یہ اب دنوں کی بات ہو گی جب افغانستان میں امریکا، طالبان اور موجودہ افغان حکومت کے درمیان سمجھوتہ ہو جائے گا۔ اس سمجھوتے کا مطلب ہے کہ افغانستان امن کے راستے پر چل پڑے گا۔ یہ سمجھوتہ کامیاب رہا تو ہمارے پڑوس میں ترقی کے نئے امکانات بھی پیدا ہوں گے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر پاکستان کے لیے وسطی ایشیا کی اہمیت اور وسطی ایشیا کے لیے پاکستان کی اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ امکانات کی یہی دنیا ہے جسے دیکھتے ہوئے روس ہمارے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہے، چین کو ہماری ضرورت کچھ زیادہ شدید ہو رہی ہے اور امریکا بھی تھوڑی تاخیر سے یہ نئی حقیقت تسلیم کر چکا ہے۔ عالمی سطح پر افغانستان میں پاکستان کی اہمیت کو اٹھارہ سال بعد سہی، تسلیم کر لینے کا مطلب ہے کہ دنیا وسطی ایشیا میں ہماری سفارتی و سیاسی پیش قدمی کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ اگر ہم چین کی طرح روس کو بھی وسطی ایشیا سے گزر کر بحیرہ عرب تک راستہ دیتے ہیں تو سی پیک کی طرح کا ہی ایک اور بڑا منصوبہ پاکستان کے لیے بن سکتا ہے۔ گویا پاکستان وسطی ایشیا کے علاوہ روس کے لیے بھی واحد سمندری راستے کے طور پر ابھرے گا‘ جس کا مطلب ہے دنیا کے نقشے پر ایک نئی علاقائی قوت کا ظہور۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم افغانستان میں امن کے بعد پیدا ہونے والے مواقع کے لیے تیار ہیں؟
اس سوال کا جواب ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں بڑا واضح طور پر ملتا رہا ہے۔ ان دونوں کو اچھی طرح علم تھا کہ افغانستان میں سوویت یونین کی فتح کا مطلب پاکستان کی ہمیشہ کیلئے شکست ہے اور افغانستان میں مجاہدین کی فتح کا مطلب پاکستان کی روس کی سرحد تک رسائی ہے۔ اس پالیسی کو سٹریٹیجک گہرائی کا نام دیا گیا۔ پہلے بھٹو نے اور بعد میں جنرل ضیاء الحق نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں مجاہدین کی مدد یہی سوچ کر کی تھی۔ ان کے بعد آنے والے عالمی سیاست اور ملکی مفادات کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں تھے‘ اس لیے انہوں نے وقتی ناکامیوں سے گھبرا کر سٹریٹیجک گہرائی کو ایک احمقانہ خیال قرار دے کر رد کرنا شروع کر دیا۔ خود کو ترقی پسند کہلوانے والے طبقے نے اس نظریے کا اتنا مذاق اڑایا کہ اس خیال پر کبھی سنجیدہ بحث بھی نہیں ہو سکی۔ ضیاء الحق کی غلطی یہ تھی کہ وہ اس نظریے کو مذہب کی بنیاد پر آگے بڑھا رہے تھے اور ان کے ذہن پر خطے کے اندر پاکستان کا ''قائدانہ کردار‘‘ بھی کافی حاوی رہتا تھا، اس لیے جدید دنیا میں یہ قابل قبول بھی نہیں تھا۔ مگر یہ اعزاز بہرحال ان کو حاصل ہے کہ انہوں نے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ اس نظریے کی ترویج کی اور عملی طور پر اسے آگے بڑھاتے رہے۔ ان کے بعد اس نظریے کی پاکستان میں کوئی پذیرائی رہی نہ افغانستان میں اسے قبول کیا گیا۔ نائن الیون کے واقعات کے بعد تو سب کچھ بدل گیا اور خود امریکا ایک جارح ریاست کے طور پر افغانستان میں آن براجا۔ وہ لڑائی جو انیس سو نوے میں ختم ہوئی تھی دو ہزار ایک میں پھر شروع ہو گئی اور ہمیں وہیں کھڑا ہونا پڑا جہاں ہم انیس سو چھہتر ستتر میں کھڑے تھے۔
اب افغانستان میں امن کے بعد پاکستان کو دوبارہ موقع ملنے والا ہے کہ وہ اپنے حساب سے مستقبل کی نقشہ گری کر سکے۔ سٹریٹیجک گہرائی کا خیال آج اس شکل میں قابل قبول نہیں رہا‘ جس شکل میں یہ ذوالفقار علی بھٹو یا جنرل ضیاء الحق کے ذہنوں میں تھا لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ یہ آج قابل عمل نہیں رہا۔ آج کی تاریخ میں پاکستان کے پاس اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی مرکزی خیال موجود ہو سکتا ہے تو وہ یہی ہے؛ البتہ اس کے خد و خال میں تبدیلی ضروری ہے۔ چونکہ یہ نظریہ اور اس کی تشریح ماضی میں مختلف اعتبار سے کی جاتی رہی ہے اس لیے کوئی بھی ملک اسے اپنی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھتا رہا ہے۔ اگر چین کی طرح اس کی تشکیل نو خالصتاً مساویانہ معاشی مفادات کی بنیاد پر کی جائے تو جلد یا بدیر وسطی ایشیا میں اسے قبول کر لیا جائے گا۔ جب افغانستان، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، کرغیزستان اور قازقستان کو یہ اطمینان ہو کہ ان کی داخلی سیاست میں دخل اندازی یا انہیں کسی نئی آزمائش میں ڈالنے کی بجائے پاکستان مشترکہ معاشی مفادات کے لیے کام کر رہا ہے تو وہ بخوشی اس معاملے میں ہمارے شریک کار بن جائیں گے۔
ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا کہ وسطی ایشیا میں پاکستان کے لیے موجود بے پناہ امکانات افغانستان میں امن کے ساتھ جڑے ہیں۔ افغانستان کے معاملے کا تاریک پہلو یہ ہے اس کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پر ہمارے اندر کئی اختلافات موجود ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا انیس سو اسی کی دہائی میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے آل پارٹیز کانفرنس کر کے افغانستان کے مسائل سے تنگ آ کر جان چھڑوانے کے لیے اس سے کنارہ کشی کر لی تھی۔ یعنی سوویت یونین اور امریکا افغانستان میں بغیر قابل قبول حکومت کے قیام کے بغیر ہی چلے گئے اور یوں ہمارے پڑوس میں چالیس برس خانہ جنگی کی آگ بھڑکتی رہی جس میں کئی بار ہمیں خود جلنا پڑا۔ کہنے کا مطلب مقصد یہ ہے کہ اس معاملے میں ہماری ہیئت حاکمہ میں مختلف ادوار میں کچھ معاملات موجود رہے جن کے نتائج بھی ہم برسوں سے بھگت رہے ہیں۔ خوش قسمتی سے اب ہمیں افغانستان کے مسائل حل کرنے کا یہ دوسرا موقع مل رہا ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ اس مسئلے پر فوج، سول حکومت ، حزب اختلاف اور معاشرے کے فعال طبقات سے بات کر کے اتفاق رائے پیدا کر لیا جائے۔ افغانستان میں امن محض پاکستان کے ہر شخص کی خواہش ہے، لہٰذا اس مسئلے پر نظر آنے والا اختلاف بنیادی نوعیت کا نہیں بلکہ فروعی ہے۔ اس فروعی اختلاف کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ مکالمہ ہے۔ جہاں ہم لا یعنی بحثوں میں ہر وقت الجھے رہتے ہیں اگر ایک تعمیری مکالمہ بھی کر لیں تو شاید ہم کسی بہتر نتیجے پر قدرے آسانی سے پہنچ سکیں۔
افغانستان اور وہ خطہ جسے آج پاکستان کہتے ہیں، صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے اس جڑواں پن کا اندازہ لگائیے کہ دہلی میں مسلمانوں کی حکومتیں درحقیقت افغانستان سے آنے والوں نے ہی قائم کی تھیں۔ کابل ، غزنی اور ہرات ہمیشہ ہندوستان سے ڈھیلے ڈھالے انداز میں جڑے رہے ۔ پاکستان بننے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم آگے بڑھتے اور افغانستان کے ساتھ ان تاریخی رشتوں کو قانونی شکل میں ڈھالتے اور مشترکہ مفادات کی نشاندہی کر کے ان کے حصول کی کوشش کرتے۔ ایسا کچھ ہونے کی بجائے دونوں ملکوں کے سیاست کاروں نے ہمیں ایک دوسرے سے دور رکھا۔ اب حالات بدل رہے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ ہمارا تعلق نیا جنم لے رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے لوگ اگر چاہیں تو اس تعلق کو یورپی یونین کی طرز پر ایک ایسے اتحاد میں ڈھال سکتے ہیں جس کا دونوں ملکوں میں کوئی آئینی وجود ہو۔ اسے کوئی دو ملکی تنظیم کہہ لیں یا کوئی اور نام دے لیں‘ بہرحال مقصد ایک دوسرے کے قریب آنا ہی ہے۔ ہمیں ضرور اس طرف سوچنا چاہیے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب تک اس طرح کے کسی دھاگے سے بندھے رہے ، دونوں ملک سکون میں رہے۔ جب سے یہ دھاگا ٹوٹا ہے، دونوں کو چین نہیں آیا۔ جس دن افغانستان اور پاکستان نے اس تعلق کو دوبارہ دریافت کر لیا، وہ دن دونوں کے مسائل کے حل کا آغاز ہو گا۔
نائن الیون کے واقعات کے بعد تو سب کچھ بدل گیا اور خود امریکا ایک جارح ریاست کے طور پر افغانستان میں آن براجا۔ وہ لڑائی جو انیس سو نوے میں ختم ہوئی تھی دو ہزار ایک میں پھر شروع ہو گئی اور ہمیں وہیں کھڑا ہونا پڑا جہاں ہم انیس سو چھہتر ستتر میں کھڑے تھے۔