تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     15-08-2019

کشمیر کہانی …(7)

لارڈ مائونٹ بیٹن کو یہ توقع نہیں تھی کہ مہاراجہ ہری سنگھ کچھ اور منصوبے بنا کر بیٹھا ہے۔ اس لیے مہاراجہ کے منہ سے یہ سن کر ہی لارڈ مائونٹ بیٹن چڑ گیا‘ جب ہری سنگھ بولا کہ دراصل وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے ساتھ الحاق نہیں چاہتا‘ وہ کشمیر کو آزاد ریاست کے طور پر رکھنا چاہتا ہے۔ 
لارڈ مائونٹ کو پہلی دفعہ یہ نہیں سننا پڑا تھا کہ راجے مہاراجے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں چاہتے۔ سب کو خطرات لاحق ہو چکے تھے کہ ہندوستان یا پاکستان کی شکل میں ان کے راج ختم ہونے والے ہیں۔ تخت سے اتر کر خود رعایا بننا پڑے گا۔ وہ سب کسی نہ کسی طرح آزاد رہنا چاہتے تھے۔ شروع میں لارڈ مائونٹ بیٹن نے بھی یہی فارمولا پیش کیا تھا کہ ہندوستان میں دو کی بجائے درجن بھر ملک بنائے جائیں اور ریاستوں کو تین آپشن دیے جائیں۔ پہلا پلان یہی تھا: پاکستان، ہندوستان یا خود مختار ریاست۔ تاہم یہ نہرو تھا جس نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے اس پلان کو مسترد کر دیا کہ اس سے ہندوستان میں مسلسل جنگی کیفیت رہے گی۔ چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہر وقت حالت جنگ میں رہیں گی۔ 
اس لیے جب مہاراجہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ آزاد ریاست چاہتا ہے تو لارڈ مائونٹ بیٹن نے فوراً کہا: یہ ممکن نہیں ہے۔ تم چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرے ہوئے ہو۔ کشمیر کا رقبہ بہت زیادہ لیکن اس کے مقابلے میں آبادی بہت کم ہے۔ مجھے خطرہ محسوس ہورہا ہے کہ تمہارے اس رویے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی جنم لے گی۔ تمہارے دو حریف ہمسائے اس کشمیر ایشو کی وجہ سے ہر وقت ایک دوسرے پر بندوقیں تانے کھڑے ہوں گے۔ تم دونوں ملکوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کی وجہ بنو گے۔ کشمیر میدان جنگ بن کر رہ جائے گا۔ اگر تم نے احتیاط سے کام نہ لیا تو نہ صرف تم اپنا اقتدار کھو بیٹھو گے بلکہ تمہاری جان بھی خطرے میں ہوگی۔ 
مہاراجہ کو یہ سب کچھ سن کر شدید مایوسی ہوئی۔ اس نے نفی میں سر کو جھٹکے دیے اور اس کے چہرے پر گہری اداسی چھا گئی۔ اس کے خواب چکنا چور ہوگئے تھے۔ اگرچہ وہ دہلی سے آئے اپنے مہمان کو ٹرائوٹ مچھلی کے شکار کیلئے دریا کے کنارے لے گیا لیکن اس نے سارا دن کوشش کی کہ مائونٹ بیٹن سے فاصلہ رکھے تاکہ وہ اسے دوبارہ ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی ایک کا آپشن استعمال کرنے پر مجبور نہ کرے۔ بلکہ مہاراجہ کی کوشش رہی کہ مائونٹ بیٹن سارا دن کشمیر کے دریا کے صاف ستھرے پانیوں میں ٹرائوٹ کا شکار ہی کرتا رہے۔ 
اگلے دو دن تک مائونٹ بیٹن مسلسل کوشش کرکے مہاراجہ کو سمجھاتا رہا کہ بہتر ہے وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لے۔ دو دن کی محنت کے بعد مائونٹ بیٹن کو احساس ہوا کہ اس کا پرانا دوست اپنی رائے میں تبدیلی لانے پر تیار ہو رہا ہے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے مہاراجہ کو کہا: میں کل جب دہلی کے لیے روانہ ہوں گا تو صبح ناشتے پر الوداعی ملاقات ہونی چاہیے اور ملاقات میں دونوں کا سٹاف بھی موجود ہونا چاہیے تاکہ ایک ہی دفعہ کھل کر سب بات کر لی جائے اور پالیسی بنا لی جائے۔ 
''ٹھیک ہے‘‘ مہاراجہ بولا ''اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو کل صبح مل لیتے ہیں‘‘۔
اگلی صبح جب لارڈ مائونٹ بیٹن ناشتے پر انتظار کر رہا تھا تو اے ڈی سی آیا اور کہا: مہاراجہ صاحب کا معدہ خراب ہو گیا ہے اور ملاقات نہیں کر پائیں گے کیونکہ ڈاکٹر نے انہیں منع کر دیا ہے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن کو اندازہ ہو گیا کہ یہ سب کہانی گھڑی گئی ہے اور مہاراجہ اس سے ملنا نہیں چاہتا۔ ڈاکٹر کا بہانہ بنا کر مہاراجہ نے ملاقات تو چھوڑیں، اسے رخصت کرنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔ سری نگر چھوڑتے وقت مائونٹ بیٹن کو اندازہ ہوگیا تھا وہ اپنے پیچھے ایک ایسا مسئلہ چھوڑ کر جارہا ہے جو دو ملکوں کے درمیان ہمیشہ ایک جنگی ماحول پیدا کیے رکھے گا اور پوری دنیا اس سے متاثر ہوگی؛ تاہم مائونٹ بیٹن کو علم نہ تھا کہ مہاراجہ کس ذہنی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ مہاراجہ دراصل اس وقت اپنی بیوی اور بھائی کے ہاتھوں شدید دبائو کا سامنا کررہا تھا۔ اس کی بیوی اور بھائی‘ جو وزیر کا درجہ رکھتے تھے‘ اس پر دبائو ڈال رہے تھے کہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق کر لے جبکہ مہاراجہ کے وزیراعظم کا خیال تھا کشمیر کو پاکستان کے ساتھ الحاق کر لینا چاہیے۔ اس کیفیت میں مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنے جوتشی سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جوتشی نے مہاراجہ کو جو باتیں بتائیں اس کے بعد اس کے ذہن میں یہ بات پوری طرح بیٹھ گئی کہ اسے ہندوستان اور پاکستان‘ دونوں سے الحاق نہیں کرنا۔ اس نے کشمیر کو آزاد ریاست کے طور پر قائم رکھنا ہے۔ جوتشی کے بقول مہاراجہ کے ستاروں میں لکھا تھا کہ ہری سنگھ کا جھنڈا لاہور سے لداخ تک لہرائے گا۔ 
برٹش افسران‘ جو آرمی اور پولیس میں تھے‘ کا بھی یہی خیال تھا کہ پاکستان سے الحاق بہتر آپشن ہوگا۔ یہ سب دیکھ کر مہاراجہ نے پہلے تو اپنے وزیراعظم کو ڈسمس کیا اور پھر برٹش آرمی اور پولیس افسران کو بھی سائیڈ پر کرنے کا عمل شروع کردیا۔ ان کی جگہ اس نے ڈوگرہ فورس کے نوجوانوں کو منگوا لیا۔ ہوا میں یہ سب تبدیلیاں دیکھ کر مسلمان افسران اور جوانوں نے کشمیر آرمی کو چھوڑنا شروع کردیا تھا۔ سب کو اندازہ ہونا شروع ہوگیا تھا کہ اس علاقے میں جلد یا بدیر جنگ ہو گی۔ 
اس اثنا میں لارڈ مائونٹ بیٹن دہلی پہنچ چکا تھا لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ ابھی تو اس کا امتحان شروع ہورہا ہے۔ کشمیر مشن سے ناکامی کے بعد حالات و واقعات بڑی تیزی سے رونما ہونا شروع ہورہے تھے۔ ہندوستان کو تقسیم کرنے کی پندرہ اگست کی تاریخ قریب آ رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی پورے ہندوستان میں خطرناک رجحانات سامنے آرہے تھے۔ سب سے اہم بات یہ تھی جناح صاحب اور نہرو تک کا خیال تھا کہ ہندوستان میں آزادی کے ساتھ ہی تمام لڑائی جھگڑے ختم ہوجائیں گے۔ خود مائونٹ بیٹن بھی یہی یقین کیے بیٹھا تھا کہ تقسیم کے اعلان کے بعد تشدد نہیں ہوگا۔ فسادات نہیں ہوں گے۔ بھلا ہندو‘ مسلم یا سکھ فسادات کیوں ہوں گے کیونکہ جب ہندوستان تقسیم ہورہا تھا اور سب کو اپنا اپنا ملک مل رہا تھا‘ جہاں وہ اپنی مرضی سے رہ سکیں گے۔ صرف گاندھی جی اکیلے تھے جو بار بار کہہ رہے تھے کہ آپ لوگ غلط سوچ رہے ہیں‘ بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوگا۔
لارڈ مائونٹ بیٹن کو اس سنگین خطرے کا احساس اس وقت ہوا جب اسے لاہور سے ایک خوفناک اطلاع دی گئی۔ سی آئی ڈی پنجاب کی طرف سے وائسرائے کو بھیجی گئی یہ سیکرٹ انفارمیشن اتنی خوفناک تھی کہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے فوری طور پر قائداعظم اور لیاقت علی خان کو پیغام بھیجا کہ وہ جلد ملاقات کے لیے تشریف لائیں۔ اب قائداعظم اور لیاقت علی خان وائسرائے کے سٹڈی روم میں حیران بیٹھے تھے کہ وائسرائے نے انہیں کیوں اتنی ایمرجنسی میں فوری طور پر بلا لیا ہے۔ سٹڈی میں ان دونوں کے علاوہ ایک افسر بھی موجود تھا جس کا تعارف لارڈ مائونٹ بیٹن نے جناح اور لیاقت علی خان سے یہ کہہ کر کرایا کہ جنٹلمن اس کا نام Savage ہے اور ان کا تعلق پنجاب سی آئی ڈی سے ہے۔ اس کے پاس ایک اطلاع ہے جو میں چاہتا ہوں آپ اس کے منہ سے سنیں۔ 
جوں جوں سی آئی ڈی کا افسر پوری کہانی سناتا گیا جناح صاحب اور لیاقت علی خان اس کو سنجیدہ لینے پر مجبور ہوگئے کیونکہ وہ جس ایجنسی سے تعلق رکھتا تھا وہ برٹش انڈیا کی سب سے معتبر انٹیلی جنس ایجنسی سمجھی جاتی تھی۔ اس کی اطلاع غلط ہو ہی نہیں سکی تھی۔ سی آئی ڈی افسر ٹھیک بات کر رہا تھا تاہم وہ تھوڑا سا نروس تھا۔ وہ زندگی میں پہلی دفعہ وائسرائے ہند اور مسلمانوں کے دو لیڈروں کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ وائسرائے کی سٹڈی میں مکمل خاموشی تھی۔ وائسرائے سے لے کر جناح اور لیاقت علی خان تک سب خاموش تھے۔ جب افسر نے بات ختم کر لی تو جناح، لیاقت علی خان اور مائونٹ بیٹن نے ایک دوسرے کی طرف بے یقینی سے دیکھا۔ انہیں لگا جیسے کسی نے ان پر بم پھینک دیا ہو۔ 
ان تینوں کو اندازہ نہ تھا کہ بات یہاں تک پہنچ چکی ہے۔ پہلی دفعہ انہیں احساس ہوا کہ وہ سب سنگین خطرات میں گھر چکے ہیں۔ جناح اور لیاقت علی خان خاموش تھے لیکن مائونٹ بیٹن کا ذہن تیزی سے چل رہا تھا کہ اسے اس بربادی سے کیسے بچنا ہے جس کی خبر سی آئی ڈی کا افسر لاہور سے لایا تھا۔ (جاری) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved