تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     15-08-2019

سرخیاں‘متن‘ کم بہت ہی کم اور علی زریون کی شاعری

والد کو نمازِ عید ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گی: آصفہ‘بختاور
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادیوں آصفہ اور بختاور کا کہنا ہے کہ ''ہمارے والد کو نمازِ عید ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی‘‘ اگرچہ پہلے ہی ان کا اللہ کے نیک اور پرہیزگار بندوں میں شمار ہوتا ہے اور ایسے پہنچے ہوئے بزرگ ہیں کہ اول تو انہیں نماز ادا کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے‘ کیونکہ ان کی نیکیاں اتنی زیادہ ہیں کہ جعلی اکاؤنٹس کی طرح کسی شمار و قطار میں میں نہیں آتیں اور وہ ماشاء اللہ؛ چونکہ بخشے ہوئے روح ہیں‘ اس لیے عبادت کو وہ ایکسرسائز سمجھ کر ہی کرتے ہیں‘ جس سے انہیں روکنا پرلے درجے کی زیادتی ہے‘ بلکہ سراسر انتقامی کارروائی ہے‘ جو آج کل حکومت کا وتیرہ بن چکا ہے‘ کیونکہ انتقام کو اللہ میاں بھی پسند نہیںکرتے اور عفوو در گزر کی تلقین کی گئی ہے اور ہم ہر وقت پریشان رہتی ہیں کہ آخر اس ملک کا کیا بنے گا؟ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
32سال سے بھاری اکثریت سے جیت رہا ہوں: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ''میں 32 سال سے بھاری اکثریت سے جیت رہا ہوں‘‘ اس لیے مجھ پر 500ارب روپے کے اثاثوں کا الزام نہیں لگایا جا سکتا‘ جبکہ حکومت کی طرف سے اس میں مبالغے سے بھی کام لیا جا رہا ہے اور بات کا بتنگڑ ‘بلکہ رائی کا پہاڑ بنایا جا رہا ہے؛ حالانکہ ملک عزیز میں ہر رنگ اور ہر طرح کے پہاڑ پہلے سے ہی موجود ہیں اور مزید پہاڑ بنانے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے‘ پھر رائی کا پہاڑ بنانا تو ویسے بھی سرا سر زیادتی ہے‘ کیونکہ رائی اچار میں ڈالنے کے لیے ہوتی ہے‘ پہاڑ بنانے کے لیے نہیں‘ اور پہاڑ کی کھدائی کر کے اس میں سے چوہا نکالا جاتا ہے ‘جو بلیوں کا من بھاتا کھانا ہے‘ جبکہ بمطابق حالات تمام بلیاں حج پر گئی ہوئی ہیں‘ اس لئے اگر پہاڑ بنانا ہو تو بلیوںکی واپسی کا انتظار کیا جائے اور چوہوں کو بھوکوں کے پیٹ میں دوڑنے دیا جائے۔ آپ اگلے روز سکھر میں میڈیا کے نمائندوںسے گفتگو کر رہے تھے۔
کشمیریوں کا خون بہنے اور مہنگائی کی وجہ سے عید پھیکی گزری: حمزہ 
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''کشمیریوں کا خون بہنے اور مہنگائی بیروزگاری کی وجہ سے یہ عید پھیکی گزری‘‘ اور کیا زمانہ تھا جب ہماری عیدیں کراری گزرا کرتی تھیں‘ بلکہ مرچ مسالے دار‘ اور حکومت آج کل جو کچھ کر رہی ہے‘ اس نے عید کو مزید پھیکا کر دیا ہے‘ بلکہ اگلی ساری عیدیں جہاں گزارنی ہیں‘ وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے‘ اس لیے چٹخارے دار عیدوں کو تو ترس ہی جائیں گے‘ بلکہ منہ کا ذائقہ ہی اتنا خراب ہو گیا ہے کہ کوئی چیز اچھی ہی نہیں لگتی‘ اوپر سے جائیدادوں کی قرقی وغیرہ کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے ‘جو نہلے پر دہلا ہے ؛حالانکہ ان میں تاش کھیلنا کسی کو بھی نہیں آتی‘ جبکہ والد صاحب کے گرد شکنجہ تو مزید کسا جا رہا ہے‘ جس سے ان کا منہ کا ذائقہ بھی کافی خراب ہوگیا ہے اور ان کی عید مجھ سے بھی زیادہ پھیکی گزری ہے ‘جس پر لیموں بھی نچوڑا گیا تھا ‘لیکن پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت میں پیشی کے موقعہ پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کم بہت ہی کم (دیوانِ عروجیؔ)
یہ شاکر عروجی ؔکی غزلوں کا مجموعہ ہے ‘جسے عروجی انٹرنیشنل پبلی کیشنز نے چھاپا ہے۔ کاوش و تحقیق حضرت شام کی ہے۔ دیباچہ جات فرحت ناز‘ ریاض مجید‘ حضرت شام‘ علامہ نادر جاجوی‘ راؤ منظر حیات‘ یاسر عروجی اور ظفر سیال نے تحریر کیے ہیں۔ غزلوں کی تعداد 400کے قریب ہے۔ محبی ریاض مجید اور دیگر حضرات کا لکھا سر آنکھوں پر‘ لیکن یہ آج کی شاعری نہیں ہے اور شاعری کو آگے بڑھانے کی بجائے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی گئی ہے ‘جس میں یہ بزرگ پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں۔ میں نے ایک بار پہلے بھی عرض کیا تھا کہ جس شاعری سے بہت بہتر شاعری پہلے ہو چکی ہے‘ اس کا کوئی جواز ہے‘ نہ ضرورت۔ یہ روایتی‘ عام اور روٹین کی شاعری ہے‘ جس کے کشتوں کے پشتے لگا دیئے گئے ہیںکہ لفظوں کو منظوم کر دینا ہی شاعری نہیں ہوتی۔ ہم توایسی شاعری کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے؛ البتہ بروزِ حشراس پر پوچھ تاچھ ہو سکتی ہے‘ اس لیے ہم شاعر کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں‘ کیونکہ تعریفیںتو سات دیباچوں ہی میں پہلے ہی کافی ہو چکی ہے۔
اور اب فیصل آباد سے علی ؔزریون کی شاعری:
اپنے سوا جو میری دُعا ہی کوئی نہیں
میرے علاوہ مجھ سے جدا ہی کوئی نہیں
محسوس ہو رہا ہوں مگر دِکھ نہیں رہا
وہ بن گیا ہوں میں جو بنا ہی کوئی نہیں
وہ رات سب کو یاد ہے خیمہ بھی‘ صبر بھی
کہنے کے باوجود گیا ہی کوئی نہیں
روتے ہوؤں کو دیکھ کے میں رو پڑا علیؔ
کیوں رو پڑا تھا؟ میرا تو تھا ہی کوئی نہیں
خموشی توڑ دوں اعلان کر دوں
بھرے جنگل کو میں حیران کر دوں
پرے رکھ یہ دکانِ حُسن اپنی
مبادا میں کوئی نقصان کر دوں
تُو میری یاد ہی پر مشتمل ہے
میں جب چاہوں تجھے ویران کر دوں
آج کا مقطع
جو زور سے قہقہہ لگایا 
اس میں بھی‘ ظفرؔ‘ ہنسی نہیں تھی

 

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved