تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     15-08-2019

شہدا کی آبادی… بھارت کی بربادی

قارئین! دنیا بھر کے مسلمانوں نے تین روز قبل عیدالاضحی اور کشمیر میں مودی سرکار نے خون کی ہولی منائی۔ نماز عید سے لے کر سنت ابراہیمی کی ادائیگی تک نہتے کشمیریوں کو بھارتی افواج کے قہروغضب کا سامنا رہا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے عید کا روز ایل او سی پر جوانوں کے ساتھ گزارا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ بھارت کو کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم پر پردہ نہیں ڈالنے دیں گے۔ دوسری طرف موذی مودی نے اپنے ہی آئین سے انحراف کرتے ہوئے ناصرف معصوم کشمیریوں کے قتل عام کا طبل بجا ڈالا ہے بلکہ پورے خطے کو جنگی خطرات سے بھی دوچار کردیا ہے۔آج میرٹ پر سیاست کی بجائے صرف کشمیر کی بات ہوگی بعض اوقات مجہول سیاست اور سیاستدانوں کی کارستانیوں سے طبیعت اوب سی جاتی ہے۔ ہاتھ کی صفائی سے ملکی خزانے کی صفائی تک کسی پر کوئی الزام لگادیجئے کلک کرکے فٹ بیٹھ جائے گا۔تعجب ہے لوٹنے والوں کے ہاتھ بھی صاف ہیں، ملکی خزانہ بھی صاف۔ اِدھرحکمران خاندان پس زنداں‘ اُدھر عوام انگشت بدنداں۔ خیر جیسی کرنی ویسی بھرنی، نہ مانے تو کرکے دیکھ۔ اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔
مقبوضہ کشمیر میں سخت کرفیو اور قتل و غارت کی وجہ سے شہری خوراک اور ادویات کی قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔ جنگی جنون میں مبتلا مودی سرکار کی ایک اور گھناؤنی سازش بے نقاب ہو چکی ہے۔ بھارت نے اپنے ہی زیر تسلّط علاقے میں اپنی ہی چیک پوسٹ پر سبز ہلالی پرچم لہرا کر جوابی کارروائی کی منصوبہ بندی کی تھی تاکہ وہ دنیا بھر میں یہ پروپیگنڈا کر سکے کہ پاکستانی افواج مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو کر بھارتی چیک پوسٹ پر اپنا پرچم لہرا چکی ہیں‘ جس پر بھارتی فوج کو مجبوراً جوابی کارروائی کرنا پڑی۔ یہ سازش صرف پاکستان کے خلاف ہی نہیں بلکہ پورے خطے کو جنگ کی آگ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ اس ممکنہ جنگ کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر کتنے ملک باقی بچیں گے اور کتنے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے‘ اب یہ سوچنا صرف ہماری نہیں بلکہ اقوام متحدہ سمیت تمام ممالک کی ذمہ داری ہے۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ پاکستان میں تعینات تمام ممالک کے سفیروں کا اجلاس بلایا جائے اور انہیں باور کروایا جائے کہ خطے کا اَمن شدید خطرات سے دوچار ہے۔ اگر بھارت اسی طرح جنگی جنون میں مبتلا رہا تو ایک ایسی آگ بھڑک اُٹھے گی جسے لگانے والے بھی نہ بجھا سکیں گے۔ 
سالِ رواں یعنی گزشتہ سات ماہ کے دوران بھارت سیزفائر معاہدے کی 1824مرتبہ خلاف ورزی کر چکا ہے۔ اسی طرح 2018ء میں یہ خلاف ورزی 3018 مرتبہ کی گئی۔ 31جولائی 2019ء کو بھارتی نے کشمیر کی آبادی پر کلسٹر بموں کی بوچھاڑ کی اور 05 اگست 2019ء کو بھارت کی مودی سرکارنے آرٹیکل 370کی تنسیخ کرکے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی۔ بھارت کا یہ اقدام بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (R.S.S) کے منشور اور انتخابی ایجنڈے کا بھیانک نمونہ ہے۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت دوقومی نظریے کی مخالفت کرنے والے شیخ عبداﷲ کے فیصلے کو تاریخ نے غلط ثابت کر دیا اور اس غلط فیصلے کا خمیازہ آج وادیٔ کشمیر کے عوام بھگت رہے ہیں۔ اس پچھتاوے کا اظہار محبوبہ مفتی کئی بار کر چکی ہیں کہ ہم نے تقسیم کے وقت بھارت کا ساتھ دیکر بہت بڑی غلطی کی تھی گویا: ؎
وہ جو کہتا تھا کچھ نہیں ہوتا 
اب وہ روتا ہے چپ نہیں ہوتا 
سیزفائر معاہدہ کی خلاف ورزی تو تعصب اور عناد کی ماری بھارت سرکار کا معمول ہے۔ 28جون 1972ء کو شملہ معاہدے میں ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی اس بات پر متفق ہو گئے تھے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف دھمکیوں اور طاقت کا استعمال نہیں کریں گے۔ ایک دوسرے کے خلاف معاندانہ روش ترک کرکے تصادم کی پالیسی سے گریز کریں گے۔ اس معاہدے کی رو سے دونوں ممالک کی افواج زمانہ امن کی پوزیشن پر واپس چلی جائیں گی۔ اس معاہدے کے ایک ماہ بعد 28جولائی 1972ء کو دونوں ممالک کی اسمبلیوں نے مذکورہ متفقہ نکات کی توثیق بھی کر دی تھی لیکن جنگی جنون میں مبتلا بھارت نے کبھی بھی ان معاہدوں کی پاسداری نہیں کی۔ لائن آف کنٹرول کی کھلی خلاف ورزی‘ بلا اشتعال فائرنگ اور آبادی پر بمباری اس کا معمول رہا ہے۔ حتیٰ کہ سکولوں اور ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔
خطے میں ہماری اَمن کی خواہش کو بھارت مسلسل کمزوری تصور کیے چلے جارہا ہے جبکہ وہ نہیں جانتا کہ کشمیریوں کو کچلنے اور توڑنے کی خواہش بھارت کو نہ جانے کتنے ٹکڑوں میں تبدیل کرنے کا پیش خیمہ ہے۔ عرصۂ دراز سے بھارت کے اندر پلنے والی مزاحمت کی تحریکوں کے جلتے بجھتے چراغ کشمیریوں کے خون سے ایک بار پھر جل اٹھیں گے اور ایسا جلیں گے کہ مودی سرکار کے سارے ناپاک عزائم خاکستر ہوکر رہ جائیں گے۔ بھارتی سرکار جہاں کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے تمام غیر انسانی حربے آزمائے چلے جارہی ہے وہاں بھارتی میڈیا کو بھی حقائق دکھانے پر مودی سرکار کے قہروغضب کا سامنا ہے۔ معروف بھارتی چینل NDTVکے میاں بیوی مالکان پرانوئے رائے اور رادھیکا رائے کو کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم اور مودی سرکار کے غیر آئینی اقدامات پر آئینہ دکھانے پر ریاستی جبرکا سامنا ہے۔جبکہ ماضی میں وادیٔ کشمیر میں بھارت سرکار کے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی نشاندہی کرنے پر خاتون بھارتی صحافی برکھا دت کوبھی حکومتی دباؤ اور بھارت سرکار کے جبر کا سامنا رہا ہے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے والا مودی ریشم کا وہ کیڑا ثابت ہوگا جو اپنے ہی گرد ریشم کا جال بنتا رہتا ہے اور اسی جال میں پھنستا اور الجھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ سانس لینے سے بھی قاصر ہوکربالآخر دم گھٹنے سے مرجاتا ہے۔ ایسے حالات میں جب امریکہ طالبان اور افغانستان کے حوالے سے پاکستان سے تعاون کا طلبگار ہے دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ بہادر اپنی بہادری کہاں دکھاتا ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا اور چین سمیت کئی ممالک کے شہروں میں کشمیریوں سے یکجہتی کے مظاہرے عروج پر ہیں جن میں امریکہ سمیت دیگر اہم ممالک سے مداخلت کا مطالبہ زور پکڑتا چلا جارہا ہے۔
بی بی سی، الجزیرہ اور سی این این نے پور ی دنیا کونہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم دکھا کر اسے ننگا کرکے رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک ویڈیو کلپ میں تواقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کا نمائندہ کشمیری خواتین کے ساتھ بھارتی فوج کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو ہی پڑا تھا۔ مودی کا یہ ہتھکنڈا اس کے گلے کا پھندا بنتا دکھائی دیتا ہے۔ وادیٔ کشمیر میں سخت کرفیو اور ریاستی جبر کے باوجود نمازِ جمعہ کے لیے سر پر کفن باندھے نکلنے والوںکی بڑی تعداد نے واضح کردیا ہے کہ وہ اب ہر قسم کے خوف سے آزاد ہوچکے ہیں۔ ان کے حوصلے اور صبر کے آگے بھارتی افواج کے تمام حربے ناکام ہیں۔ وادیٔ کشمیر کے قبرستانوں میں شہدا کی بڑھتی ہوئی آبادی بھارت کی تقسیم اور بربادی کا واضح اشارہ ہے۔
اب جشن آزادی کی بات۔گزشتہ روز وطن عزیز میں جشنِ آزادی انتہائی جوش و خروش سے منایا گیا۔ عمارتیں سجانے سے لے کر جابجا سبز ہلالی پرچم لہرانے تک‘ سڑکوں پہ جوق در جوق نکلنے سے لے کر ڈھول ڈھمکے اور گانے بجانے تک‘ ساری رات سڑکوں پر غل غپاڑے اور موج مستی سے لے کر ہلڑ بازی اور طوفانِ بدتمیزی تک‘ جشن آزادی کے نام پر مادر پدر آزادی کے سارے مناظر ہی اس بار بھی دیکھنے کو ملے اور باتیں کرتے ہیں سرینگر پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کی۔ گویا انہیں احساس ہی نہیں کہ وطن عزیز کس مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ اندرونی انتشار اور نازک ترین معاشی اور اقتصادی حالت‘ اس پر ستم یہ کہ بھارت ہمارے اوپر وہ جنگ مسلط کرنے جارہا ہے جو ہم نہیں کرنا چاہتے۔ آج بھارت اپنا یوم آزادی منا رہا ہے اور ہم کشمیری بھائیوں سے اظہاری یکجہتی کیلئے یوم سیاہ منا رہے ہیں۔ پرچم سرنگوں کرنے اور کالی پٹیاں باندھ لینا ہی یومِ سیاہ نہیں۔ حکام اور عوام سبھی کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ ٹریفک سگنل توڑنے والوں سے لے کر آئین اور حلف توڑنے والوں تک کسی کو کوئی رعایت اور معافی نہیں دی جائے گی۔ قانون کی بالادستی ہمارا نصب العین ہوگا۔ انصاف ہمارا آئین اور دستور ہوگا۔ جیسی کرنی‘ ویسی بھرنی ہمارا طرزِ حکمرانی ہوگا۔ تب کہیں جاکر جشن آزادی اور یومِ سیاہ منانے کا حق ادا ہو سکے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved