی وجہ رہی کہ دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت رہی ؛ اگرچہ اس دوران جموں و کشمیر کے حالات میں بے شمار اُتار چڑھاؤبھی آئے ۔اب ریاست جموں کشمیر کی کوئی امتیازی حیثیت باقی رہی‘ نہ غیرکشمیریوں کے لیے کشمیر میں جائیداد خریدنے یا ملازمتیں کرنے پر کوئی پابندی باقی رہی ہے۔ بظاہر تو یہی محسوس ہورہا ہے کہ پورے بھارت میں واحد مسلم اکثریتی ریاست میں بھی اب‘ مسلمانوں کے اقلیت میں تبدیل ہونے میں زیادہ وقت باقی نہیں رہ گیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے فلسطینی ناصرف بتدریج اپنے علاقوں سے بے دخل کیے گئے‘ بلکہ اُن کے علاقوں میں یہودی بستیاں بھی بسائی گئیں۔اگر اُمت مسلمہ نے آج تک فلسطین کا مسئلہ حل کرنے میں کوئی کامیابی حاصل کی ہے تو یقینا ہم اہل کشمیر کو بھی اُن کا حق واپس دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ویسے بھی اگر کسی کو شک ہے کہ ہندوستان نے کشمیر کی امتیازی حیثیت ختم کرنے کا قدم بغیر سوچے سمجھے اُٹھایا ہے تو وہ صریحاً غلطی پر ہے۔اس کے لیے نریندرمودی کے پہلے دورحکومت کے دوران ہی تیاری شروع کردی گئی تھی۔ دوسری مرتبہ انتخابات کے لیے چلائی جانے والی مہم کے دوران ایک سے زائد مواقع پرنریندرمودی کی طرف سے اس حوالے سے اشارے بھی دئیے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران جموں و کشمیر کی امتیازی حیثیت ختم کرنے کا نعرہ لگتا رہا تھا ‘جو بی جے پی کے انتخابی منشور کا حصہ بھی تھا۔پہلی مرتبہ بھارت کا وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد نریندرمودی نے جس طرح سے وعدوں کے مطابق‘ اپنے ملک میں ہندو انتہا پسندی کو پروان چڑھایا‘ جس طرح سے اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ گیا‘ تو کیا اُس کے بعد اس بات میں کوئی شک باقی رہ جانا چاہیے تھا کہ وہ دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد وہ جموں کشمیر کی امتیازی حیثیت ختم کرنے کے وعدے پر عمل نہیں کرے گا؟سو ‘وہ کر گزرا۔
یقینا بھارت کے اس اقدام نے اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔تمام تر بین الاقوامی قوانین کو پسِ پشت ڈال کر اُٹھائے جانے والے اس اقدام کے بھارت کو نتائج بھی بھگتنا پڑسکتے ہیں ۔ اس نے مقبوضہ کشمیر کی پوری قیادت کو متحد کردیا ہے۔طویل عرصے سے ظلم و ستم سہتے ہوئے کشمیری اس فیصلے پر سیخ پا ہیں ‘ جن کا مزید ردعمل بھی سامنے آئے گا۔پاکستان کی تمام تر اخلاقی اور سفارتی حمایت بھی کشمیریوں کے ساتھ ہے۔ وقت کے ساتھ یہ مسئلہ ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی سطح پر بھی اُٹھ سکتا ہے۔بلاشبہ بھارتی قیادت نے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے پہلے ان تمام عوامل پرغور کیا ہوگاتو پھر کیوں اُس نے اتنا بڑا قدم اُٹھا لیا؟دراصل بھارت نے فاشزم کی جو راہ چنی ہے‘ اُس میں دوہی راستے ہوتے ہیں کہ خود تباہ ہوجائیں یا سامنے والے کو تباہ کردیں۔دوسری مرتبہ بھارت کا وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد نریندر مودی کی پہلی تقریر بہت سے اذہان سے محونہیں ہوئی ہوگی؛اگر ہوچکی ہے‘ تو اُس کے کچھ نکات دہرائے دیتا ہوں:ایک مخصوص گروپ سیاسی مفادات کے لیے سیکولرازم کا ٹیگ استعمال کرتا رہا‘لیکن اب کوئی سیکولرازم کا لبادہ پہن کر ملک کو دھوکا نہیں دے سکے گا‘ کارکنوں نے صرف جے ماتا کا نعرہ لے کر بی جے پی کی انتخابی مہم چلائی اور اب دنیا کو چاہیے کہ وہ بھارت کو سپر پاور تسلیم کرلے۔بلاشبہ بھارتی وزیراعظم کی یہ تقریر دراصل بھارت کی شناخت بدلنے کے تمام اشارے لئے ہوئے تھی۔تمام تر انتخابی مہم بھی عام آدمی کے مسائل سے ہٹ کربھارت کی شناخت تبدیل کرنے کو بنیاد بنا کر چلائی گئی تھی۔اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں بھی کسی لیت ولعل سے کام نہیں لینا چاہیے کہ بھارتی عوام کی اکثریت نے بھی مودی کے نعروں پر بھرپور اعتماد کیا۔کچھ ایسا اعتمادکہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کی حیثیت بھی کسی علاقائی جماعت کی سی رہ گئی۔گویا اپنے انتخابی نعروں پر عمل کے لیے بی جے پی کے راستے میں کوئی بھی رکاوٹ باقی نہ رہی۔ ہمارے کان تو اُسی وقت کھڑے ہوجانے چاہیے تھے‘ لیکن بدقسمتی سے اس بات کو نظرانداز کیا گیا۔فاشزم کے راستے پر چلنے والی بھارتی حکومت کے لیے کیوں کر یہ قابل برداشت تھا کہ وہ بھارت میں مسلم اکثریتی ریاست کو باقی رہنے دے۔کچھ ماہرین کا یہ کہنا تو ہے کہ بھارتی فیصلے سے کشمیرکے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا‘ لیکن یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ یہ ادارہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے میں کتنا بااختیار ہے؟ اگر‘ یہ کسی قابل ہوتا تو کشمیر ی عوام کے لیے تاریک رات کا بہت عرصہ پہلے خاتمہ ہوچکا ہوتا۔مسئلہ تو یہ ہے کہ اب‘ ہمارے پاس کیا راستہ باقی رہ گیا؟بلاشبہ پاکستانی حکومت اور عوام وہ سب کچھ کررہے ہیں‘ جو اُن کے بس میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ عالمی طاقتوں کو بھرپور طور پر اعتماد میں لیا جائے۔ دوست ممالک کے مشورے سے حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے۔ ایسی حکمت عملی ‘جس کے فروٹ فل نتائج بھی سامنے آئیں ورنہ تو یہ سب کچھ عرصہ سے چل رہا ہے۔
اس حوالے سے تو کوئی سوال ہی نہیں کہ پاکستانی حکومت ‘ عسکری قیادت اور عوام مکمل پر کشمیری عوام کے ساتھ ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے اندر بھی یہ پہلا موقع ہے کہ جب وہاں کی تمام تر سیاسی قیادت نے بیک زبان اس بھارتی اقدام کی مذمت کی ہے۔بھارت کے ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف غلام نبی آزاد ‘جو کل تک بھارت نواز سمجھے جانے والے عمر عبداللہ ‘ فاروق عبداللہ یا محبوبہ مفتی یاپھر کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کی قیادت‘ سب کا مشترکہ موقف ہی سامنے آیا ہے۔ کانگریس سے تعلق رکھنے والے غلام نبی آزادتو بھارتی راجیہ سبھا کے اجلاس کے دوران چیخ پڑے کہ بھارتی حکومت نے جمہوریت اور آئین کا قتل کردیا ہے۔سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ بھارت کو اپنا قدم واپس لینے پر مجبور کرسکے گا یا پھر یہ کہ اس کے علاوہ اور کیا بھی کیا جاسکتا ہے؟
تسلیم کرنا ہوگا کہ ابھی تک ہمیں اس حوالے سے بین الاقوامی سطح پر بھی قابلِ ذکر حمایت حاصل نہیں ہوسکی۔ان سطور کی تحریر تک عرب ممالک اور ایران کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔ ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف کے ٹوئٹراکاؤنٹ پر امریکہ‘ ایران کشیدگی کے حوالے سے تو بیانات دکھائی دئیے‘ لیکن کشمیر کے معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔ عرب دفتر خارجہ کے ٹوئٹراکاؤنٹ سے مصر میں ہونے والے دھماکے کی تومذمت کی گئی‘ لیکن کشمیر کے مسئلے پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔اسلامی تعاون کی تنظیم نے صورت ِحال پر تشویش کا اظہار تو کیا‘ لیکن کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ترک وزیراعظم کی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔جرمنی اور برطانیہ نے بھی صرف لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اضافے پر اظہارِتشویش کیا۔ امریکہ بہادر کی طرف سے کچھ ایسا ردعمل سامنے آیا؛امریکہ ‘کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردئیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر نظررکھے ہوئے ہے۔اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ 
تادمِ تحریرہم سب کسی ایک طرف سے بھی بھارتی فیصلے کی مذمت کے انتظار میں ہیں‘ لیکن یہ طے ہے کہ کشمیر لہوبن کر پاکستانیوں کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ چاہے‘ کوئی ایک ملک بھی ہمارا ساتھ نہ دے ‘ کشمیریوں کے لیے ہماری لامتزلزل حمایت ہمیشہ جاری رہے گی۔ بقول کشمیر ی رہنما محبوبہ مفتی؛ کشمیر کی ماضی کی قیادت کا بھارت کے ساتھ معاہدہ بیک فائر کرگیا ہے‘ تو نریندرمودی بھی اس بات کو نظرانداز کرگئے ہیں کہ اگر ‘صورتِ حال اُن کے ہاتھ سے نکل گئی‘ تو یہ اقدام بھی بیک فائر کرے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved