تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     16-08-2019

کشمیر پر میچ فکسنگ نہیں چلے گی!

مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط کو دوام بخشنے کی کوششیں کامیاب ہوں گی یا نہیں اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بظاہر لگتا ہے کہ کشمیر کا تنازعہ کسی کنارے کو لگنے جا رہا ہے اور مودی سرکار کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کا اقدام بے سبب نہیں۔ پورا سکرپٹ کیا ہے؟ اس بارے میں کس کس کو آگاہی ہے؟ پاکستان اور چین کو اس بارے میں پورا ادراک ہے یا نہیں؟ پاکستان اور چین کے ساتھ جو معلومات شیئر کی گئی ہوں گی وہ من و عن حقیقت تھیں یا پھر دونوں کے ساتھ بیک وقت یا کسی ایک کے ساتھ بلف کیا گیا ہے یا کیا جائے گا؟ جو سکرپٹ لکھا گیا ہے اور جو روڈ میپ تنازعہ کشمیر کو کنارے لگانے کے لیے طے کیا گیا ہے‘ مقبوضہ وادی میں گزشتہ 72 سالوں سے بھارتی ظلم و بربریت کا شکار ایک کروڑ سے زائد کشمیری اس کو قبول کر لیں گے؟ اور کیا اس مبینہ سکرپٹ کو آزاد کشمیر میں بسنے والے کشمیری اور پاکستان کے 22 کروڑ عوام بھی تسلیم کر لیں گے؟ یہ وہ سوالات جو ہر سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے طالب علم کے ذہن میں جنم لے رہے ہیں۔ لکھنے والوں نے کیا سکرپٹ لکھا ہے اور بند کمروں میں کیا روڈ میپ طے پایا ہے؟ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جہاں جنگ حریت فکر اور نظریے کی ہو اور جس جنگ کے نتیجے کا تعلق کروڑوں شہریوں سے ہو‘ وہاں سکرپٹ اور بند کمرے کے روڈ میپ کام نہیں آتے بلکہ زمینی حقائق ہی فیصلہ کرتے ہیں۔
پاکستان کا ردعمل شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ یوم آزادی کے موقع پر وزیراعظم عمران خان نے آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ، بڑی طاقتوں، مسلم حکمرانوں اور مودی سرکار کو مخاطب کرکے واضح پیغام دیا کہ پاکستان بھارتی جارحیت کے جواب میں کہاں تک جا سکتا ہے۔ انہوں نے ایٹمی صلاحیت کے استعمال کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جبکہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ اگر جنگ ہوئی تو اس کی حدت پوری دنیا محسوس کرے گی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اپنا پیغام واضح طور پر دیا کہ کشمیر پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
عالمی ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا‘ مقبوضہ کشمیر میں طویل کرفیو کے باعث پیدا شدہ صورتحال اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی تشویش کے بعد صورتحال مزید گمبھیر ہو چکی ہے۔ کہتے ہیں کہ حوادث سے مواقع جنم لیتے ہیں اور مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ قدرت مواقع بار بار نہیں دیتی۔ برطانوی وزیر خارجہ نے بھی بھارتی ہم منصب سے فون پر بات کرکے اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔ چین دوٹوک الفاظ میں بھارتی اقدام کو ناقابل قبول قرار دے کر مسترد کر چکا ہے اور اس ضمن میں بھارت کے وزیر خارجہ کا دورہ چین بھی مکمل طور پر ناکام رہا۔ چین نے واضح طور پر کہا ہے کہ بھارت کا یکطرفہ اقدام کسی صورت قبول نہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھارتی اقدام پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور 1972ء کے شملہ معاہدہ کے مطابق پُرامن طور پر حل کیا جائے۔ سیکرٹری جنرل نے مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال‘ خاص طور پر انسانی حقوق کے حوالے سے تشویش کا اظہار بھی کیا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے بھی کہا ہے کہ وہ کشمیر پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں‘ پاکستان اور بھارت صبروتحمل کے ساتھ باہمی بات چیت سے مسئلہ حل کریں۔ انہوں نے واضح کیا کہ بھارت نے امریکہ کو پہلے آگاہ نہیں کیا تھا۔
تمام تر سفارتی رابطوں اور عالمی برادری کے رد عمل کے بعد پاکستان نے معاملہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ یو این سکیورٹی کونسل کے صدر کو لکھے گئے خط پر ایکشن ہو چکا ہے اور بھارت کی توقعات کے برعکس غیر معمولی طور پر سکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ پاکستان نے یو این سکیورٹی کونسل کے صدر کو لکھے گئے خط میں تنازعہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارت کی طرف سے مسلسل ان سے روگردانی کی جاتی رہی ہے اور اب 1951ء اور 1957 ء کی یو این سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے بھارت نے یکطرفہ اقدام کیا ہے۔ مقبوضہ وادی میں خواتین کی عصمت دری کی جارہی ہے‘ لاکھوں کشمیری شہید، ہزاروں بچے یتیم اور اس سے زیادہ معذور ہو چکے ہیں‘ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال انتہائی خطرناک ہو چکی ہے‘ اس لیے سکیورٹی کونسل کا اجلاس فوری بلا کر اس میں کشمیر کی صورتحال زیر بحث لائی جائے کیونکہ بھارت کے جارحانہ اقدام کی وجہ سے عالمی امن کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ بھارت نے ایک طے شدہ عالمی تنازعے کو یکطرفہ طور پر ڈیموگرافی اور علاقائی جغرافیے کو تبدیل کرنے کے لیے اقدام کیا ہے جو بنیادی انسانی حقوق اور سکیورٹی کونسل کی قراردادوں میں کشمیریوں کو دی گئی عالمی ضمانتوں کے خلاف ہے‘ جن کے تحت کشمیر کا تنازعہ پُرامن استصواب رائے سے حل ہونا ہے۔ پاکستان کی درخواست پر سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلانا ازخود ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے اور یہ بھی کہ روس پاکستان کو یقین دہانی کرا چکا ہے کہ اجلاس میں پاکستان کی مخالفت نہیں کرے گا۔
اگر ہم چین، روس اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ردعمل اور صدر ٹرمپ کے کشمیر پر ثالثی کے بیان کو نظر میں رکھیں تو ظاہر یہ ہوتا ہے کہ سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلایا جانا بڑی ڈیویلپمنٹ ہے کیونکہ شکست خوردہ دانشور یہی تجزیے کر رہے تھے کہ پاکستان کی درخواست پر اجلاس نہیں بلایا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سکیورٹی کونسل میں جو قرارداد لائی جائے گی اس کے الفاظ کیا ہوں گے کیونکہ کشمیر کا تنازعہ کیا رخ اختیار کرے گا‘ اس پر ابھی کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی‘ لیکن سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں یہ ضرور معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان کے ساتھ کون کھڑا ہے اور کون کون بھارتی اقدام کے ساتھ ہے؟ اب تک کی معلومات اور ملنے والے اشاروں سے محسوس ہوتا ہے کہ روس، چین، برطانیہ اور امریکہ ویٹو نہیں کریں گے۔ باقی بچتا ہے فرانس۔ اگرچہ فرانس کے ساتھ بھارت کے دفاعی سودوں کی وجہ سے فرانس دبائو میں آسکتا ہے؛ چنانچہ اگر فرانس نے ویٹو پاور استعمال کی تو غالب امکان ہے کہ اس کے پیچھے امریکہ ہوگا۔ اگر میرٹ پر پاکستان کا مؤقف سنا جاتا ہے تو پھر اقوام متحدہ کی اپنی قراردادیں بھارت کے مؤقف کی نفی کرتی ہیں کیونکہ بھارت اقوام متحدہ اور اس کی کونسل میں سوورن گارنٹی دے چکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ مقبوضہ کشمیر کے عوام جمہوری طریقے سے آزادانہ ماحول میں استصواب رائے سے اپنی مرضی و منشا کے مطابق کریں گے۔ بھارت نے یہ گارنٹی ایک بار نہیں بار بار دی اور سکیورٹی کونسل کی 1948ء کی قرارداد نمبر47،51، اور 1950 کی قرارداد نمبر80، 1951 کی قرارداد نمبر91 اس بات کی گواہ ہیں‘ جبکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی 1951ء کی قرارداد نمبر91، 1957کی قرارداد نمبر122 اور 123 میں اس بات کی ضمانت دی گئی کہ کشمیر کے معاملے میں کوئی بھی ملک یکطرفہ طور پر کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا‘ نہ ہی ماسوائے استصواب رائے کے کسی اور طریقے سے اس کا جغرافیہ تبدیل کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے ساتھ اور دنیا کے رہنمائوں کے ساتھ بھارت کے پہلے وزیراعظم جوہر لال نہرو کی سرکاری خط و کتابت بھی اس بات کی گواہ ہے کہ حکومت بھارت کی جانب سے سوورن ضمانتیں دی گئیں۔ عالمی مفادات اپنی جگہ لیکن کیا سکیورٹی کونسل اپنی قراردادوں اور اپنے ہی کیے گئے اقدامات کو بے توقیر کرنے کے لیے تیار ہو گی؟
ایسا ممکن نہیں کیونکہ میچ فکسنگ میں بھی اتنی ہی فکسنگ ہو سکتی ہے کہ میدان میں بیٹھے ہیں تماشائی اس کا پتا نہ لگا سکیں اور فکس میچ کو بھی آخری بال تک انجوائے کریں ورنہ تو حالیہ عالمی کپ میں بھارت ایک واضح فکس میچ کرکے اپنا تماشا لگا چکا ہے۔ تنازع کشمیر کے بارے میں سیاست کے کھلاڑیوں نے کیا سکرپٹ لکھا ہے اور کیا روڈ میپ طے کیا ہے اس سے کوئی غرض نہیں کیونکہ کشمیر کی سرزمین لاکھوں شہیدوں کے خون سے سیراب ہو چکی ہے۔ ہزاروں مائیں بہنیں بیٹیاں دو قومی نظریے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ پر اپنی عصمتیں قربان کر چکی ہیں اور شہیدوں کے خون کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے جس میں رتی بھر ناانصافی نہیں ہو سکتی۔ جو شہیدوں کے خون سے بے وفائی کرتا ہے وہ آخرت میں تو رسوا ہوتا ہی ہے لیکن دنیا میں بھی اس کے حصے میں ذلت و رسوائی ہی آتی ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ پاکستان زندہ باد۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved