تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     16-08-2019

ایک دن کشمیر میں

13 اگست‘ سہ پہر کی میٹنگ تھی۔ میرے علاوہ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل عامر کیانی، وزیر امورِ کشمیر علی امین گنڈا پور اور وزیرِ اعظم کے ترجمان افتخار درانی سمیت پارٹی کے دیگر لیڈرز شریک ہوئے۔ سنگل پوائنٹ ایجنڈا یکجہتیٔ کشمیر کے پروگرام کو فائنل کرنا تھا۔ طے ہوا کہ میں لیاقت باغ راولپنڈی سے ڈی چوک تک آنے والی ریلی میں شرکت کروں گا۔ پھر تیاریوں میں رات ڈھل گئی۔ 
14 اگست کے دن صبح پی ایم ہائوس سے فون آیا: دس بجے پرائم منسٹر عمران خان کے ساتھ میں نے آزاد خطۂ جموں و کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد جانا ہے۔ فلائٹ کے طے شدہ وقت پر مانسہرہ سے مظفر آباد تک موسم شدید خراب تھا۔ دو گھنٹے کی تاخیر کے بعد عمران خان کے اصرار پر قافلہ روانہ ہو گیا۔ مارگلہ کی پہاڑیوں سے خان پور ڈیم کے اوپر اور پھر حویلیاں کو داہنی جانب چھوڑتے ہوئے ایبٹ آباد پہنچے۔ مانسہرہ کی ہائی لینڈ پھر بری کوٹ سے دائیں جانب نیلم جہلم کے علاقے میں لینڈنگ شروع ہوئی۔ مظفر آباد سے آگے تین چار چکر لگائے اور تب ہواؤں کے رخ کو ناپ تول کر بحفاظت اتر گئے۔ لینڈنگ گراؤنڈ افواجِ پاکستان کا ضربِ حیدر کیمپ تھا جو نیلم ویلی کی جانب جانے والی سڑک پر واقع ہے۔ وہاں سے گاڑیوں میں بیٹھ کر شہر کی سڑک پر آئے۔ دریا کا پُل کراس کیا۔ ہر طرف پاکستانی پرچموں اور کشمیر کے ریاستی پرچموں کی بہار تھی۔ ریاست آزاد جموں و کشمیر کے اس پرچم پر بھی ستارہ و ہلال موجود ہے۔
آزاد کشمیر کی پارلیمنٹ کے اہلکاروں نے استقبال کیا اور گارڈ آف آنر کے بعد ہم وزیرِ اعظم کے ہمراہ اسمبلی کے اندر چلے گئے۔ وزیرِ اعظم نے کشمیر کی لیڈرشپ سے ملاقاتیں کیں جن میں حریت کانفرنس کے راہنما بھی شامل تھے۔ اس کے بعد ہمیں سپیکر گیلری میں بٹھایا گیا۔ تھوڑی دیر بعد صدرِ آزاد کشمیر سردار مسعود خان اور سپیکر اسمبلی شاہ غلام قادر کے وسط میں چلتے ہوئے وزیرِ اعظم پاکستان سٹیج پر پہنچے۔ اسمبلی ہال میں پہلے پاکستان کا قومی ترانہ ''پاک سرزمین شاد باد‘‘ سنایا گیا‘ جس کے بعد آزاد ریاست جموں و کشمیر کا ترانہ ''وطن ہمارا آزاد کشمیر‘‘ پیش ہوا۔ یہ دونوں قومی ترانے حفیظ جالندھری کی تخلیق ہیں۔ آزاد کشمیر اسمبلی کے قاری صاحب نے موقع کی مناسبت سے تلاوتِ کلام پاک کے لیے آیات منتخب کیں اور نعت شریف بھی پڑھی گئی۔ یہاں برسبیل تذکرہ بتا دوں کہ وزیرِ اعظم کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے AJK کے دونوں ریاستی عہدے دار میرے کالج فیلو ہیں‘ شاہ غلام قادر اور سردار مسعود خان‘ مگر دونوں مجھ سے جونیئر تھے۔ سردار مسعود خان ہاسٹل فیلو بھی رہے۔ آج کے سیاسی آدمی تب غیر سیاسی قسم کے سٹوڈنٹ ہوا کرتے جبکہ موجودہ سپیکر AJK اسمبلی سٹوڈنٹس پالیٹکس میں بھی متحرک رہے۔
سپیکر نے افتتاحی کلمات میں وزیرِ اعظم عمران خان کا اسمبلی کی طرف سے پُرتپاک استقبال کیا اور اُن سے کشمیریوں کی توقعات کا تذکرہ بھی۔ اپوزیشن لیڈر اور وزیرِ اعظم AJK نے تقاریر کیں۔ وزیرِ اعظم آزاد کشمیر کی تقریر پُر مغز اور قدرے علمی بھی تھی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے آبائی علاقے کے ذکر پر راجہ فاروق حیدر کی آنکھیں پُرنم ہو گئیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان اسمبلی خطاب میں تفصیل سے بولے، تقریر کا پہلا حصّہ کشمیری لیڈرشپ کی طرف سے اٹھائے گئے نکات پر مشتمل تھا۔ ساتھ کہا، مودی آر ایس ایس (راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ) کا بنیادی رکن ہے جس کا نظریہ نازی جرمنی کے ایڈوولف ہٹلر سے لیا گیا تھا۔ آئیے تاریخی واقعات اور واقعاتی شہادتوں پر ایک نظر ڈالیں جو ثابت کرتی ہیں کہ آر ایس ایس کی موجودہ مودی حکومت نسلی امتیاز، مذہبی تعصب، سماجی تنگ نظری اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی نسل کُشی کے ایجنڈے پہ چل رہی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ بنیادی حقائق معلوم ہونا چاہئیں کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ہندو انتہا پسند رضا کاروں کی ایک پیرا ملٹری شدت پسند تنظیم ہے جس کی بنیاد سال 1925 میں رکھی گئی تھی‘ جبکہ سال 1980 میں بھارتیہ جنتا پارٹی، آر ایس ایس کے سیاسی ونگ کے طور پر سامنے آئی تھی۔ موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اوائل عمری سے آر ایس ایس کا رکن چلا آتا ہے۔ یاد رکھنے والا نکتہ یہ ہے کہ جب سال 1925 میں بر صغیر میں کوئی ایسی تنظیم قائم کرنے کے بارے میں سوچنا بھی کسی کے خواب و خیال میں نہ تھا‘ اُس وقت ایک کانگریس مین کیشوبی ہیگے وار نے آر ایس ایس کی بنیاد تین مقاصد پر رکھ چھوڑی۔ پہلا، برطانوی راج کے خلاف لڑنا۔ دوسرا، ہندو راج کے لیے ہندوتوا کے نام پر لوگوں کو اکٹھا کرنا اور تیسرا‘ ہندوؤں کو مسلمانوں اور عیسائی مذہب کے ماننے والوں کے خلاف مسلح اور منظم کرنا۔
اس وقت آر ایس ایس/ بھارتیہ جنتا پارٹی، انڈین سیاست میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والی تنظیم بن چکی ہے۔ آر ایس ایس کے نظریات پر تین شخصیات نے گہرا اثر چھوڑا۔ وی ڈی ساورکر، کیشو بی ہیگیوار (1925-1940) اور ایم ایس گوالکر (1940-1973)۔ وی ڈی ساورکر نے ہندو انتہا پسند نظریات اور ہندوتوا کو متعارف کروایا۔ ہیگیوار نے ساورکر کے نظریات کا ترجمہ اور تشریح کی اور انہیں آر ایس ایس کی شکل میں تشکیل دیا جبکہ دوسری جانب گوالکر نے اسے نازی ازم کے انتہائی درجوں تک پہنچا دیا۔ یہاں تک کہ سواستیکا کا نشان نازی ازم نسلی برتری کے احساس کے ساتھ اپنا لیا گیا۔ ساورکر ذاتی طور پر ہٹلر اور مسولینی ‘ جو کہ اپنے اپنے زمانے میں نازی ازم اور فاشزم کی علامت تھے‘دونوں کا بہت گہرا مداح تھا۔ اس نے کھلے عام نسلی تفاخر اور ثقافتی قومیت کا پرچار کیا۔ آر ایس ایس کا موجد صرف ہٹلر کے نازی ازم کا سپورٹر ہونے پر اکتفا نہ کر سکا بلکہ اس نے یہ بھی اعلان کر دیا کہ بھارت کے مسلمان اسی سلوک کے حق دار ہیں جو ہٹلر جرمنی میں یہودیوں سے کر رہا ہے۔
آپ نے حالیہ سالوں میں ''فائنل سلوشن‘‘ یعنی آخری حل کا ذکر سن رکھا ہو گا۔ ایک معروف انڈین اداکار انوپم کھیر‘ جو کہ UN کا سفیر بھی ہے‘ نے "kashmir solution has begun" کا ٹویٹ بھی کیا تھا۔ ہڈسن کے تحقیقاتی ادارے کے مطابق وی ڈی ساورکر ایک سزا یافتہ مجرم تھا جو بعد میں نسل پرست، جنگجو اور ہندو انتہا پسند بن گیا۔ ایک اطالوی مفکر مارژیہ کاسولری‘ جو ہندوستانی سیاست کا مطالعہ کر رہی تھی‘ کے مطابق وی ڈی ساورکر نے ہندوستانی سیاسی قیادت کو جرمنی میں ہٹلر کے نازی ازم کی مخالفت کرنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ اس نے آر ایس ایس کے یورپین فاشزم سے تعلقات کے بارے میں بھی لکھا۔
1940ء میں ہیگیوار کے مرنے کے بعد ساورکر نے آر ایس ایس سنبھالی۔ ساورکر ہٹلر کا بہت بڑا مداح اور گاندھی کا شدید مخالف تھا۔ اس نے ہولوکاسٹ کو سپورٹ کیا۔ 1948 میں مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد نہرو حکومت نے آر ایس ایس کو دہشت گرد قرار دے کر پابندی لگائی۔ دوسری بار (1975-1977) میں ایمرجنسی کے دوران پابندی لگی اور پھر 1992 میں بھی یہ پابندی لگی۔ بر صغیر میں آزادی سے پہلے انگریز نے بھی اس تنظیم پر پابندی لگائی تھی۔
مودی نے وحشت گر گوالکر کو ''پوجے جانے کے قابل گرو‘‘ کہا ہے۔ 15 اگست کے خطاب میں مودی اسی گرو کا چیلہ ثابت ہوا‘ جو اقلیتوں کو humanity نہیں property سمجھتا ہے۔ اسی سوچ نے نہرو اور مہاتما گاندھی کے ہندوستان کو سیکولر ازم اور جمہوریت کا قبرستان بنا دیا اور کشمیر کو آزادی کی نئی راہ سُجھا دی۔ ایک دن کشمیر میں رہ کر مجھے اس پر یقین آ گیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved