اشارے کامیاب ہیں۔ جسے جو کچھ کرنے کو کہا جارہا ہے‘ وہ بخوبی اور تندہی سے کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر سیاسی بساط عجیب مرحلے پر آگئی ہے۔ بہت کچھ آپس میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ بڑی طاقتیں پہلے کی طرح بڑی طاقتیں نہیں رہیں۔ طاقت کا گراف گِر چکا ہے‘ مگر یہ بات کم لوگ سمجھ پائے ہیں ‘کیونکہ طاقت کا ''ٹہکا‘‘ اب تک چل رہا ہے۔
اکیسویں صدی میں بہت کچھ تبدیل ہونا ہے۔ چند بڑی طاقتوں کو طاقت اور اثرات کے گرتے ہوئے گراف کے باعث بیک سیٹ لینی ہے۔ چند ابھرتی ہوئی طاقتیں اب‘ اس حد تک ابھر چکی ہیں کہ اُنہیں ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے سے روکنا بہت حد تک ناممکن ہوچلا ہے۔ اس راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے محض مسائل پیدا ہوں گے‘ معاملات الجھیں گے اور خرابی کا دائرہ وسعت اختیار کرے گا۔
امریکا‘ برطانیہ‘ فرانس اور یورپ کی دیگر قوتیں محسوس کر رہی ہیں کہ اُن کا دور پہلا سا نہیں رہا۔ دنیا میں بہت کچھ بدل چکا ہے‘ بلکہ دنیا ہی بدل چکی ہے۔ اب ہر خطے میں ٹیکنالوجی کا بازار گرم ہے۔ کل تک انتہائی کمزور سمجھی جانے والی اقوام بھی پنپ چکی ہیں۔ عالمی سیاسی‘ معاشی اور مالیاتی نظام کے جسم میں‘ جن طاقتوں نے پنجے گاڑ رکھے ہیں‘ اُنہیں غیر موثر کرنے میں کچھ وقت ضرور لگے گا‘ مگر یہ حقیقت تسلیم کی جانی چاہیے کہ امریکا اور یورپ کے لیے اب پہلی سی آسانیاں نہیں رہیں اور اُنہیں کچھ ہی مدت کے بعد دیگر ابھرتی ہوئی قوتوں کو بھی ایڈجسٹ کرنا پڑے گا۔
چین کی طاقت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ اور روس بھی عالمی سیاست و معیشت میں اپنا حصہ پانے کے لیے پَر تول رہا ہے۔ ایسے میں ترکی‘ برازیل اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتیں بھی چاہتی ہیں کہ اُن کی بات سُنی جائے‘ اُنہیں احترام کی نظر سے دیکھا جائے۔ طاقت کے نئے مرکز کا ابھرنا ٹھہر گیا ہے۔ اس حوالے سے چین کلیدی اور قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔
چند ممالک اب تک طے نہیں کر پائے کہ نئے ابھرتے ہوئے عالمی نظام میں اُن کا مقام کیا ہوگا یا کیا ہونا چاہیے۔ اس حوالے شدید مخمصے میں مبتلا ممالک میں بھارت شاید سب سے نمایاں ہے۔ وہ اب تک چار پانچ عشروں پہلے کی دنیا میں جی رہا ہے۔ پالیسیوں میں موزوں تبدیلیاں لانے کے حوالے سے اُس کی ناکامی کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں۔ عشروں کی محنت کے بعد بھارت نے سیاست و معیشت میں جو مقام پایا تھا ‘اُسے مذہبی انتہا پسندی کے ہاتھوں خود ہی ٹھکانے لگارہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے جس نوعیت کی پالیسیاں اپنائی ہیں‘ اُنہیں دیکھتے ہوئے بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ کچھ مدت کے بعد بھارت یا تو بند گلی میں پھنس جائے گا یا پھر پورے خطے کو جنگ کے الاؤ میں جھونک دے گا۔ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا ؛اگر ناقابلِ قبول ہے تو امریکا اور یورپ کے لیے۔ یورپ کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ اُس نے خود کو ایڈجسٹ کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ افریقا اور ایشیا میں یورپی طاقتوں نے بھی کم مظالم نہیں ڈھائے ہیں‘ مگر اب یورپ کو ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوچکا ہے کہ طاقت کے استعمال سے کچھ خاص حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے میں ''نرم قوت‘‘ (صنعت‘ تجارت‘ مالیات‘ ٹیکنالوجی وغیرہ) کے ذریعے ہی کچھ حاصل کرنا ممکن ہے۔ اس حقیقت کے ادراک نے یورپ کو پالیسیاں تبدیل کرنے کی راہ سُجھائی ہے۔
امریکا کے لیے نئی دنیا بہت پریشان کن ہے۔ ایک طرف تو کم ہوتی ہوئی طاقت ہے اور دوسری طرف چند ممالک کی بڑھتی ہوئی قوت ہے۔ چین نے تین عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران عسکری مہم جوئی سے یکسر گریز کرتے ہوئے خود کو معاشی طور پر اِس قدر مستحکم کرلیا ہے کہ اُس کی طاقت دیکھتے ہوئے امریکا اور یورپ کو واضح طور پر خوف محسوس ہونے لگا ہے۔ چین کا مدار ''نرم قوت‘‘ پر ہے۔ وہ کسی بھی خطے کو عسکری مہم جوئی کے ذریعے تاراج کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) چین کے اُس عظیم منصوبے کا ایک جُز ہے‘ جس سے کم و بیش 65 ممالک کا مفاد وابستہ ہے۔ چین سے ریل روڈ کے ذریعے یورپ تک مال کی ترسیل کا آغاز ہوچکا ہے۔ روس نے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اُسے نئے عالمی نظام میں اپنے لیے بہت کچھ درکار ہے‘ اس لیے چین کے ساتھ مل کر وہ بھی کچھ کرنا چاہتا ہے۔ روسی قیادت کے رویے سے مترشّح ہے کہ وہ امریکا اور یورپ سے مایوس ہوچکی ہے۔ ایک صدی سے بھی زائد مدت کی کشمکش کے دوران روسی قیادت نے کئی مواقع پر محسوس کیا ہے کہ امریکا اور یورپ مل کر اُسے آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔
جب سے چین نے معیشت کے حوالے سے دنیا کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش شروع کی ہے تب سے امریکا کے پیٹ میں وہ مروڑ اٹھا ہے‘ جو بیٹھنے کا نام نہیں لے رہا۔ سی پیک کے لیے پاکستان کا پُرامن اور مستحکم رہنا لازم ہے۔ امریکا کے اشارے پر بھارت نے رنگ دکھانا شروع کردیا ہے۔ جیسے ہی سی پیک سے متعلق منصوبوں پر کام کی رفتار تیز ہوئی‘ بھارت نے بلوچستان میں گڑبڑ پھیلانے کا سلسلہ دراز کیا۔ اب چین کو مشتعل کرنے کے لیے لداخ کو بھارت کا حصہ بنانے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا اقدام کیا گیا ہے۔ یہ گویا چین کو سی پیک کی بساط لپیٹنے پر مجبور کرنے کی بھرپور کوشش ہے۔
امریکا نے جنوبی ایشیا کو غیر مستحکم کرنے کی راہ پر اپنا سفر تیز کردیا ہے۔ وہ بھارت اور افغانستان کو کھل کر استعمال کر رہا ہے۔ آگے چل کر دیگر ممالک سے بھی کام لیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں سری لنکا کو داد دینا پڑے گی کہ اُس نے چین کی طرف جھکاؤ دکھانے کے معاملے میں کسی حد تک ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ بھارت نے سری لنکا میں بھی مسلم مخالف لہر پیدا کرنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی ہے۔ اس حوالے سے سری لنکن قیادت کو غیر معمولی احتیاط سے کام لینا پڑے گا۔ دہشت گردی کی آڑ میں سری لنکا کی سنہالی اکثریت کو مسلمانوں کے خلاف کرنے کی مزید کوششیں بھی کی جاسکتی ہیں۔
امریکا اور بھارت مل کر جنوبی ایشیا میں جو کھیل اس وقت کھیل رہے ہیں‘ وہ انتہائی خطرناک ہے۔ بھارتی قیادت انتہا پسندی کے جنون میں مبتلا ہے اور یہ سمجھ رہی ہے کہ سب کچھ اُس کی مرضی کے مطابق ہوتا چلا جائے گا۔ وہ اس گمان میں مبتلا ہے کہ چین نے جو بارات نکالی ہے‘ وہ آدھے راستے سے واپس چلی جائے گی۔ ایسا نہیں ہوگا۔ بارات واپس نہیں جائے گی۔ بھارت بہت بڑی منڈی سہی‘ دیگر حقائق بھی وقت آنے پر جلوہ نما اور کارفرما ہوسکتے ہیں۔ بھارت جنوبی ایشیا کا حصہ ہے‘ امریکا اور یورپ کی زمینی حقیقت نہیں۔ دوست بدلے جاسکتے ہیں‘ پڑوسی نہیں۔ چین بھی پڑوسی ہے اور پاکستان بھی۔ کسی دُور افتادہ قوت کے اشارے پر چین و پاکستان کی راہیں مسدود کرنے کی کوشش خود بھارت کیلئے ناپسندیدہ نتائج ہی کا باعث بنے گی۔ نریندر مودی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے کی طرف قدم بڑھاکر خطے کو شدید عدم استحکام کی نذر کرنے کی جو مذموم کوشش کی ہے‘ اُس کے حوالے سے اُن پر ہر طرف سے تنقید ہو رہی ہے۔ بھارت کے پالیسی میکرز غیر معمولی بُزدِلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ بی جے پی سرکار ملک کی سالمیت سے کھیل رہی ہے ‘مگر پالیسی میکرز منہ میں گھنگھنیاں دیئے بیٹھے ہیں۔ منتخب قیادت کی حماقت کے پیش نظر بیورو کریسی کو ریاستی مفاد کے لیے اٹھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔