تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     16-08-2019

ضیا الحق کی اصل ’’سیاسی طاقت‘‘ کیا تھی؟

29 مئی 1988ء کو جونیجو حکومت کی برطرفی (اور قومی اسمبلی کی تحلیل) کے ساتھ، صدر جنرل ضیا الحق نے نئے انتخابات کے لیے 16 نومبر کی تاریخ بھی دے دی تھی‘ (ان کے جماعتی یا غیر جماعتی بنیادوں پر انعقاد کا معاملہ التوا میں رکھا)۔ اس دوران مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ صوبہ سرحد کے فدا محمد خاں، اس دوسرے دھڑے کے صدر اور محمد نواز شریف سیکرٹری جنرل قرار پائے۔ اپریل 1986ء میں وطن واپسی کے بعد، قبل از وقت انتخابات کے لیے بے نظیر بھٹو کی مہم ناکام رہی تھی اور وہ تھک ہار کر 1990ء کا انتظار کر رہی تھیں کہ جونیجو حکومت کی برطرفی (اور مسلم لیگ کی دو دھڑوں میں تقسیم) پیپلز پارٹی کے لیے ''بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ والی بات بن گئی۔
17 اگست کی دوپہر گیارہ بجے پیر محمد اشرف کی پریس کانفرنس تھی (پیر صاحب جماعت اسلامی پنجاب کے سیکرٹری جنرل رہے تھے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں لاہور سے ایم این اے منتخب ہوئے اور مسلم لیگ جوائن کر لی)‘ چائے کے دوران غیر رسمی گپ شپ میں پیر صاحب کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ کے اتحاد کی کوئی صورت پیدا ہو گئی تو صدر ضیا الحق 16 نومبر کے انتخابات یقینا جماعتی بنیادوں پر کروا دیں گے۔پیر صاحب سے فارغ ہو کر ہم ملک قاسم کی پریس کانفرنس میں پہنچے۔ ملک صاحب کا اصل مقصد اگرچہ مسلح افواج کو یقین دہانی کروانا تھا کہ صرف صدر ضیا الحق ہی ان کے مفادات کے محافظ نہیں بلکہ مستقبل میں قائم ہونے والی سول حکومت میں بھی مسلح افواج کی ضروریات کا پورا پورا تحفظ کیا جائے گا۔ بے تکلف گپ شپ کے دوران انہوں نے بھی زور دے کر یہی بات کہی کہ 16 نومبر کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہی ہوں گے‘ تاہم ان کا اصرار تھا کہ ضیا الحق یہ انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر کرائیں گے۔
اشرف ممتاز اور میں نواب زادہ نصر اللہ خاں کی شام کی چائے میں بھی موجود تھے۔ نواب زادہ صاحب اس روز ایک اردو (اور انگریزی) اخبار میں شائع ہونے والی اس خبر کو بہت اہم قرار دے رہے تھے کہ شریف الدین پیرزادہ نے صدر کے عشائیے میں انہیں 16 نومبر کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروانے کا مشورہ دیا ہے۔نواب زادہ صاحب کے ہاں سے واپسی پر اشرف ممتاز نے مجھے صدر ضیا الحق کی ایک بہت قریبی شخصیت سے چند روز قبل ہونے والی ملاقات یاد دلائی۔ ان صاحب نے بتایا تھا کہ صدر ملک کے سیاسی ڈھانچے کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں‘ جس کے لیے 16 نومبر کے انتخابات سے قبل ریفرنڈم کا انعقاد بھی ممکن ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو نئی پارلیمنٹ کے ذریعے آئین میں ترمیم کر کے ملک میں پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام کی منظوری حاصل کر لی جائے گی۔''لیکن اگر پارلیمنٹ نے منظوری نہ دی تو ...؟‘‘'' تو ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا جائے گا‘‘۔ ''لیکن نیا مارشل لا تو نیا جرنیل ہی لگائے گا‘‘۔ ''یہ آپ سے کس نے کہہ دیا۔ مارشل لا چیف آف آرمی سٹاف لگائے گا اور یہ عہدہ خود ضیا الحق کے پاس ہے‘‘۔
اور پھر چیئرنگ کراس پر ہم ان الفاظ کے ساتھ اپنے اپنے دفتر کی طرف روانہ ہوئے کہ صدر صاحب کے متعلق کوئی بھی بات یقین کے ساتھ کہنا مشکل ہے۔ وہ سرپرائز دینے کے ماہر ہیں اور کیا خبر کس وقت، کیا سرپرائز دے دیں۔اور دفتر پہنچنے کے بعد پہلا ہی ٹیلی فون بہت بڑا سرپرائز لئے ہوئے تھا۔ یہ سعید آسی تھے جو اس سانحہ کی اطلاع دے رہے تھے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ بات کنفرم نہیں ہو رہی کہ یہ صدر ضیا الحق ہی کا طیارہ تھا۔ اور اگر یہ انہی کا طیارہ تھا تو اس حادثے میں وہ بھی اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں یا بچ گئے ہیں۔
اس کے بعد میں نے پہلا فون نواب زادہ صاحب کو کیا۔ میں مناسب الفاظ کی تلاش میں تھا کہ نواب زادہ صاحب خود ہی گویا ہوئے، ''مجھے خبر مل گئی ہے‘‘ ... ''لیکن ابھی یہ کنفرم ہونا باقی ہے کہ ...‘‘ ''بھئی! کنفرم ہو چکا ہے۔ جہاز میں ضیا الحق کے علاوہ جنرل اختر عبدالرحمن اور امریکی سفیر رافیل بھی تھے۔ کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔ سب ختم ہو گیا ہے۔‘‘ اور پھر اِنّا لِلّٰہ پڑھ کر نواب زادہ صاحب نے ٹیلی فون بند کر دیا۔پی ڈی پی کے سیکرٹری جنرل ارشد چودھری نے اسلام آباد سے نواب زادہ صاحب کو تمام تفصیلات سے آگاہ کر دیا تھا۔
مغرب کے بعد ملک قاسم کا فون آیا، ''تم آ رہے ہو، تو میں گھر میں کھانے کا کہہ دوں‘‘۔ مجھے اندازہ ہوا کہ ملک صاحب ابھی تک اس سانحہ سے بے خبر ہیں۔ میں نے انہیں بتایا تو وہ قدرے غصے سے بولے، یہ ہر وقت مذاق اور اتنا بڑا مذاق اچھی بات نہیں اور پھر جب انہیں احساس ہوا کہ میں مذاق نہیں کر رہا ہوں تو یوں لگا جیسے ان کی آواز بیٹھی جا رہی ہو۔ ''بہت بُرا ہوا۔ بڑے دکھ کی بات ہے۔ بڑی افسوسناک موت ہے‘‘۔اور پھر شب آٹھ بجے ریڈیو کی خبروں نے تصدیق کر دی۔ سرپرائز دینے والے صدر کا، آخری سرپرائز اتنا المناک ہوگا، یہ بات تو شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ آئی تھی۔
دفتر سے واپسی پر میں نے شہر کے بعض گنجان علاقوں کا چکر لگانے کا فیصلہ کیا۔ شہر ویران اور سنسان ہو گیا تھا۔ وہ چوراہے‘ جہاں شب ڈیڑھ، دو بجے تک زندہ دلانِ لاہور کی خوش گپیاں جاری رہتی تھیں، دس بجے سے پہلے ہی ویران ہو چکے تھے۔ میں نے ایک آدھ کھلی ہوئی دکان کے مالک سے معلوم کیا تو اس نے بتایا: شام ہی سے یہ عالم ہے۔ ''کیا کسی نے مٹھائی بانٹی؟ بھنگڑا ڈالا؟‘‘ ''ہاں چند لوگ تھے، لیکن انہیں لوگوں کی بڑی تعداد کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ کھِسک گئے‘‘۔اور ادھر گھروں میں... اور یہ صرف میرے گھر کا واقعہ نہ تھا، جن دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی، ان سب کے ہاں بھی ہوا تھا کہ خواتین رو رہی تھیں۔ کیا بوڑھے، کیا جوان، آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ کم سن بچوں کے لیے یہ سب کچھ ناقابلِ فہم تھا، وہ حیرت سے پوچھتے: کیا ضیا الحق ہمارے رشتے دار تھے۔ اس معصوم سے سوال کا جواب ٹی وی کی کمنٹری میں موجود تھا، جب صدر کا تابوت آخری آرام گاہ کی طرف لے جایا جا رہا تھا، تو نوجوان مختلف نعرے بلند کر رہے تھے، سب سے پُر جوش نعرہ تھا: تیرا میرا رشتہ کیا، لا اِلٰہ اِلا اللہ۔اسلام آباد کی فیصل مسجد کے گرد میلوں تک جو کیفیت تھی، لاہور میں مینار پاکستان پر غائبانہ نماز جنازہ کے موقع پر بھی چاروں طرف سر ہی سر تھے، ممکن ہے کچھ لوگ صوبائی حکومت کے لائے ہوئے بھی ہوں، لیکن میں تو خود اس ہجوم کا حصہ تھا جو ریگل چوک سے پیدل یہاں پہنچا تھا۔ یہیں ڈاکٹر فرید الدین بھی مل گئے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بیڈن روڈ کی ایک دکان سے بجلی کا سامان خرید رہے تھے۔ کچھ اور گاہک بھی موجود تھے کہ اچانک دکاندار نے اعلان کیا، جناب! مجھے غائبانہ نماز جنازہ کے لیے مینار پاکستان پہنچنا ہے۔ میں دکان بند کر رہا ہوں۔ آپ براہ کرم کل تشریف لے آئیے۔
مینار پاکستان پر میں دیر تک موجود رہا اور دور تک اس ہجوم بیکراں کا جائزہ لیا۔ 1977ء کی تحریکِ نظامِ مصطفی کے کئی سرگرم کارکن بھی یہاں موجود تھے۔ اور وہی لوگ، وہی طبقے جو 1977ء کی تحریک کا حصہ تھے۔ ''مردِ مومن ، مردِ حق‘‘ میں وہ بھٹو مخالف جذبات کی تسکین بھی پاتے۔
نواب زادہ صاحب کے ہاں سے واپسی پر اشرف ممتاز نے مجھے صدر ضیا الحق کی ایک بہت قریبی شخصیت سے چند روز قبل ہونے والی ملاقات یاد دلائی۔ ان صاحب نے بتایا تھا کہ صدر ملک کے سیاسی ڈھانچے کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں‘ جس کے لیے 16 نومبر کے انتخابات سے قبل ریفرنڈم کا انعقاد بھی ممکن ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved