ہماری قدیم کتبِ فقہ میں لکھا تھا: مکہ الگ مقام ہے ‘منیٰ وعرفات ومزدلفہ الگ مقامات ہیں ‘ لہٰذا جب حجاجِ کرام 8 ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ سے مِنیٰ کی طرف جائیں گے تو اگر کوئی حاجی اس سے پہلے مکہ میں پندرہ دن کے لیے مقیم نہیں تھا ‘تووہ مسافر ہوگا اور ان مقامات پر قصر نماز پڑھے گا ‘ لیکن اب چونکہ بلدیہ مکۃ المکرمہ کی حدود وسیع ہوچکی ہیں اور منیٰ وعرفات ومزدلفہ حدودِ بلدیہ میں آچکے ہیں‘لہٰذا اب یہ مکہ مکرمہ میں شامل ہیں اور الگ مقامات نہیں ہیں ۔ مکہ مکرمہ میں رہنے والے علمائے کرام نے اس مسئلے کی جانب متوجہ کیا ‘لہٰذا ہم نے یہ فتویٰ دیا ''اگر حج سے پہلے مکۂ مکرمہ میں قیام ‘ایامِ حج میں منیٰ وعرفات ومزدلفہ میں قیام اور بعدالحج مکۂ مکرمہ میں قیام کی مجموعی مدت کم از کم پندرہ دن یا اس سے زیادہ بنتی ہو تو ان تمام دنوں میں وہ پوری نماز پڑھے گا ‘کیونکہ اس پر سفرکا نہیں‘بلکہ اِقامت کا حکم عائد ہوگا۔ پاک وہند کے کئی علما نے اس رائے کو اختیار کیا ہے ۔ ہمارے مفتیانِ کرام میں سے علامہ مفتی محمد رفیق حسنی صاحب نے بھی اسی مؤقف کو اختیار کیا ہے اور انہوں نے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے استفسار کے جواب میں سابق امامِ حرم شیخ عبداللہ بن سبیل کے مندرجہ ذیل مکتوب کاحوالہ دیا ہے ''ہمارے لیے جو ظاہر ہے وہ یہ کہ آج جب کہ مکۂ مکرمہ کی عمارات نے منیٰ کی حدود کا احاطہ کرلیا ہے اور وہ عرفات تک پھیل گئی ہیں ‘اس بنا پر منیٰ عرفات وغیرہ مکۂ مکرمہ کے محلوں میں سے ایک محلہ ہیں ‘سو مکہ سے منیٰ جانے والے کو مسافر شمار نہیں کیا جاتا ‘اس بنا پر حاجی کے لیے جائز نہیں ہے کہ منیٰ میں قصر کرے اور نہ اس کے لیے عرفات میں نمازوں کا جمع کرنا جائز ہے ‘ یہ مسئلہ اُن علما کی رائے کے مطابق ہے جو یہ کہتے ہیں کہ منیٰ میں قصر کی علّت مسافر ہونا ہے ‘کیونکہ منیٰ جانے والا حدودِ مکہ سے خارج نہیں ہوا ۔ البتہ جن علما کا کہنا یہ ہے کہ منیٰ وغیرہ میں قصر ایک مستقل عبادت ہے‘ جیساکہ مالکیہ کا مذہب ہے ‘ سو آپ پر مخفی نہیں کہ حکم ثابت ہے۔ رہا آپ کا یہ سوال کہ آیا سعودی عرب کی حکومت ان دونوں مقامات کے ساتھ ایک شہر جیسا معاملہ کرتی ہے ‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ منیٰ مکۂ مکرمہ کے محلوں میں سے ایک محلہ ہے ‘ صرف اتنی بات ہے کہ حکومت کامنیٰ میں عمارتیں بنانے سے منع کرنا مصلحتِ عامہ کی بنا پر ہے‘ کیونکہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ منیٰ کا مالک ہو اور منیٰ ودیگر مَشاعر (مزدلفہ وعرفات) میں سے کوئی شے اس کے ساتھ خاص ہو ‘کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے : منیٰ ہر اس شخص کے لیے جائے قرار ہے جو پہلے وہاں پہنچے ‘‘۔ علامہ علی القاری نے لکھا ہے ''مالکیوں کا مذہب یہ نہیں ہے کہ قصرفی نفسہٖ عبادت ہے ‘ بلکہ اُن کا مذہب یہ ہے کہ نمازوں کو جمع کرنا نُسُک ہے اور یہ سفر کے ساتھ خاص نہیں ہے‘ غیرِ مسافر بھی عرفہ میں نمازیں جمع کرسکتا ہے ‘‘۔مفتی محمد شریف الحق امجدی لکھتے ہیں'' جو لوگ مکۂ معظمہ میں حج کی نیت سے حاضر ہوں اوربشمول منیٰ وعرفات مکۂ معظمہ میں بلکہ حج کے بعد کے ایام بھی ملا کر پندرہ دن سے کم قیام کا ارادہ رکھتے ہوں‘ تو وہ مکۂ معظمہ میں بھی قصر پڑھیں گے اور منیٰ وغیرہ میں بھی اور جو حضرات ان تمام ایام یعنی ایامِ حج سے پہلے مکۂ مکرمہ میں قیام ‘ایامِ حج اور حج کے بعد مکۂ مکرمہ میں قیام کے ایام کو ملا کر مکۂ معظمہ میں پندرہ دن یا اس سے زائد قیام کا ارادہ رکھتے ہوں‘ وہ مکۂ معظمہ میں بھی پوری نماز پڑھیں گے حتیٰ کہ منیٰ ‘ عرفات اور مزدلفہ ہر جگہ پوری پڑھیں گے‘ (نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری ‘ج:2ص: 650بتصرف)‘‘۔
یہ سوال کہ حجاجِ کرام جب حج پر مکۂ مکرمہ چلے جاتے ہیں ‘تو منیٰ میں قارِن اور مُتَمَتِّع دمِ قران اور دمِ تمتُّع دیتے ہیں یعنی شکرانے کی قربانی کرتے ہیں۔ قارِن اُسے کہتے ہیں جو بیک وقت عمرے اور حج کا احرام باندھے اور عمرہ ادا کرنے کے بعد اِحرام کے اندر ہی رہے اور حلق کرکے احرام کھولے۔ مُتَمَتِّع اُسے کہتے ہیں جو اپنے میقات سے عمرے کا احرام باندھ کر جائے ‘ عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کھول دے اور آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھ کر منیٰ کی طرف جائے ‘ کیونکہ قارِن اور مُتمتّع عمرہ اور احرام دونوں عبادات کی سعادت حاصل کرتے ہیں ‘اس لیے اُن پر شکرانے کی قربانی واجب ہے ‘جسے بالترتیب ''دمِ قران‘‘ اور ''دمِ تمتُّع‘‘ کہتے ہیں۔
فقہ حنفی کا ایک مؤقف یہ ہے کہ مسافراورحاجی‘خواہ اہلِ مکہ میں سے ہو‘ پر عید الاضحی کی قربانی واجب نہیں ہے ‘لیکن بعض علما کا محتاط مؤقف یہ ہے کہ اگرحج سے پہلے ‘ایامِ حج اور بعدالحج کی مدت ملاکر مکۂ مکرمہ میں قیام پندرہ دن یا اس سے زائد ہوجائے تو صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں اُس پر عیدالاضحی کی قربانی واجب ہوگی ‘ البتہ اس کے لیے یہ وسعت ہے کہ چاہے تو یہ قربانی حرم میں دے اور چاہے تو اپنے وطن میں کسی کو اپنا وکیل بناکر قربانی ادا کرے ۔ فقہِ حنفی میں عرفات میں غروبِ آفتاب کا یقین ہوجانے پر مزدلفہ روانہ ہو‘وہاں پہنچ کر مغرب وعشا کی نمازایک ساتھ ادا کرے اورپھر طلوعِ فجر سے قبل مناسب وقت تک آرام کرنا سنت ہے کہ آپ ﷺ نے امت کی آسانی کے لیے اس رات تہجد کی نماز بھی ادا نہیں فرمائی۔ صبح صادق کے بعد اور سورج کے طلوع ہونے سے پہلے تک مزدلفہ کی حدود میں وقوف واجب ہے ‘اگر نہیں کرے گا تو دم لازم آئے گا۔ البتہ بیماری ‘کمزوری یابڑھاپے کے سبب ضُعف لاحق ہو تو صبح صادق سے پہلے جاسکتا ہے۔ علامہ نظام الدین لکھتے ہیں ''اگرمزدلفہ کی حدود سے طلوعِ فجر سے پہلے چلا گیا ‘تو اس پر دم لازم ہے ‘کیونکہ اس نے وقوفِ مزدلفہ کو ترک کیا ‘ لیکن اگر اُسے کوئی عذر درپیش ہے یا بیمار ہے یا ضعیف ہے اور ازدحام کا خوف ہے اور وہ رات ہی کو چلا گیا تو اس پر دم واجب نہیں ہے‘ اَلسِّرَاجُ الْوَہَّاج میں اسی طرح ہے‘ (فتاویٰ عالمگیری‘ ج: 1 ص:231)‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ آج کل ازدحام بھی عذر ہے ۔''حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنے گھر کے کمزور افراد کو پہلے منیٰ بھیج دیا کرتے تھے‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں '' میں اُن لوگوں میں سے تھا جن کو نبی ﷺ نے مزدلفہ کی رات میں کمزور افراد کے ساتھ منیٰ روانہ کردیا تھا ‘(صحیح البخاری:1676-78)‘‘۔لہٰذا اگر ضعیف لوگ یا کم عمر بچے یا عورتیں بیماری اور کمزوری کے سبب یا ازدحام کے خوف سے صبح صادق سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ چلے جائیں تو عذر کی بنا پر اُن کو اجازت ہے اور اُن پر دم واجب نہیں ہوگا۔ ایک مسئلہ اکثر دریافت کیا جاتا ہے کہ جس عورت کو شوہر یا محرم کی رفاقت میسر نہ ہو ‘آیا وہ عورتوں کے گروپ میں شامل ہوکر حج یا عمرے پر جاسکتی ہے ‘ اس کی بابت فقہِ حنفی کا اصولی مسئلہ تو یہی ہے کہ سفرحج وعمرہ کا ہو یا دیگر مقاصد کے لیے ‘اگر اس کی مسافت اٹھانوے کلومیٹر کے برابر ہے ‘تو عورت شوہر یا محرم کی رفاقت کے بغیر سفر نہیں کرسکتی ۔ لیکن عورتوں کو مشکلات درپیش ہیں کہ یا تو وہ کسی محرم کا خرچ برداشت کریں یا اس عذر کے سبب حج وعمرے پر جانے سے محروم رہیں ۔ نیز ہمارے فقہائے کرام نے اس مسئلے پر بھی بحث کی ہے کہ اگر عورت کو شوہر یا محرم کی رفاقت دستیاب نہیں ہے اور وہ اپنی زندگی میں فریضۂ حج ادا نہیں کرسکتی ‘تو کیا اس پر حجِ بدل کی وصیت کرنایا کسی کو فرض حجِ بدل کے لیے بھیجنا لازم ہے ۔فقہائے کرام میں سے جن کا مؤقف یہ ہے کہ عورت کے لیے محرم کی رفاقت حج کے فرض ہونے کی شرط ہے ‘اُن کے نزدیک اس پر نہ کسی کو حجِ بدل پر بھیجنا اور نہ اس کی وصیت کرنا لازم ہے‘البتہ جن کا مؤقف یہ ہے کہ عورت کے لیے شوہر یا محرم کی رفاقت حج کے ادا کرنے کی شرط ہے ‘تو اُن کے نزدیک اس کے لیے فرض حجِ بدل کرانا یا اس کی وصیت کرنا لازم ہے‘ ورنہ گناہگار ہوگی۔ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر ثقہ عورتوں کی ایک جماعت حج یا عمرے پر جارہی ہے ‘توجس عورت کو شوہر یا محرم کی رفاقت میسر نہیںہے ‘وہ اُن کے ساتھ جاسکتی ہے ۔بعض حالات میں ہمارے فقہائے کرام نے دفعِ حرج اور یُسر کے لیے دوسرے ائمہ کے مذہب پر عمل کی اجازت دی ہے اور ہمارے معاصر فقہا میں سے مفتی محمد رفیق حسنی نے لکھا ہے''اب احناف کو موجودہ دور میں امام شافعی ؒکے مذہب کے مطابق فتویٰ دینا چاہیے ‘ اگر ثقہ خواتین عورتوں کا کوئی گروپ ہو تو وہ عورت جسے شوہر یا محرم کی رفاقت میسر نہیں ہے‘اُن کی رفاقت میں فریضۂ حج ادا کرلے‘ (رفیق المناسک ‘ص: 481)‘‘۔
ہماری رائے میں اب مفتیانِ کرام کو اس مسئلے پر غورکرنا چاہیے ‘اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں سفر آسان ہے‘ بس یا ہوائی جہاز میں عورتوں کو ایک ساتھ بٹھادیا جاتا ہے ‘ اسی طرح جو لوگ ٹورسٹ گروپوں میں یا سرکاری سکیم میں حج پرجاتے ہیں ‘ اُن میں بھی عورتوں کو الگ کمرے میں ٹھہرایا جاتا ہے اور اس میں مردوں کے ساتھ اختلاط نہیںہوتا۔ سوبجائے اس کے کہ گروپ لیڈر جھوٹ کا سہارا لے کر کسی مرد کو کسی عورت کا محرم ظاہر کرے ‘بعض مخصوص صورتوں میں اس رخصت پر غور کرنا چاہیے‘یعنی جواں عمر خواتین کے لیے عمومی اجازت دیناحکمتِ دین کے منافی ہے ۔ سعودی حکومت نے تو لبرل ازم کی رو میں شریعت سے ماورا کافی آزادیاں دے دی ہیں ؛چنانچہ حال ہی میں انہوں نے اکیس سالہ لڑکی کو والدین کی معیت کے بغیر پاسپورٹ بنوانے اور سفر کی اجازت دے دی ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان کی بعض ریاستوں میں گائے کا ذبیحہ ممنوع ہے‘ حقیقی ذبیحہ تو دور کی بات ہے ‘محض شک کی بنیاد پر مسلمانوں کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں ‘اس لیے جہاں جان اور آبرو کا خطرہ ہو ‘ انہیں چاہیے کہ گائے کی قربانی سے احتراز کریںاور بھینس ‘ اونٹ یا بکرے دنبے کی قربانی کے ذریعے سنتِ ابراہیمی کو ادا کریں ۔