تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     17-08-2019

کشمیر کی جنگ کون لڑے گا؟

ہر معاشرہ منقسم ہوتا ہے، اس میں طرح طرح کے لوگ ہوتے ہیں، دو نمبریے بھی اور ایثار و قربانی کرنے والے بھی۔ ہمارا معاشرہ بھی بٹا ہوا ہے۔ ٹائم پاس کرنے والے اور جائزوناجائز طریقوں سے پیسہ بنانے والے‘ اور اسی آبادی میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو ہر قربانی کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ نام نہاد افغان جہاد سے لاکھ اختلاف کیاجائے، اس میں بڑے دلیروں اورایثار کرنے والوں نے حصہ لیا۔ اُس جہاد کے امرا یعنی لیڈران کا جو بھی نظریہ ہو لڑنے اورمرنے والے کثیر تعداد میں تھے اور اُنہی کی وجہ سے روسیوں کو منہ کی کھانا پڑی۔ گو یہ بھی ساتھ ساتھ تسلیم کرنا پڑے گا کہ امریکی ڈالر، سٹنگر میزائل اورسعودی ریال نہ ہوتے تووہ جہاد شاید کامیابی سے ہمکنار نہ ہوتا۔ اس جہاد کے دو منفرد پہلو تھے، جذبہ اسلامی اور بیرونی مالی امداد۔
1989ء سے شروع ہونے والا کشمیر جہاد جیسا بھی تھا اورجتنا عرصہ رہا اس میں بھی شامل دبنگ نوجوان ہی تھے جنہیں نہ بھارتی گولیوں نہ موت کا ڈر تھا۔ جو جہاد چلا رہے تھے، یعنی وہ جو پیچھے سے ڈوریاں کھینچ رہے تھے، اُن کے عزائم جو بھی ہوں میدان میں لڑنے والوں کے جذبے پہ تو انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔
جب یہ دونوں معرکے چل رہے تھے پاکستان میں کرپشن تب بھی ہورہی تھی۔ پٹواری اورتھانیداروں سے لے کر اوپر افسران تک اپنا حق سمجھتے ہوئے رشوت لیتے تھے۔ تمام برائیاں جن کا پاکستانی معاشرے کے حوالے سے ہم ذکر کرتے ہیں تب بھی اپنے زوروں پہ تھیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ایسے لوگ بھی تھے جو ہر چیز چھوڑ کے لڑائی کی راہ پہ چلنے کیلئے تیار تھے۔ کشمیر کیلئے اب بھی کچھ ہونا ہے تو ایسے ہی ہوگا۔ پاکستانی معاشرے کی دیرینہ بیماریاں چلتی رہیں گی۔ کوئی یہ سمجھے کہ پاکستانی قوم پہلے پاک ہوگی اور اپنے میں ہمت اور توانائی پیدا کر سکے گی اور پھر کشمیر کی آزادی کے راستے پہ چل نکلے گی یہ خام خیال ہے۔ خوابوں کی دنیا۔ اجتماعی طور پہ اس معاشرے نے ایسے ہی رہنا ہے لیکن کسی کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس میں قربانی دینے والے اور جی دار لوگوں کی کمی ہے۔ 
مسئلہ یہ ہے کہ تب حالات سازگار تھے۔ نام نہاد جہاد کے لئے عالمی حالات بھی ساتھ دے رہے تھے۔ امریکہ اور اس کے تمام اتحادی اس جہاد میں شریکِ کار تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں پاکستان میدان میں تو اُترا لیکن اس یقین کے ساتھ کہ وہ اکیلا نہیں۔ اس کے پیچھے پورا ایک عالمی اتحاد تھا۔ نہ اسلحے کی کمی تھی نہ پیسے کی۔ میں اس بحث میں نہیں پڑ رہا کہ اس جہاد سے فائدہ کیا ہوا اور اس کے نقصان کتنے تھے اور ان نقصانات کا اثر پاکستان پہ کیا رہا۔ وہ اورکہانی ہے۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ افغانستان کی وادیوں اور پہاڑوں پہ لڑنے کیلئے ہمت اور جوانمردی درکار تھی اور ایسے عناصر تھے، افغانوں میں اور پاکستان میں بھی، جن میں یہ خوبیاں پائی جاتی تھیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی ایسا ہی ہوا۔ بھارتی فوج کے سامنے سینہ سپر ہونا آسان نہیں تھا‘ لیکن ایسے عناصر تھے جنہوں نے یہ کیا۔ 
اب البتہ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان تنہا ہے۔ کشمیر میں اگر کچھ کرنا مطلوب ہے تو پاکستان کے ساتھ کوئی عالمی طاقت کھڑی نہیں۔ اس مسئلے میں چین کی حمایت بھی لفظی حد تک ہے۔ کشمیر میں چین اُس رول کیلئے تیار نہیں جو اس نے ویت نام کی جنگ میں ادا کیا تھا۔ عرب دنیا ہمارے ساتھ تو بالکل نہیں۔ اِن دنوں میں ہی ہم نے دیکھ لیا ہے کہ وہ بیانات کی حد تک بھی ہمارے ساتھ نہیں۔ ترکی کے صدر نے کشمیریوں کے حق میں کچھ بات کی ہے۔ سعودی عرب چپ ہے، باقی گلف والے بالکل ہی چپ ہیں۔ متحدہ امارات نے کوئی عندیہ دیا ہے تو ہندوستان کی حمایت میں۔ ایران بھی گومگو کی حالت میں ہے۔ ہمارے ساتھ اُن کے تعلقات کوئی اتنے اچھے نہیں رہے۔ ہماری سعودیہ سے قربت کے بارے میں بھی اُنہیں شکایات ہیں۔ تو اور کون رہ گیا ہے؟ زبانی جمع خرچ کی بھی توقع ہم کہیں سے نہیں کر سکتے۔
تو مسئلہ پھر یہ ہے کہ گو کشمیری آبادی خود ہندوستان کے خلاف بغاوت کیلئے نہ صرف تیار ہے بلکہ عملی طور پہ بغاوت پہ اُتر آئی ہے۔ لیکن کشمیری اکیلے ہیں اور پاکستان عجیب کیفیت میں گرفتار ہے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت اس رائے کی طرف مائل ہے کہ کشمیریوں کیلئے کچھ کرنا چاہیے اور جنگ کی نوبت آئے اس کا بھی خطرہ مول لینا چاہیے۔ لیکن حکومت اور بالعموم حکمران طبقات (ان کے ساتھ اشرافیہ کو بھی ملا لیں اور ممی ڈیڈی کلاس کو بھی) یہ رائے نہیں رکھتے۔ جنگ تو دور کی بات ہے وہ قربانی اور ایثار جیسی گفتگو کو بیکار کی باتیں سمجھتے ہیں۔ اُن سے کشمیر پہ گفتگو چھڑے تو فوراً ہی آئی ایم ایف کا ذکر آ جاتا ہے اور ایف اے ٹی ایف کے تحت عالمی پابندیوں کا بھرپور تذکرہ شروع ہو جاتا ہے۔ جدوجہد کا تھوڑا سا بھی ذکر ہو تو آوازیں آنی شروع ہو جاتی ہیں کہ لٹ جائیں گے، مر جائیں گے، پاکستان تباہ ہو جائے گا۔ اِن طبقات پہ کسی قسم کا بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایثار کے راستے پہ چلنے کیلئے وہی طبقات تیار ہوں گے جن کا ریاستِ پاکستان کے معاملات میں حصہ صفر کے برابر ہے۔ جن کے پاس بہت کچھ ہو، پراپرٹی کے کاروبار میں جن کے ہاتھ پاؤں دھنسے ہوں، وہ اور قسم کا جمع خرچ کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ لڑائی اور جہاد وغیرہ کی چیزیں‘ یہ لاچاروں کا کام ہی رہ جاتا ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ بھی کوئی فیصلہ کرتا ہے کہ لاچاروں پہ ہی تکیہ کیا جائے اور انہی سے کام چلانا ہے تو ایسی سوچ کا پاسدار کون ہو گا؟ یعنی اس کٹھن مرحلے میں بے یارومددگار قوم کی راہنمائی کون کرے گا؟
ہماری موجودہ سیاسی پارٹیوں میں تو ایسا کام کوئی نہیں کر سکتا۔ پی ٹی آئی کی حکومت بھی اس لحاظ سے باقی پارٹیوں کے برابر ہے۔ مطلب یہ کہ ایثار اور جدوجہد کی راہ ان میں سے کسی نے نہیں چننی۔ جہاں تک وزیر اعظم عمران خان کا تعلق ہے تو وہ واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ جنگ تباہ کن ہو گی۔ طالبان کی سوچ تو یہ نہیں تھی جب انہوں نے امریکیوں کے خلاف ہتھیار اُٹھائے۔ ویتنام کے عظیم لیڈر ہوچی مِن نے تو یہ نہیں سوچا تھا کہ امریکہ کے خلاف مزاحمت تباہ کن ہو گی۔ ویتنامی قوم تو لڑتی رہی... جاپانیوں کے خلاف، پھر فرانسیسیوں کے خلاف اور پھر امریکہ کے مدِمقابل... یہ سوچے بغیر کہ مزاحمت کی راہ کتنی کٹھن ہو گی۔ ہم اگر پہلے سے ہی یہ سو چ لے کر بیٹھ جائیں کہ فلاں مشکل آئے گی اور فلاں نتائج تباہ کن ہوں گے تو ہم نے کشمیر یا کشمیریوں کیلئے خاک کچھ کرنا ہے۔ 
حاصل یہ ہے کہ پوری پاکستانی قوم میں ہمت نہیں ہے۔ اس قوم کے ایک حصے میں یہ خصوصیت دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن اس محدود سی صلاحیت کو بھی کون بروئے کار لائے گا؟ اس وقت کون میرِ کارواں ہو سکتا ہے؟ باتوں میں ہم سے آگے کوئی نہیں۔ ہر ایک لیڈر، وزیر اعظم سے لے کر دوسروں تک، بھارت کو للکار رہا ہے۔ ہم اس بات پہ اتنا زور نہیں دے رہے کہ کشمیریوں کیلئے کیا کریں گے بلکہ زور اس بات پہ ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا سوچا تو اُسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ بھارت پاگل ہے؟ اُس نے مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ کرنا تھا کر ڈالا۔ اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ پاکستان پہ چڑھ دوڑے۔ کس مقصد کیلئے؟ مقصد تو اس کا مقبوضہ کشمیر میں ہے اور اُس مقصد کو پورا کرنے کیلئے وہ ہر حربے کا استعمال کر رہا ہے۔
ہمیں تو یہ سوچنا ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور کیا کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے کسی شور شرابے یا اُونچی آواز میں بڑھکوں کی ضرورت نہیں۔ عام پاکستانی ہر چیز کیلئے تیار ہو گا۔ پرابلم یہاں حکمران اور مراعات یافتہ طبقات کا ہے جنہیں، آئی ایم ایف تو دور کی بات، اندھیروں سے ڈر لگا رہتا ہے۔ فیصلے عام آدمی کے ہاتھ میں نہیں۔ وہ انہی اوپر والے طبقات نے کرنے ہیں۔ ان طبقات کو کشمیریوں کی اتنی کیا پڑی ہے؟ ان کی سوچ اور ہے، ترجیحات اور ہیں۔ ان کی بنیادی دلچسپیاں ان چیزوں میں ہیں کہ بچے باہر پڑھ جائیں اور وہیں اُن کے ٹھکانے بنیں۔ لڑنے مرنے کیلئے اور لوگ ہی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو راہ کون دکھائے گا؟ اِن کا راہنما کہاں سے آئے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved