انا بھی کیا سفّاک ہوا کرتی ہے۔ انا کے کھیل میں مرکزی کھلاڑی کو بالآخر شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس میں صلاحیت اور سکت ہوتی ہے‘ اُس میں اعتماد بھی غضب کا ہوتا ہے۔ اِس اعتماد کی بدولت انسان بہت کچھ پاتا ہے۔ یہ اعتماد ‘اگر مثبت سوچ کے ساتھ ہو تو انسان کو بلندی سے ہم کنار کرتا ہے۔ بصورتِ دیگر عبرت ناک پستی مقدر بنتی ہے۔ اعتماد ہی جیسا معاملہ انا کا بھی ہوتا ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل قرار دے بیٹھتا ہے‘ تب شخصیت کے پنپنے کی راہ مسدود ہوتی چلی جاتی ہے۔ صلاحیت اور سکت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانا‘ اُسی وقت ممکن ہوتا ہے۔ جب انسان مثبت سوچ کا حامل ہو اور اپنے آپ کو دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانے پر آمادہ ہو۔
انا کے جال میں پھنسا ہوا انسان باقی دنیا سے کٹ کٹاکر بند گلی میں مقید ہو جاتا ہے۔ ماحول کا حصہ بنے رہنا اور اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ بامعنی و بامقصد بنائے رکھنا نفع کا سَودا ہے۔ اِس میں اپنا بھی بھلا ہے اور دوسروں کا بھی۔ جب انسان اپنی صلاحیتوں کو منوانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی باصلاحیت تسلیم کرنے پر آمادہ ہوتا ہے‘ تب معاملات بااحسن و خوبی انجام کو پہنچتے ہیں۔ اگر کوئی بضد ہو کہ صرف اُسی کو باصلاحیت تسلیم کیا جائے اور کسی بھی منصوبے کی کامیابی میں اُسی کے کردار کو کلیدی مانا جائے تو بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ یہ تلخ حقیقت ویسے تو خیر ہر معاملے ہی میں بگاڑ پیدا کرتی دکھائی دیتی ہے‘ تاہم کھیلوں کا معاملہ اس حوالے سے بہت نمایاں ہے۔ وہی ٹیمیں زیادہ کامیاب رہتی ہیں‘ جن میں ہیرو نہیں پائے جاتے‘ بلکہ ہر کھلاڑی اپنے حصے کا کام بخوبی کرنے پر متوجہ رہتا ہے۔ ٹیم میں دو ایک کھلاڑی دوسروں سے اچھا کھیلتے ہیں‘ مگر یہ کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں۔ ہر کھلاڑی ہر میچ میں اتنا اچھا نہیں کھیلتا کہ دیکھنے والوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے۔ ٹیم اُسی وقت فتح سے ہم کنار ہوتی ہے جب ٹیم ورک کو بنیادی نکتے کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے۔ سب مل کر اچھا کھیلتے ہیں تو قابلِ رشک مسابقت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
کوئی بھی ٹیم اُس وقت کمزور پڑتی ہے‘ جب کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہر کامیابی اُس کے دم سے ممکن ہو پاتی ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کسی کی عمدہ کارکردگی فتح کو آسان بناتی ہے‘ مگر دوسروں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے چند مخصوص کھلاڑی نہیں ہوتے۔ کبھی کوئی زیادہ اچھا کھیل جاتا ہے اور کبھی کوئی۔ کبھی کبھی اوروں سے اچھا کھیلنے کی بنیاد پر کوئی خود کو ہیرو قرار دے لے اور دوسروں کو کمتر سمجھے تو ٹیم میں اچھا کھیلنے کا جذبہ سرد پڑتا چلا جاتا ہے۔ انفرادی سطح پر کارکردگی کا گراف گرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اجتماعی کارکردگی بھی زوال آشنا ہوتی جاتی ہے۔
زندگی کے ہر معاملے کا یہی حال ہے۔ جب بھی کوئی انا پرستی کے جال میں پھنس جاتا ہے تب شخصیت کے پنپنے کی گنجائش کم رہ جاتی ہے۔ کسی بھی کاروباری یا غیر کاروباری ادارے میں وہی لوگ زیادہ کامیاب رہتے ہیں ‘جو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی باصلاحیت تسلیم کرتے ہوئے اُن کی کارکردگی کو سراہتے ہیں۔ یہ عمل دوسروں میں بھی اعتماد کی سطح بلند رکھتاہے۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے‘ یعنی دوسروں کو سراہنے اور کریڈٹ دینے سے گریز کرتے ہیں ‘اُن کی الجھنیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ بہت سے نوجوان جب تک تعلیمی ادارے میں ہوتے ہیں ‘تب تک اُن میں کام کرنے کا جذبہ غیر معمولی سطح پر پایا جاتا ہے۔ وہ دنیا کو بدل ڈالنے کے عزم کے ساتھ عملی زندگی کے میدان میں قدم رکھتے ہیں‘ مگر کچھ ہی مدت کے بعد پتا چلتا ہے کہ وہ تو شدید ناکامی سے دوچار ہوگئے۔ کیوں؟ محض اس لیے کہ وہ دوسروں کو تسلیم اور قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اُن کی نظر اپنی ذات سے آگے دیکھنے کی عادی نہ تھی۔ معیاری ٹیم ورک اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب ٹیم کے ہر رکن کو تسلیم و قبول کیا جائے اور اُس کی کارکردگی کو سراہا جائے۔ چند افراد خود کو زیادہ باصلاحیت قرار دیتے ہوئے دوسروں کو کمتر تصور کریں تو ٹیم ورک رسمی نوعیت کا رہ جاتا ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو اداروں کو تباہ کردیتا ہے‘ حکومتوں کو زوال آشنا کرتا ہے اور ریاستوں کو عروج سے یکسر بے بہرہ کر گزرتا ہے۔
نمایاں صلاحیت رکھنے والے افراد کسی بھی ٹیم کے لیے اثاثہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی کارکردگی سے بہتر نتائج ممکن بناتے ہیں۔ اور اِس کا صلہ بھی اُنہیں ملتا ہے۔ غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے معاوضے اور ستائش کے معاملے میں زیادہ کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ اُن پر انعامات کی بارش بھی ہوتی ہے۔ یہاں تک تو معاملہ درست رہتا ہے۔ بگاڑ اُسی وقت شروع ہوتا ہے جب چند افراد یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ ٹیم صرف اُن کی بدولت کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہے! ''میں بھی‘‘ بہترین رویہ ہے‘ یعنی انسان یہ کہے کہ دوسروں کی طرف وہ بھی باصلاحیت ہے یا یہ کہ دوسرے بھی اُس کی طرح باصلاحیت ہیں۔ جب انسان دوسروں کو بھی باصلاحیت تسلیم کرتا ہے تب مل جل کر کام کرنے کا جذبہ مزید پروان چڑھتا ہے۔ اگر کسی میں دوسروں سے زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہو اور کارکردگی بھی کچھ بڑھ کر ہو تب بھی دوسروں کو نیچا دکھانے کی ضرورت نہیں۔ ایسا کرنے سے صرف بدگمانی پیدا ہوتی ہے اور اجتماعی کارکردگی کا گراف نیچے آتا ہے۔ کوئی بھی ٹیم کسی ایک کھلاڑی کی کارکردگی سے نہیں جیتتی۔ اگر کوئی فٹ بال ٹیم سخت مقابلے کے بعد محض ایک گول سے جیت جائے تو میچ کا واحد گول کرنے والا کھلاڑی سارا کریڈٹ نہیں لے سکتا‘ کیونکہ فاتح ٹیم کا گول کیپر بھی یہ کہتے ہوئے کریڈٹ کا امیدوار ہوسکتا ہے کہ اُس نے کوئی گول نہیں ہونے دیا!
ماحول میں گڑبڑ اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب ''میں بھی‘‘ کو چھوڑ کر ''میں ہی‘‘ کی گردان کی جاتی ہے۔ جب کوئی اپنے آپ کو غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل قرار دے کر دوسروں کو محض خانہ پُری میں کام آنے والی مد قرار دیتا ہے‘ تب ٹیم ورک کے جسم سے عمل کی پرواز کر جاتی ہے۔ صرف اپنی ذات کو سب سے اہم قرار دینا انسان کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے۔ پھر اُسے بھرپور توجہ ملتی ہے نہ کھلے دل سے قبول ہی کیا جاتا ہے۔ اپنے آپ کو باقی ٹیم سے بہتر اور بلند سمجھنے والا تنہا رہ جاتا ہے اور پھر اس کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
دانش کا تقاضا یہ ہے کہ انسان صرف اپنے وجود کو سب سے اچھا قرار دینے پر بضد نہ ہو ‘بلکہ دوسروں کی صلاحیت و سکت کا بھی اعتراف کرے اور کسی بھی کامیابی یا فتح میں سب کے اجتماعی کردار کی بات کرکے سب کو کریڈٹ دے۔ بھرپور کامیابی کا کریڈٹ کوئی ایک فرد لے یہ بات قرین ِ دانش نہیں۔ یہ بات کسی کو اچھی نہیں لگتی۔ آپ کو بھی نہیں لگتی ہوگی۔ ایسے میں آپ کیوں چاہیں گے کہ صرف اپنی ذات کو اہمیت دے کر کسی کو بُرے لگیں؟ عقلِ سلیم کہتی ہے کہ کسی بھی معاملے میں جب کریڈٹ دینے کا وقت آئے تو سب کو شریک کیا جائے اور کسی بھی حوالے سے اپنے آپ کو بہترین قرار دینے سے یکسر گریز کیا جائے۔ ''میں ہی‘‘ کا رویہ ترک کرکے ''میں بھی‘‘ والی سوچ اِس طور اپنائی جائے کہ فکری ساخت کا حصہ بن جائے۔