لاہور سی آئی ڈی سے آئے افسر نے وائسرائے کی سٹڈی میں مکمل خاموشی میں جناح صاحب، لیاقت علی خان اور وائسرائے کو تفصیل بتانا شروع کی تھی۔
انٹیلی جنس کی دنیا میں اکثر بریک تھرو اچانک ہوتے ہیں جب کسی کو ویسے ہی شک پر پکڑ کر لاتے ہیں اور آپ کو کچھ پتا نہیں ہوتا کہ اسے کیوں پکڑا تھا‘ لیکن اندر کا انٹیلی جنس افسر یا پولیس مین آپ کو بتا رہا ہوتا ہے کہ اس بندے کو کچھ نہ کچھ پتا ہے۔ یہ اندر کا وجدان ہی ایسے بریک تھرو کا سبب بنتا ہے اور بڑے خفیہ پلان سامنے آ جاتے ہیں۔ نفسیاتی اور جسمانی تشدد کے دوران ہی یہ لوگ راز اگلتے ہیں۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ شاید انہیں اس لیے اٹھایا گیا کہ پولیس کو پتا چل چکا تھا‘ لہٰذا اب چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں‘ جبکہ بعض تشدد اور دیگر حربوں سے بچنے کیلئے بارگین کے طور پر بھی ایسی اطلاعات دورانِ تفتیش از خود دے دیتے ہیں۔
لاہور سی آئی ڈی کے ہاتھ بھی کچھ ایسے ہی مشکوک لوگ لگے تھے‘ جنہوں نے وہ سارا خفیہ پلان انہیں بتا دیا تھا۔ سی آئی ڈی نے لاہور کے پاگل خانے کے ایک ونگ میں‘ جو استعمال نہیں ہوتا تھا‘ اپنا ایک تفتیشی سینٹر بنایا ہوا تھا‘ جہاں وہ مشکوک لوگوں سے تفتیش کرتے تھے۔ یہاں ہر قسم کے لوگ لائے جاتے تھے جن پر سی آئی ڈی کو شک ہوتا تھا کہ وہ برٹش سرکار کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہیں یا ہو سکتے ہیں۔ ان سب سے سب کچھ اگلوایا جاتا تھا۔ سی آئی ڈی نے ہر سیاسی جماعت اور ہر گروپ کے اندر اپنے بندے گھسائے ہوئے تھے جو انہیں ہر پل کی خبریں پہنچاتے رہتے تھے اور یوں جس پر زیادہ شک ہوتا تھا وہ اسے اٹھا کر پاگل خانے کی عمارت میں لے آتے اور اس سے پھر باتیں اگلوانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ ان کی چیخوں کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا کیونکہ سب یہی سمجھتے تھے کہ کوئی پاگل چیخیں مار رہا ہو گا۔
جو خفیہ خبر سی آئی ڈی کا افسر سٹڈی میں بیٹھا سب کو بتا رہا تھا‘ وہ بھی زیرتفتیش ملزمان سے اگلوائی گئی تھی۔ یہ خبر اتنی خفیہ اور حساس تھی کہ سی آئی ڈی کے اس نوجوان افسر کو جب لاہور سے دہلی بھیجا جا رہا تھا کہ وہ جا کر وائسرائے کو سب کچھ بتائے تو اسے سب کچھ زبانی یاد کرایا گیا تھا‘ کسی دستاویز پر لکھ کر نہیں دیا گیا تھا تاکہ راستے میں کہیں ٹرین پر وہ دستاویزات کسی اور کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔
اصل کہانی کچھ یوں کھل رہی تھی کہ سکھوں کے ایک تشدد پسند گروہ کے بھارت کے اندر سب سے زیادہ تشدد پسند گروپ آر ایس ایس سے تعلقات اور رابطوں کا انکشاف ہوا تھا (یہ وہی گروپ تھاجس کے ایک رکن نے بعد میں گاندھی کو قتل کیا تھا) سکھوں کے اس گروہ کا سربراہ ماسٹر تارا سنگھ تھا۔ تارا سنگھ نے لاہور میں سکھوں کے اس تشدد پسند گروہ کے خفیہ اجلاس میں اپنے حامیوں کو کہا تھا کہ وہ پورے بھارت کو خون میں نہلا دیں۔ ماسٹر تارا سنگھ‘ جو ایک سکول استاد تھا‘ یہ پلان بنائے بیٹھے تھا کہ وہ اس خطے میں لہو کی ہولی کھیلے گا۔ سکھوں کے اہم لوگ خون کی اس ہولی کیلئے روپیہ پیسہ اور دیگر وسائل فراہم کرنے کو تیار تھے تاکہ ہندوستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کی جائیں اور تقسیم کو روکا جائے۔ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں سکھوں کو چند ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ ان سکھوں کا انتخاب اس لیے کیا گیا تھا کہ ان میں سے اکثر کو بم بنانے اور انہیں استعمال کرنے کا طریقہ آتا تھا۔ سکھوں کے اس گروہ نے دہلی اور کراچی کے درمیان چلنے والی ان ریل گاڑیوں کو تباہ کرنا تھا جن میں نئی ریاست (پاکستان) کیلئے کام کرنے والے اہم لوگ اور ان کے ساتھ حصے میں ملنے والا سامان، روپیہ پیسہ اور دیگر دستاویزات ہونا تھیں۔ اپنے پلان پر عمل کیلئے ماسٹر تارا سنگھ پہلے ہی ایک انتظام کر چکا تھا۔ وہ دہلی سے کراچی روانہ ہونے والی ٹرین پر وائرلیس سیٹ اور ایک آپریٹر لگا چکا تھا‘ جس نے ٹرین کی روانگی کی اطلاع انہیں فراہم کرنا تھی اور اس کا روٹ بتانا تھا تاکہ سکھوں کے مسلح جتھے کو پتا چل سکے اور سکھ ٹرین پر حملہ کر سکیں۔
اس پلان کے دوسرے حصے میں آر ایس ایس تنظیم کے ہندو ممبران کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ خود کو مسلمانوں کے روپ میں ڈھال کر کراچی پہنچیں اور وہاں چودہ اگست کا انتظار کریں۔ آر ایس ایس کے اس قاتل سکواڈ کو برٹش آرمی ملز کے ہینڈ گرینیڈ دیے گئے تھے۔ اس گروپ میں شامل ہندو شدت پسند ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے تاکہ اگر کوئی پکڑا جائے تو بھی پورا پلان کمپرومائز نہ ہو۔ اس خفیہ منصوبے کے تحت آر ایس ایس کے ان ممبران نے چودہ اگست کو کراچی میں شہر کی ان گلیوں کے اس روٹ پر موجود ہونا تھا جہاں سے محمد علی جناح نے پاکستان بننے کی خوشی میں اپنی رہائش گاہ سے دستور ساز اسمبلی تک ایک جلوس کی شکل میں گزرنا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ سربیا کے اس نوجوان کی طرح کی کارروائی کی جائے جس نے پورے یورپ کو جنگ عظیم اول میں دھکیل دیا تھا‘ جب اس نے ایک ڈیوک کو گولی مار دی تھی۔ یوں ایک ایسی جنگ شروع ہوئی جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے تھے۔ وہی کچھ اب یہاں کراچی میں دہرایا جانا تھا۔ اس تنظیم کے ممبران نے قائد اعظم کی بگھی پر گرینیڈز سے حملہ کرکے قتل کرنا تھا۔ آر ایس ایس کا پلان تھا کہ جناح صاحب کے قتل کے بعد پورے ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان ایک خونخوار جنگ شروع ہو جائے۔ پورے ہندوستان میں فسادات پھیل جائیں ۔ اس طرح پوری جنگ میں ہندو فاتح بن کر ابھریں گے کیونکہ ان کی پورے ہندوستان میں آبادی مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی اور یوں جہاں ہندوستان کی تقسیم کا سارا منصوبہ ناکام ہو گا وہیں مسلمانوں کا بھی ہندوستان سے صفایا ہو جائے گا اور پھر ہندوستان پر صرف ہندو راج ہوگا۔ لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ چودہ اگست کو ہی محمد علی جناح کو قتل کیا جائے اور اس کیلئے آر ایس ایس اپنے لوگوں کو گرینیڈ دے کر مسلمانوں کے روپ میں کراچی بھیجنا شروع کر چکی تھی۔ کئی تو پہلے ہی پہنچ بھی چکے تھے۔ جناح صاحب خاموشی سے یہ سب کچھ سن رہے تھے۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ جب پاکستان کی آزادی میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا تھا تو انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ سی آئی ڈی افسر خوفناک منصوبے کی تفصیلات بتا کر خاموش ہوا تو لیاقت علی خان نے فوراً لارڈ مائونٹ بیٹن سے کہا کہ وہ سب کام چھوڑ کر سکھوں کے تمام لیڈروں کو گرفتار کر لیں۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے لیاقت علی خان کا یہ مطالبہ سنا تو اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ ان حالات میں کیا کرے۔
لارڈ مائونٹ بیٹن نے جناح صاحب اور لیاقت علی خان سے کہا کہ اگر وہ تمام سکھ لیڈروں کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہیں تو اسی وقت ہندوستان میں سول وار شروع ہو جائے گی اور یہی آر ایس ایس چاہتی ہے۔ جو کام وہ چودہ اگست والے دن کرانا چاہتے ہیں‘ وہ آج ہی شروع ہو جائے گا۔ وائسرائے نے سی آئی ڈی کے نوجوان افسر کی طرف دیکھا اور پوچھا: جنٹلمین! تم بتائو اگر میں سکھوں کی قیادت کو گرفتار کر لیتا ہوں تو اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ اس افسر نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر بولا: اگر یہ کیا تو بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ سکھ لیڈرشپ اس وقت امرتسر کے گولڈن ٹیمپل میں موجود ہے۔ اگر ان کی گرفتاری کا حکم دیا گیا تو کوئی ہندو اور سکھ سپاہی ان احکامات پر عمل نہیں کرے گا۔ کوئی بھی گولڈن ٹیمپل کے اندر جا کر انہیں گرفتار نہیں کرے گا جبکہ مسلمان سپاہیوں کو گولڈن ٹیمپل بھیج کر انہیں گرفتار کرانے کا تو سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ سی آئی ڈی افسر بولا: سر معاف کیجیے گا لیکن ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے پلان کے بعد اب پورے پنجاب میں زیادہ قابل اعتماد پولیس افسران اور اہلکار نہیں بچے جو اس طرح کا ایکشن کر سکیں‘ مجھے علم ہے کہ میں پروفیشنل بات نہیں کر رہا لیکن مجھے کوئی ایسا راستہ نظر نہیں آتا کہ ہم کسی ایسے حکم پر عمل کرائیں یا سکھ قیادت کو گولڈن ٹیمپل سے گرفتار کر سکیں۔
مائونٹ بیٹن ایک لمحے کے لیے سوچ میں گم ہوگیا۔ پھر اس نے جناب جناح اور لیاقت علی خان سے کہا کہ اس کے پاس ایک اور پلان ہے۔ جونہی لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنا وہ پلان ان کے ساتھ شیئر کیا کہ وہ اب کیا کرنے لگا ہے تو لیاقت علی خان اپنی کرسی سے اچھل پڑے اور وائسرائے ہند کو تیزی سے کہا: آپ قائد اعظم کو قتل کرانا چاہتے ہیں؟ (جاری)