سوشل میڈیا پر کسی کی عزت محفوظ نہیں: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی اور سینئر رہنما سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''سوشل میڈیا پر کسی کی عزت محفوظ نہیں‘‘ مثلاً: کسی شریف آدمی کے اثاثے زیادہ ہوں تو یہ لوگ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں؛ حالانکہ انہیں دوسروں کے اثاثوں پر نظر رکھنے کی بجائے اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے ‘جبکہ حسد بہت بُری بلا ہے‘ کیونکہ اثاثے تو اپنے آپ ہی بڑھتے رہتے ہیں اور آدمی کو پتا ہی نہیں چلتا‘ اس لیے یہ بات خود اثاثوں سے پوچھنی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کیسے بڑھ گئے ہیں ؟جبکہ اُنہیں خود بھی پتا نہیں ہوتا کہ وہ 500ارب تک پہنچ گئے ہیں اور میں چونکہ پیسوں کے معاملے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا‘ اس لیے کبھی ان کا حساب کتاب بھی نہیں رکھتا‘ کیونکہ میں کوئی منشی یا منیم نہیں ہوں کہ ایسی فضول چیزوں پر اپنا وقت ضائع کرتا پھروں اور یہی خیال کرتا ہوں کہ انہوں نے جتنا بڑھنا ہے بڑھ لیں‘ کسی دن ان کا حساب بھی کر لیں گے۔ آپ اگلے روز پنو عاقل کے ایک ہوٹل میں جشن ِ آزادی کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے‘‘ جیسے میرے بغیر پنجاب کی وزارتِ عُلیا نامکمل تھی‘ جیسے میں نے آ کر مکمل طور پر مکمل کر دیا ہے‘ جبکہ کچھ لوگ اسے مزید مکمل کرنے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں‘ لیکن وزیراعظم کسی کی بات سننے کو تیار نہیں؛ بلکہ مجھے ہی تھپکی دیتے رہتے ہیں کہ ٹھیک کام کر رہے ہو‘ جبکہ کام تو ارکان ِاسمبلی نے کرنا ہوتا ہے ‘جبکہ میں تو ہر وقت اسی فکر میں غلطاں رہتا ہوں کہ کس افسر کا تبادلہ کہاں کرنا ہے اور کس افسر کے تبادلے کے احکامات واپس لینا ہیں؛ حالانکہ وہی افسر کسی رکن اسمبلی نے لگوایا ہوتا ہے اور جو ذرا سی بھی حکم عدولی کرے تو اس کے مزید تبادلے کا مطالبہ کر دیتے ہیں؛ حالانکہ افسر کو بھی اچھی طرح سمجھا دیا جاتا ہے کہ رکن ِاسمبلی کی حکم عدولی نہیں کرنی‘ دراصل ان افسروں کو کسی مناسب سے ریفریشر کورس کی ضرورت ہے کہ حکم کی اندھا دھند تقلید کیسے کرنی ہے۔ آپ اگلے روز یوم آزادی کے موقع پر حضوری باغ میں پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
پاکستانیوں کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں: شہباز شریف
سابق خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''پاکستانیوں کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں‘‘ جو پہلے تو فارغ نہیں تھے ‘کیونکہ میاں نواز شریف ان کے دل میں دھڑکتے ہیں؛ چنانچہ اب منت سماجت کر کے اُنہیں قائل کیا ہے کہ ایک دن کیلئے کشمیریوں کے ساتھ بھی دھڑک کر دکھا دیں‘ جس پر وہ معمولی تقاضے پر راضی ہو گئے ‘جبکہ اب انہیں چاہیے کہ میرے دل میں بھی دھڑکا کریں‘ کیونکہ نواز شریف کے دل میں انہوں نے کافی دھڑک لیا‘جبکہ ویسے بھی نواز شریف کا دل اب اتنا صحتمند نہیں رہا‘ لیکن بھتیجی صاحبہ انہیں اپنے دل میں دھڑکانے کی کوشش کر رہی ہیں؛ حالانکہ زنانہ دل تو ویسے بھی کافی کمزور ہوتا ہے؛ اگرچہ گِٹے گوڈے تو میرے بھی کام کرنے سے رہ گئے ہیں کہ کل ہی دھکم پیل میں کمر کا درد بھی شروع ہو گیا اور پاؤں میں بھی موچ بھی آ گئی‘ لیکن عوام نے میرے گِٹے گوڈوں میں نہیں ‘بلکہ میرے دل میں دھڑکنا ہے۔ آپ اگلے روز ماڈل ٹاؤن میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
خوشبو کی شہادت
اس کتاب کے مرتب سلیم شاہد ہیں اور اسے بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن نے چھاپا ہے۔ انتساب بھی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے نام ہے‘ سرورق بھٹو صاحب کی تصویر سے مزین ہے اور پس سرورق اس ادارے کی چھاپی ہوئی دیگر کتابوں کی فہرست درج ہے۔ آغاز میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی ایک ایک تصویر ہے‘ جبکہ دیباچے بشیر ریاض‘ بینظیر بھٹو اور صغیر علی چودھری نے تحریر کیے ہیں۔ شروع میں بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرتی ہوئی مختلف شعراء کی غزلیں ہیں‘ جن میں جوشؔ ملیح آبادی‘ ظہیرؔ کاشمیری‘ قتیل شفائی‘فارغؔ بخاری‘ شہرتؔ بخاری‘ جوہرؔمیر‘ پرویز ؔچشتی‘ حاجی عدیلؔ‘ اعزاز افصل‘ احمد وحید اختر‘ حسن ؔرضوی اور سلیم شاہد کی غزلیں ہیں‘ جس کے بعد احمد بدر پیرزادہ‘ فیض احمد فیضؔ‘ رسول بخش پلیجو‘ فارغؔ بخاری‘ عباس اطہر‘فہمیدہ ریاض‘جوزف وکٹر‘ شبیہ حیدر‘ حامد جیلانی‘ حسن عباس رضا اور سلیم شاہد کی نظمیں ہیں۔ کتاب کے آخر میں بینظیر بھٹو‘ نصرت بھٹو اوربھٹو کے مختلف اصحاب چودھری اصغر علی‘ بشیر ریاض کے لیے آٹو گراف کا عکس چھاپا گیا ہے۔ یہ کتاب ہمیں بک ہوم والے رانا عبداالرحمن کے توسط سے ملی ہے۔
اور‘ اب آخر میں جدید شاعراقتدارؔ جاوید کی یہ نظم:
اٹلس
زمانہ تو نورائیدہ گیت ہے/ صاف شفاف‘ سادہ‘ سفید ایک چادر/ نکلتا ہے زیر و بم لب سے/ آہستہ آہستہ اُٹھتا ہے اوپر/ چمکتا ہے کرنوں کے ہم راہ/ مواج دریا کے دونوں کناروں پہ یکساں‘ برابر/ اُترتا ہے دن کی لہو سے بھری جھیل میں/ رات بھر خود کو دھوتا ہے/ اور پاک ہوتا ہے/ ملتا ہے کومل بدن/ تلملاتا ہے/ اندھی سیہ شب کے نافے میں/ آخر دم صبح باہر نکلتا ہے/ دھوئی‘ سفیدی بھری صبح کے ساتھ/ روشن زمانہ شگنیا ہے/ دنیا ہے کم بخت گاماں/ کولمبس کے ناپاک چہروں پہ پڑتی ہوا/ لنگر انداز ہوتے جہازوں کے کپتانوں کی نیند!/ دنیا دمکتی ہے/ ہسپانوی کے گمانوں میں/ کم سرخ سیبوں میں/ کم سرخ رانوں میں/ تٹ کے جھمیلوں میں/ خواہش کے ریلوں میں/ دکن کی جانب اُترتے ہوئے پرتگالی کی آنکھوں میں/ ذروں کی صورت/ جواہر بھرے تھیلوں/ سونے بھرے بھاری بوروں کی صورت/ الجھتی ہے اک شہر سے/ کالی کٹ کی ہوا دار گلیوں سے/ ممباسا کی گرم ڈلیوں سے/ گرتی ہے اٹلس پہ/ نقطہ سی بن جاتی ہے/ میری آنکھوں میں جالا سا تن جاتی ہے!
آج کا مطلع
جرمِ دل کی سزا نہیں دیتا
کیوں کوئی فیصلہ نہیں دیتا