عمران خان بُغض اور حسد کی آگ میں جل رہے ہیں: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''عمران خان بُغض اور حسد کی آگ میں جل رہے ہیں‘‘ اور ہماری خوشحالی اور مال و دولت انہیں ایک آنکھ نہیں بھا رہے ؛حالانکہ یہ اللہ میاں کی دین ہے اور یہ مہربانیاں وہ اپنے خاص بندوں کے ساتھ کرتے ہیں‘ اس لیے حسد کرنے کی بجائے وہ ہماری طرح محنت ِ شاقہ کرنے کی کوشش کریں تو ان کے دن بھی اللہ تعالی پھیر سکتے ہیں‘ جبکہ سیاست ہم عبادت ہی سمجھ کر کرتے ہیں اور وہ بھی ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر‘ جبکہ زرداری انکل بھی ہماری طرح کافی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں اور شاید اولیائی کا دعویٰ کرنے کی سوچ رہے ہوں‘ جبکہ تایا جان کی ولدیت کو تو سب تسلیم بھی کرنے لگے ہیں؛ اگرچہ والد صاحب بھی اب تک کئی کرامات دکھا چکے ہیں ‘لیکن تایا جان کے مرتبے کو ابھی نہیں پہنچ سکے‘ جبکہ عمران خان یہ فضیلت تایا جان کے مرید بن کر بھی حاصل کر سکتے ہیں۔آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
مریم نواز کی گرفتاری اس لیے ہوئی کہ کہیں وہ کشمیریوں
کا کیس لڑنے نہ چلی جائے: کیپٹن (ر) صفدر
نواز لیگ کے رہنما کیپٹن (ر) محمد صفدر نے کہا ہے کہ ''مریم نواز کی گرفتاری اس لیے ہوئی کہ کہیں وہ کشمیریوں کا کیس لڑنے نہ چلی جائے‘‘ اور حکومت‘ اگر کشمیریوں کا کیس خود نہیں لڑ سکتی تو دوسروں کو تو اس کام سے نہ روکے‘ جبکہ اسے خطرہ تھا کہ وہ پہلے ہلّے میں ہی یہ کیس جیت جائے گی اور حکومت ہاتھ ملتی اور دیکھتی کی دیکھتی ہی رہ جائے گی‘ کیونکہ جس طرح انہوں نے اپنے والد صاحب کا کیس لڑا ہے اور جس طرح وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں‘ جو کہ پوری قوم کیلئے مقامِ عبرت ہے اور ان سے فارغ ہو کر اب انہوں نے اپنا کیس لڑنا شروع کر دیا ہے‘ جس میں بھی وہ اسی طرح سرخرو ہوں گی‘ لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ حکومت انہیں رہا کر کے کشمیریوں کے کیس میں فتح یاب ہونے کا موقعہ دے۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت میں پیشی کے موقعہ پر میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
محکمہ صحت میں کسی بھی ترقی کے لیے
سفارش نہیں مانی جائے گی: یاسمین راشد
وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ ''محکمہ صحت میں کسی بھی ترقی کے لیے سفارش نہیں مانی جائے گی‘‘ کیونکہ سفارشی معاملات سارے کے سارے محکمہ پولیس اور مال وغیرہ میں بروئے کار لائے جا رہے ہیں‘ جبکہ وزیراعلیٰ صاحب اپنے ارکان ِاسمبلی کی فرمائش پر یا تو کسی افسر کو تعینات کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں یا اسے تبدیل کرنے میں‘ کیونکہ اگر علاقے میں رکن ِاسمبلی کی مرضی کا مثلاً ڈی پی او تعینات کر دیا جائے تو اس سے امن و امان کی صورتحال قابو میں رہتی ہے‘ نیز اس کے مخالفین بھی خاصے قابو میں رہتے ہیں اور اصل کام چیزوں کا اپنے قابو میں رہنا ہی ہوتا ہے اور اس ایک طریقے سے ارکان ِاسمبلی بھی وزیراعلیٰ صاحب کے قابو میں رہتے ہیں ۔ آپ اگلے روز میڈیکل یونیورسٹی میں لیکچر دے رہی تھیں۔
ذرا سی دھوپ رہنے دو
یہ اوسلو (ناروے) میں مقیم محمد ادریس لاہوری کا اوّلین مجموعہ نظم و غزل ہے‘ جسے نستعلیق مطبوعات لاہور نے چھاپا ہے۔ انتساب اس طرح سے ہے ''اپنے والد کے نام! ہمہ وقت‘ جن کی دعائوں کی آغوش میں ہوں اور ماموں اکرم منہاس کے نام‘ جو خاندان کیلئے مثلِ برگد ہیں‘‘ دیباچہ نگاروں میں عطا الحق قاسمی‘ علی اصغر عباس‘ حسن عباسی‘ ضمیر طالب‘ انمول گوہر‘ ڈاکٹر ندیم حسین‘ اور ارشد شاہین شامل ہیں۔ پس سرورق شاعر کی تصویر کے ساتھ اس کے چند منتخب اشعار بھی درج ہیں‘ اسی طرح اندرون سرورق بھی منتخب اشعار شائع کئے گئے ہیں۔موصوف کے لیے جدید اُردو غزل کا مطالعہ بیحد ضروری ہے‘ تا کہ اسے جدید طرزِ احساس سے آشنائی ہو سکے‘ جس کے بغیر یہ گاڑی نہیں چل سکتی؛ البتہ کتاب چھپ سکتی ہے۔ دو شعر دیکھیے:؎
زادِ رہ باندھ کے بیٹھے ہیں کہ یہ دیکھ سکیں
کیسے لگتے ہیں ترے شہر سے جاتے ہوئے ہم
...............
کوئی ڈھونڈو مرا چہرہ
وہ شیشے میں ابھی تو تھا
پہلا شعر اگر وواقعی موصوف کا ہے تو حیرت ہے‘ کیونکہ اس کینڈے کا ایک شعر بھی کتاب میں نہیں ۔اور‘ اب آخر میں ابرارؔ احمد کی یہ نظم:
یاد گرد
تمہیں دیکھا تھا میں نے/ جب مہ و سالِ تمنا سے نکل کر/ تم--- یہاں آرام کرنے/ کچھ حسابِ عمرِ رفتہ کرنے آئے تھے/ کہ جب---آسائشوں کے دن تھے/ فرصت سے بھری راتیں/ تمہارے پائوں کے نیچے یہاں/ خوشبو کا رستہ تھا/ جہاں تم اپنے اجلے پن کو اوڑھے / خوش خرامی کر رہے تھے
تمہیں دیکھا تھا میں نے/ سامنے---اُس بنچ پر/ بے چین‘ تنہائی کے جھُرمٹ میں/ کہیں کچھ سوچتے--- /نم ناک آنکھوں سے/ درختوں کی طرف تم دیکھتے/ دیکھے چلے جاتے/ بہت حیرت سے میں کہتا: کبھی تم سے / کہ اب ایسا بھی کیا آخر---؟
سو پھر اک روز تم/ اُٹھ کر کہیں کو چل دیئے تھے/ اپنے آنسو پونچھ کر/ تکتے ہوئے/ ہم سب کے چہروں کو--- /اِدھر میں آج/ اس دہلیز پر بیٹھا ہوں/ رستوں کے کنارے سوچتا/ جانے کدھر کو جا نکلتا ہوں/ فراموشی مجھے آواز دیتی ہے/ مرے اطراف میں / اک خامشی‘ کانٹے اُگاتی ہے / مری ان جلتی آنکھوں میں
جو مجھ کو--- آج/ یوں حیران ہو کر دیکھتے ہیں / اُنہیں اب کیا کہوں/ تم---ٹھیک روتے تھے!
آج کا مقطع
پاؤں پھیلاتا ہوں چادر دیکھ کر میں بھی‘ ظفرؔ
کچھ مجھے اُس نے بھی ہے‘ اوقات میں رکھا ہوا