تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     09-08-2019

سب سے بڑا امتحان

انسان کا سب سے بڑا امتحان کیا ہے ؟ خوشی یا غم ‘ آسائش یا تکلیف ‘ زندگی گزر ہی جاتی ہے‘ لیکن مرنے کے بعد دوبارہ اگرجی اٹھنا ہے ‘ دائمی راحت یا کبھی ختم نہ ہونے والے عذاب کا اگرسامنا کرنا ہے تو خدا کوبہرحال کھوجنا ہوگا۔ خدا پر ایمان اور وہ بھی ٹھوس دلائل کی بنیاد پر ۔ یہی انسان کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ خدا کا وجود ہی کائنات کا سب سے بڑا سوال ہے اور ناکامی کی سزا ہمیشہ کا عذاب ہے ۔ وہ کون ہے ‘ کیسا ہے ‘ کیا چاہتاہے ‘اس سے رابطے کیونکر ہو ‘ یہ سب باتیں بعد کی ہیں ۔ 
مشقت کرتا ایک مزدور اور ریاست کا سربراہ ‘ ایک لحاظ سے دونوں برابر ہیں ۔ انتہائی کامران اورناکام‘ دونوں آدمی لمحہ بہ لمحہ موت کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔ موت سب فرق مٹا دیتی ہے ۔محترم اور شفیق استاد پروفیسر احمد رفیق اختر کے نزدیک اس لحاظ سے حیوان اور انسان ایک برابر ہیں۔وہ منظر قابلِ دید ہوتاہے ‘ جب قبر کے سپرد کیے جانے والے کو رحم آمیز نظروں سے دیکھا جاتاہے۔ بیچارہ!کیا واقعی وہ بیچارہ ہے‘ جس کی روح کمزور انسانی بدن سے رہاہوئی ‘ جس کے تقاضے کبھی ختم ہی نہیں ہوتے؟جس پر سے حجاب ختم ہوا اور آزمائش تمام ہوئی ‘ وہ بیچارہ ہے ؟ خدا پر ایمان کے ساتھ‘ اگر وہ رخصت ہو اتو اس سے بڑا خوش نصیب کون ہے ؟ اب‘ ایسی دنیا میں اسے جانا ہے ‘ جہاں ہمیشہ کی زندگی ہے ‘ مکمل جسمانی صحت اور ذہنی سکون ‘ ہر خواہش کی تکمیل اور ہمیشہ کی جوانی ۔ غم نہ خوف ‘لیکن یہ نا انصافی نہیں کہ زندگی بھر خدا کی ایک جھلک بھی ہم دیکھ نہیں سکتے اور ایمان نہ لائیں تو ہمیشہ کا عذاب ؟ بھڑکتی ہوئی آگ ‘ کھولتا ہوا پانی۔ عقل کا خالق ‘ہمارا رب‘ ایسا کیوںکرتاہے ؟ 
کیا خدا یہ سمجھتا ہے کہ اس نے ہر انسان میں خود کو ڈھونڈ نکالنے کی صلاحیت رکھی ہے ۔ میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جو ذرا سا غورکرے گا‘ اس کے وجود کا قائل ہوجائے گا۔ بنیادی مسئلہ تب حل ہو جاتاہے۔ رہا خدا کی رضا مندی کا حصول تو وہ ایک ایسی جدوجہد ہے جو کبھی تمام نہیں ہوتی ۔ قوی امید ہے کہ بڑی بڑی خطائیں بادشاہوں کا وہ بادشاہ معاف کر دے گا۔اس تک پہنچنے کے لیے مگر‘ کن خطوط پر غور کیا جائے ؟ اور کچھ نہیں تو اپنے اندر تو ہم جھانک ہی سکتے ہیں ۔؎ 
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی 
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن‘ اپنا تو بن
ایک نظر ذرا اپنے جسم پر ڈالیے۔کتنے نظام (Systems)کام کرتے ہیں تو آدمی جیتا ہے ۔ دھڑکتا ہوا دل جسم کے کونے کونے تک خون دوڑاتا ہے ‘ پھیپھڑوں اورمعدے کے اشتراک سے یہ خون ہر خلیے کو خوراک اور آکسیجن پہنچاتاہے۔ گردے گندگی جسم سے نکال باہر کرتے ہیں ‘آنکھیں جو ہمارے ایجاد کردہ کیمروں کی کارکردگی جانچتی ہیں‘لہٰذا خود سب سے بہتر کیمرہ ہیں ۔ سب سے با کمال تو مگر دماغ ہے ‘ جس کے حکم کے بغیر ایک انگلی بھی ہل نہیں سکتی ۔ دماغ ہی ہے کہ اربوں میل طے کر کے ہم دوسرے سیاروں پر جا اترے ہیں اور زمین کا رخ کرنے والے اجرامِ فلکی کو تباہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ 
ذہانت میں ہم اس قدر برترہیں تو کیا انسان اور جانور کے دماغ میں کوئی نظر آنے والا فرق بھی ہے ؟ دیکھا جائے تو عظیم الشان ہاتھی اور ایک بلّی کی ذہانت میں کوئی فرق نہیں ‘لہٰذا حجم غیر اہم ہے ۔ ایک نامی گرامی ڈاکٹر سے میںنے پوچھا تو اس نے بتایا کہ عام جانوروں کے برعکس انسان کا دماغ تہوں کی صورت میں گہرائی تک پھیلا ہوا ہے ۔اگر اسے استری کر کے پھیلا دیا جائے تو یہ بے حد طویل ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں کچھ خاص مراکز ہیں ‘جو جانوروں میں نہیں ۔کیسی عجیب بات ہے کہ دو ٹانگوں پر چلنے والے ایک جانور کی پوری نسل ذہانت پا گئی اور باقی سب کورے کے کورے ۔کوئی ہمارے قریب تک نہیں ۔
دل ‘ دماغ‘ گردے ‘ پھیپھڑے اور جگر‘ کوئی ایک بھی ناکارہ ہو جائے تو سسک سسک کر زندگی موت کی آغوش میں جا سوتی ہے ۔ پھر جانداروں کا جوڑوں کی شکل میں پیدا ہونا اور مخالف جنس کی طرف رغبت!پیدائش کا باعث بننے والے نر اور مادہ خلیات میں23نادیدہ کروموسوم ‘ جو شکل و صورت سمیت آدمی کی تمام خصوصیات کے ذمہ دار ہیں ۔ ایک میں بھی خرابی ہو تو انسان نارمل نہ دکھے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ لا تعداد خلیات میں سے کسی ایک میں بھی تو ان کا توازن خراب نہیں ۔ زندگی خود بخود پیدا ہوئی ہوتی تو ایسی کاملیت (perfection)کیونکر ہوتی ؟ کسی کا معدہ غائب ہوتا اور کئی آدمی دو دماغ پاتے ۔
ایک بہت بڑا عجوبہ ماں کے پیٹ میں ایک بچّے ‘ ایک نئے جاندار کی تخلیق ہے ۔ ایک ایسی لیبارٹری میں ‘ جو کرّہ ٔ ارض کی ہر ماں کے پیٹ میں نصب ہے ‘ اس کا جسم تشکیل پاتاہے ۔اس اندھیری جگہ پہ جنم لینے والے بچّے کو ہر لمحہ آکسیجن اور گلوکوز ملتا رہتا ہے ‘ گو کہ اس کا اپنا نظامِ انہضام اس دوران استعمال ہی نہیں ہوتا ۔ 
یہ سب تو نظر آنے والی اشیا ہیں‘ لیکن خواہشات اور کیفیات کی کیا توجیہہ ہے ؟ خوشی ‘ غصہ اور غم؟ بعض تو ساری زندگی انتقام کی نذرکر دیتے ہیں ۔کچھ کو روپیہ کمانے کی ایسی ہوس ہے کہ زندگی اسی کھیل میں بیت جاتی ہے ؛حالانکہ اپنی دولت کا بہت معمولی حصہ وہ خرچ کر پاتے ہیں۔ اقتداراور غلبے کی ہوس کتنوں کو موت کی نیند سلا چکی ہے ۔انہی خواہشات کے تعاقب میں عمر بیت جاتی ہے ۔پھر منفی ہی نہیں مثبت روّیہ بھی ہے ۔ بھوک سے نڈھال آدمی بھی اپنی اولاد کی فکر کرتاہے ۔ خودداری ‘ ایثار اور بہادری! 
نتیجہ بہرحال ایک ہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ موجود ہے اور نادیدہ آنکھیں ہر دم ہماری نگران ہیں۔یہ بھی کہ اس کے وجود کی شہادت پانا ایسا مشکل نہیں۔ دوسرا اہم ترین سوال یہ ہے کہ خود پر اس نے ایسا حجاب کیوں بن لیا؟ کیا ایک چھوٹے سے امتحان کو اس نے ہمیشہ کے قرار کا رستہ بنایا؟یا اس لیے کہ بن دیکھے ایمان لانے والوں کی خطائیں بخشنے کی کوئی صورت پیدا کی جائے؟ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اتنے اہم سوال پر یوں چلتے چلتے تبصرہ کیا جا بھی نہیں سکتا۔ یوں بھی کیسا کیسا دانا انسان اس زمین پر جیتاہے ۔ شاید کوئی جوب دے ؟
جیسے جیسے انسان ذرا ذرا سا علم حاصل کرنے لگتاہے ‘ اس کے ساتھ ہی اس پہ اپنی کم علمی کھلتی چلی جاتی ہے ۔ انسان کس قدر کم جانتا ہے ؟ سائنسدان بتاتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ بھی انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ‘‘ ستارے ‘ چاند ‘ سورج اور زمین‘ وہ سب کچھ صرف اور صرف پانچ فیصد ہے ۔ باقی پچانوے فیصد ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کی صورت میں چھپا ہوا ہے ۔ اب ‘ایسا شخص کیا اپنی علمیت کا دعویٰ کرے گا‘ جو صرف پانچ فیصد جانتا ہو ؟ 
اس کرّہ ٔ خاک پہ انسان صرف کھانے پینے‘ آسودہ ہونے اور اولاد پیدا کرنے نہیں آیا۔یہ سب کچھ کرنے والے جانوروں کی دنیا میں کوئی بھی کمی نہیں تھی۔انسان میں اور جگالی کرتی ہوئی ایک بھینس میں کچھ نہ کچھ فرق ہونا چاہیے۔ یہ فرق ہے ‘ سوچنے کا‘ غور وفکرکا اور خدا تک رسائی کا ۔ اگریہ نہیں تو پھر انسان اور جانور میں کوئی بھی فرق نہیں... !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved