پانچ اگست کوکشمیر کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس دن مودی سرکار نے آرٹیکل370اور35-Aکو منسوخ کر کے کشمیر کو دیے گئے خصوصی سٹیٹس کو ختم کر دیا ۔آرٹیکل35-Aجموں اور کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو اختیار دیتا تھا کہ وہ کشمیر کے مستقل شہریوں کے لیے خصوصی حقوق اور مراعات کا تعین کر ے۔ آرٹیکل 370کے ذریعے مقبوضہ جموں اور کشمیر کے خطے کو خصوصی حیثیت حاصل تھی‘ جس کے تحت جموںو کشمیر کا اپنا آئین‘ اپنا پرچم اور ریاست کے انتظامی امور کے اختیارات شامل تھے۔ پانچ اگست کے اقدام کے بعد مقبوضہ جموںو کشمیر بھارت کا مستقل حصہ بن جائے گا‘ کشمیری شہریوں کے خصوصی اختیارات ختم ہو جائیں گے‘ ریاست سے باہر کے لوگ بھی یہاں زمیں خرید سکیں گے‘ جموںو کشمیر کا اپنا پرچم نہیں ہو گا اور یوں مستقبل میں یہاں نو آباد لوگوں کی وجہ سے آبادی میں مسلمانوں اور ہندوئوں کی شرح میں تبدیلی آجائے گی۔
کشمیر کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ کس طرح بھارت کی مختلف حکومتیںترغیب اور تحریص سے کشمیریوں کی آزادی پروار کرتی رہیں‘ لیکن کشمیر کے شہریوں نے جبرو استبداد کے خلاف ہر دور میں بھرپور مزاحمت کی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ‘استعمار کے مقابلے میں جان دینے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہے‘ جہاں ایک طرف قربانیوں کے چراغ جل رہے تھے ‘وہیں کچھ رہنما صرف اپنے مفادات کی نگہبانی کر رہے تھے۔ تاریخ کا آئینہ بڑا ظالم ہوتا ہے‘ جس میں رہنمائوں کے خدوخال اپنے حسن وقبح کے ساتھ نمایاں ہوتے ہیں‘ انہیں میں سے ایک کردار شیخ عبداللہ کا ہے۔یہ 1964 ء کی بات ہے‘ اس وقت میں پرائمری سکول میں پڑھتاتھا کہ ایک روز ہمارے کلاس کے ہر دلعزیز استاد ماسٹر غلام رسول صاحب نے ہمیں بتایا کہ پرسوں شیخ عبداللہ پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں ‘وہ کشمیری لیڈر ہیں اور انہیں شیرکشمیر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کل وہ کچھ اور نہیں پڑھائیں گے‘صرف کشمیر کے بارے میں ہمیں بتائیں گے۔اگلے روز ہم کلاس میں گئے تو اس بات کی خوشی تھی کہ پڑھائی نہیں ہو گی ‘اُس روز ماسٹرغلام رسول صاحب نے ہمیں بتایا کہ مہاراجہ گلاب سنگھ ‘جو ایک ڈوگرہ حکمران تھا‘ سے کیسے معاہدہ امرتسرکے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی نے کشمیر کو خریدا ؟ماسٹر غلام رسول صاحب نے بتایا کہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی‘ لیکن مہاراجہ کی پالیسیاں ان کے خلاف تھیں۔ مقامی لوگ اس کی پالیسیوں سے سخت تنگ تھے‘ ایسے میں شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس نے رہنمائی کافریضہ سرانجام دیا۔ کشمیر چھوڑ تحریک چلائی گئی ‘جس میں شیخ عبداللہ پیش پیش تھے۔ ماسٹر غلام رسول صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا: شیر کشمیر بننے سے پہلے شیخ عبداللہ بھی میری طرح ماسٹر عبداللہ تھے‘ ایک سکول میں 60 روپے ماہانہ تنخواہ پر پڑھاتے تھے۔ تقریر ایسی کرتے کہ لوگ متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے اور پھر 1947ء آگیا‘ جب انگریزوں کی غلامی سے رہائی ملی اور پاکستان اور بھارت دو الگ ملک وجود میں آئے۔ ریاستوں کو اختیار تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت سے الحاق کر سکتی ہیں یا پھر اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھ سکتی ہیں‘ کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے بھی کشمیر کی آزاد حیثیت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا‘ لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان سے ایک تجارتی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے ۔
یہاں رک کر ماسٹر غلام رسول کرسی سے اٹھے اور بلیک بورڈ پر چاک سے نقشہ بنایا ۔اب ‘ہمیں آسانی سے پا کستان ‘کشمیر اور بھارت کا محل وقوع سمجھ میں آنے لگا۔ ماسٹر غلام رسول صاحب نے بتایا کہ اس نقشے کو دیکھیں تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ ہمارے قائداعظم ؒنے پاکستان کو کشمیر کی شہ رگ کیوں کہا تھا؟ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے نوجوان کشمیر کی آزادی کے لیے شریک ہو گئے اور ایک بڑے حصے کو ہری سنگھ کے تسلط سے آزاد کرا لیا۔ بھارت نے اس شرط پر مدد کرنے کا وعدہ کیا کہ کشمیر کا الحاق بھارت سے کر دیا جائے‘ یوں جموں و کشمیر کی آزاد حیثیت ختم ہو گئی ۔ پھرمہاراجہ ہری سنگھ نے شیخ عبداللہ کو جموں اور کشمیر کا وزیراعظم بنا دیا ۔
ماسٹر غلام رسول بولے کہ بھارت کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ لے گیا‘ جہاں یہ فیصلہ ہوا کہ کشمیریوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ لیکن بھارت نے کبھی اس قرارداد پر عمل درآمد نہیں کیا۔ شیخ عبداللہ کو کچھ عرصے بعد ہٹا کر بخشی غلام محمد کو وزیراعظم بنا دیا گیا‘ اس کے بعدشیخ عبداللہ کو گرفتار کر لیا گیا ۔ ابھی ماسٹر غلام رسول کی کہانی یہاں تک پہنچی تھی کہ چھٹی کی گھنٹی بجی اور ہم اپنے بیگ لے کر کلاس روم سے بھاگے۔ اس روز گھر جا کر میں نے انعام بھائی کو کشمیر کے بارے میں بتایا‘ جس پر وہ بولے :کل ہم اپنی چھت سے شیخ عبداللہ کو دیکھیں گے۔ ان دنوں ہم ایک کرائے کے دو منزلہ مکان میں رہتے تھے‘ جس کی دوسری منزل کی چھت پر جانے کے لیے لکڑی کی سیڑھی تھی ۔ میں نے چھت کی فصیل میںبنے سوراخوں میں پیر جمائے۔اب‘ میری نظریں اس سڑک پر تھیں‘ جہاں سے قافلہ گزرنا تھا ‘لوگوں کا ہجوم تھا جو شیخ عبداللہ کو دیکھنے آیا تھا‘ پھر میں نے پھولوں سے لدی وہ گاڑی دیکھی جس میں شیخ عبداللہ سوار تھے۔
شیخ عبداللہ کا دورہ اور ماسٹر غلام رسول کا لیکچر مجھے آج پھر سے یاد آ گیا ۔ماسٹر غلام رسول کی کشمیر اور شیخ عبداللہ کے بارے میں کہانی چھٹی ہونے کی وجہ سے ادھوری رہ گئی تھی‘ پانچ اگست کے واقعے نے میرے دل میں آرزو جگائی کہ کہانی کے وہ موڑ جو اس کے بعد آئے ان کے بارے میں جانا جائے۔ اگر‘ماسٹر غلام صاحب زندہ ہوتے تو میں ان کے پاس جا کر پوچھتا‘ اب میں نے کتابوں سے مدد لی اور کہانی کے باقی موڑ میرے سامنے آتے گئے۔ جب شیخ عبداللہ پاکستان کے دورے پر آئے تھے‘ یہ 1964 کا سال تھا ‘اسی سال 27 مئی کو جواہر لال نہرو کا انتقال ہوا ۔1965ء میں جموں اور کشمیر کی ریاست میں وزیراعظم اور صدرِ ریاست کی بجائے وزیراعلیٰ اور گورنر کے عہدے رائج کیے گئے ۔ ادھر مزاحمت تیز ہو گئی اور ریفرنڈم کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ۔اس مطالبے میں ہراول دستے کا کردار جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا تھا۔ 1975ء کا سال اس لیے اہم تھا کہ اس سال شیخ عبداللہ اور اندراگاندھی نے معاہدہ کشمیر پر دستخط کیے‘ جس میں آرٹیکل 370 کی پھر سے توثیق کی گئی اور کشمیر کو بھارت کا ایک حصہ مانا گیا۔ 1977 ء میں اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ‘ جو کبھی شیرو شکر تھے‘ ایک دوسرے کے مخالف ہو گئے۔ اسی سال جموں اور کشمیر میں نئے انتخابات ہوئے‘ جس کے نتیجے میں شیخ عبداللہ کی جماعت پھر سے کامیاب ہو گئی ۔2018ء میں بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی پارٹی سے اتحاد ختم کر دیا۔ اگست کی چار تاریخ کو کشمیری رہنما محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس سے اگلے روز پانچ اگست کو آرٹیکل370اور 35Aکو منسوخ کر دیا گیا۔ اب‘ کہانی کے سارے موڑ ‘ کردار اور واقعات کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے‘قابل اجمیری کے اس شعر کی تفسیر ہیں:؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اس کہانی میں غیروں کی چیرہ دستیوں کے ساتھ اپنوں کی بے اعتنایوںکا بھی دخل ہے‘جنہوں نے لاکھوں شہیدوں کے خون سے بے وفائی کی۔آج مجھے اپنے پرائمری سکول کے استاد ماسٹر غلام رسول بے طرح یاد آ رہے ہیں۔ اُس روز بلیک بورڈ پر پربنائے ہوئے نقشے کو دیکھ کر انہوں نے ہمیں مخاطب کر کے کہا تھا کہ اس نقشے کو دیکھیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ قائداعظم ؒنے کشمیر کو شہ رگ کیوں کہا تھا؟ میں نے دل ہی دل میں سوچا ؛شکر ہے‘ آج ماسٹر غلام رسول زندہ نہیں ‘وہ پاکستان کی شہ رگ کو اس حال میں کیسے دیکھتے؟