تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     10-08-2019

کشمیر کہانی …(4)

وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن اور پٹیل کو اندازہ تھا کچھ راجے بات نہیں مان رہے۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ محمد علی جناح سے رابطے میں تھے تاکہ بہتر ڈیل لے کر اپنا مستقبل محفوظ کر سکیں۔ اس لیے وہ سب جناب جناح کے ملاقاتیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ 
ا گرچہ جودھ پور کے راجہ نے اپنے تئیں رازداری سے کام لیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ پتہ نہیں چلے گا‘ وہ جناح سے مل رہا ہے‘ لہٰذا وہ دونوں راجے جناح سے ملنے کے بعد کانگریس والوں کو چیک کریں گے کہ وہ اس سے بہتر کیا ڈیل دے سکتے تھے۔ 
اسی لیے دونوں راجوں نے قائداعظم سے پوچھا: اگر جیسل میر اور جودھ پور ریاستیں پاکستان کے ساتھ الحاق کریں تو انہیں کیا ملے گا؟ راجہ جودھ پور اس لیے بھی پاکستان کو جوائن کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا کہ اس نے کچھ شوق پال رکھے تھے‘ جیسے جہاز اڑانا، جادو سیکھنا اور رقص دیکھنا۔ اسے خطرہ تھا کانگریس کی سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر اسے یہ شوق ہندوستان میں پورے نہیں کرنے دیں گے‘ لہٰذا اسے لگ رہا تھا کہ پاکستان میں شامل ہونا بہتر رہے گا۔ 
قائد اعظم نے منہ سے کچھ نہیں کہا۔ اپنے قریب رکھی میز کی دراز سے ایک سفید کاغذ نکالا‘ راجہ جودھ پور کے سامنے رکھ دیا اور بولے: اس پر جو شرائط لکھنی ہیں لکھ دو‘ میں اس پر دستخط کر دوں گا۔ قائد اعظم کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ انہیں اپنی حریف پارٹی کانگریس کے خلاف دو ایسی ریاستیں مل رہی تھیں‘ جن کے راجے خود ان سے رابطہ کر رہے تھے۔ وہ ہر شرط ماننے کو تیار ہو گئے تھے اور اسی لیے سفید کاغذ سامنے کر دیا کہ وہ جو چاہیں اس پر لکھ دیں۔
دونوں راجے توقع نہیں کر رہے تھے کہ انہیں ایسا بلینک چیک پیش کیا جائے گا۔ فوری طور پر ان کے ذہن میں کچھ نہ تھا کہ انہیں قائد اعظم سے کون سے مطالبے کرنے چاہئیں۔ انہوں نے سوچا کہ وہ واپس ہوٹل جا کر آرام سے ان شرائط پر غور کریں گے‘ جو انہیں قائد اعظم سے منوانی چاہئیں۔ جودھ پور کا راجہ اپنے تئیں بڑا مطمئن ہو گیا کہ چلیں اس کی جیب میں ایک بلینک چیک تو آ گیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں وہ کانگریس کی لیڈرشپ سے کیا بارگین کر سکتے ہیں یا پھر انہیں پاکستان سے ہی سب مرضی کی شرائط منوا کر نئے ملک کو جوائن کر لینا چاہیے‘ جہاں سب کچھ ان کی مرضی کا ہو گا اور ان کی موجودہ زندگی اور لائف سٹائل کو کوئی خطرات نہیں ہوں گے۔
یہ سب کچھ سوچ کر راجہ نے قائد اعظم سے کہا کہ اسے سوچنے کے لیے کچھ وقت چاہیے اور وہ پھر ان سے رابطہ کرے گا۔ قائد اعظم سے ہاتھ ملا کر وہ دونوں باہر نکلے اور اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہوگئے۔ اتنی دیر میں وی پی مینن ہوٹل پہنچ چکا تھا۔ مخبری ہو چکی تھی کہ دونوں راجے قائد اعظم سے مل رہے ہیں۔ وی پی مینن کے پاس ایک ہی آپشن تھا کہ وہ انہیں فوری طور پر وائسرائے ہائوس لے جائے۔
جونہی ایک راجہ ہوٹل میں داخل ہوا تو اس کی نظر وی پی مینن پر پڑی۔ مینن آگے بڑھا اور بولا: ایمرجیسی ہوگئی ہے‘ وائسرائے ہند نے اسے فوراً اپنے گھر پر بلایا ہے۔ راجہ کو اندازہ نہیں تھا کہ وائسرائے ہند اور وی پی مینن کو یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ وہ قائد اعظم سے مل آیا ہے‘ لہٰذا اس نے سوچا‘ وائسرائے ہند سے ملنے میں کیا ہرج ہے‘ اور ویسے بھی کون وائسرائے ہند سے ملنے سے انکار کرسکتا تھا۔
راجہ کو لے کر وی پی مینن فوراً وائسرائے ہائوس کی طرف چل پڑا۔ جب دونوں وائسرائے ہائوس پہنچے تو وی پی مینن نے راجہ کو ویٹنگ رومن میں بٹھایا اور خود لارڈ مائونٹ بیٹن کو ڈھونڈنے نکل گیا۔ وہ مختلف کمروں میں وائسرائے کو تلاش کرتا رہا لیکن وہ اسے کہیں نہ ملا۔ آخرکار اس نے وائسرائے ہند کو واش روم میں جا تلاش کیا جہاں وہ پانی کے ٹب میں لیٹا ہوا تھا۔ وی پی مینن کے کہنے پر وائسرائے نے کپڑے پہنے اور وہ نیچے ویٹنگ روم میں بیٹھے جودھ پور کے شہزادے کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ وائسرائے نے گفتگو شروع کی اور بولا کہ آج اگر اس کا (راجہ کا) باپ زندہ ہوتا تو یقین کرو وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کو ترجیح دیتا۔ وائسرائے کا اشارہ اس کی ضد کی طرف تھا کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے گا کہ اس نے کس کو جوائن کرنا ہے۔ وائسرائے نے نوجوان راجہ کو کہا کہ جودھپور ایک ہندو ریاست ہے اور وہ محض اپنے ذاتی مفادات محفوظ کرنے کے نام پر اپنی رعایا کو پاکستان کے ساتھ ملا رہا ہے؟ وائسرائے ہند نے اس عمل کو خود غرضانہ قرار دیا۔ وائسرائے کو علم تھا کہ یہ نوجوان راجہ اس وقت پوری ریاست اس لیے دائو پر لگانے پر تل گیا ہے کہ اسے ذاتی فائدہ چاہیے۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر وائسرائے ہند نے نوجوان راجہ کو کہا کہ وہ فکر نہ کرے‘ وہ (وائسرائے) اور وی پی مینن مل کر سردار پٹیل کو کہیں گے کہ وہ راجہ کے ساتھ اچھا رویہ رکھے اور تمہارے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔ 
یہ کہہ کر وائسرائے اٹھ کر چلا گیا۔ اس نے باقی کا کام وی پی مینن کے حوالے کر دیا تھا کہ وہ اب اس سے جو لکھت پڑھت کرانی ہے کرا لے۔ جب راجہ کے سامنے دستاویز رکھی گئی تو اس نے جیب سے ایک غیرمعمولی فونٹیں پین نکالا جو اس نے اپنی ایک چھوٹی سی جادوگر فیکٹری میں تیار کرایا تھا۔ جب راجہ اس کاغذ پر دستخط کر چکا تو اس نے اس فونٹین پین کو گھمایا اور اس کے اندر سے ایک چھوٹا سا پستول نکل آیا۔ نوجوان راجہ نے فوراً وہ پستول وی پی مینن پر تان لیا اور کہا: میں تمہاری دھمکیوں سے نہیں ڈرتا۔ تم مجھے ڈرا نہیں سکتے۔
شور شرابہ سن کر مائونٹ بیٹن فوراً نیچے اترا تو اس نے نوجوان راجہ کو فونٹین پین میں چھپا پستول وی پی مینن پر تانے ہوئے دیکھا۔ مائونٹ بیٹن جنگ عظیم دوم لڑ چکا تھا‘ لہٰذا اس کے لیے یہ نظارہ خوفناک نہ تھا۔ اس نے راجہ سے وہ پستول چھین کر اپنے پاس رکھ لیا۔
مزے کی بات ہے کہ جب مائونٹ بیٹن لوٹ کر لندن گیا تو اس نے دیکھا کہ وہاں ایک کلب ہے‘ جس کا نام Magic Circle ہے۔ یہ ایک ستائیس سالہ جادوگر کے نام پر قائم کیا گیا تھا‘ جو جوانی ہی میں انتقال کر گیا تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن اس کلب کا ممبر بن گیا۔ وہ خود بھی جادو سے محظوظ ہوتا تھا لہٰذا اس نے اس فونٹین پین میں چھپے پستول کو وہاں جادو کے طور پر استعمال کیا اور وہ میجک سرکل کا الیکشن جیب گیا۔ بعد میں مائونٹ بیٹن نے راجہ جودھ پور کا وہ پستول اس کلب کو دے دیا کہ وہ اپنے سرکل میوزیم میں رکھ دے؛ تاہم جب مائونٹ بیٹن کا 1979ء میں آئرلینڈ میں قتل ہوا تو وہ پستول نما فاونٹین پین اس کی فیملی کو دے دیا گیا۔ برسوں بعد دو ہزار تیرہ میں فیملی نے وہ تاریخی پین نیلام کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی لاگت سات ہزار ڈالر لگائی گئی۔ 
خیر تین دن بعد وی پی مینن نے باقاعدہ الحاق کی دستاویزات تیار کی اور راجہ جودھ پور کے محل گیا‘ جس پر ایک اداس اور افسردہ راجہ نے دستخط کر دیے۔ جب ایک دفعہ دستخط ہو چکے تو راجہ نے سوچا: جو ہونا تھا وہ ہوچکا اب وہ الحاق کو انجوائے کرے گا۔ نوجوان راجہ نے مینن کے ساتھ ایک پارٹی کرنے کا فیصلہ کیا۔ مینن وہاں رکنا نہیں چاہتا تھا لیکن اس کے پاس کوئی چوائس نہیں تھی۔ یہ راجہ کی فرمائش تھی کہ وہ الحاق کی خوشی میں پارٹی کرے گا۔ 
مینن کو خوشی تھی کہ اس نے ہندوستان کے لیے بڑا معرکہ مار لیا تھا۔ سردار پٹیل کو دینے کے لیے اس کے پاس تحفہ تھا۔ اس نے دو بڑی ہندو اکثریت والی ریاستوں کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے سے بچا لیا تھا۔ اس کے دہلی میں ''پراسرار سورس‘‘ نے جناح اور جودھ پور کے راجہ کی خفیہ ملاقات کی مخبری کرکے ہندوستان پر احسان کیا تھا۔ اگرچہ وہ فوری طور پر دہلی روانہ ہونا چاہتا تھا لیکن نوجوان راجہ نے ضد کی کہ وہ فوراً واپس نہیں جا سکتا۔ پہلے جشن ہو گا۔ پرانا محاورہ ہے کہ راج ہٹ، بال ہٹ تے تریمت ہٹ۔ (جب شہزادہ، بچہ اور عورت کسی ضد پر اترے ہوں تو پوری کرنی پڑتی ہے) چنانچہ نہ چاہتے ہوئے بھی وی پی مینن رک گیا تاکہ وہ جشن میں شریک ہو سکے۔ لیکن وی پی مینن کو اندازہ نہ تھا کہ جشن کے نام پر نوجوان راجہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved