تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     17-08-2019

سرخیاں‘ متن ‘ریکارڈ کی درستی اور تازہ غزل

حکومت جمہوری اصولوں کو پامال کر رہی ہے: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''احتساب کی آڑ میں حکومت جمہوری اصولوں کو پامال کر رہی ہے‘‘ جبکہ مال وغیرہ بنانے سمیت سب کچھ جمہوری اصولوں کے تحت ہی کیا جاتا ہے کہ سیاست کا مطلب بھی یہی ہے کہ الیکشن کے ذریعے سرمایہ کاری کرو اور کامیاب ہو کر اس نقصان اور خرچے کو بھی پورا کرو اور منافع بھی اکٹھا کرو کہ سیاست ویسے بھی ایک کاروبار کا نام ہے اور یہ واحد کاروبار ہے جس میں منافع ہی منافع ہے‘ نقصان کا کوئی احتمال نہیں‘ ماسوائے اس کے کہ احتساب ادارے آ دھمکتے ہیں کہ حساب وغیرہ دو جبکہ یہ سیاستدانوں کا ذاتی معاملہ ہے جس میں وہ خواہ مخواہ ٹانگ اڑاتے ہیں۔ انہوں نے جمہوری اصولوں سے چھیڑ چھاڑ کا ٹھیکہ اُٹھا رکھا ہے حالانکہ ٹھیکیداری بالکل الگ چیز ہے جسے ہم سیاستدان ہی دیتے ہیں اورحصہ وصول کرتے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بھارت نے کشمیر‘ پی ٹی آئی نے پاکستان پر قبضہ کر رکھا ہے: رانا تنویر
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''بھارت نے کشمیر اور تحریک انصاف نے پاکستان پر قبضہ کر رکھا ہے‘‘ اس لیے ہم نے کشمیر کا معاملہ خدا پر چھوڑ رکھا ہے اور پاکستان کا قبضہ چھڑوانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ کشمیر کے لیے جدوجہد اس کے بعد ہی ہو سکتی ہے بلکہ کشمیری خود اپنی آزادی کی جنگ زیادہ خوبصورتی سے لڑ رہے ہیں اور اُن کی جدوجہد سے ہمیں بھی پاکستان کا قبضہ چھڑوانے کے لیے حوصلہ افزائی ہوتی ہے‘ اگرچہ پاکستان میں بھی قبضہ گروپس موجود ہیں اور جو ہمارے ہی چیلے ہیں جنہیں حکومت خواہ مخواہ تنگ بلکہ ان کے خلاف انتقامی کارروائی کرتی رہتی ہے بلکہ ہمارے معزز رہنماؤں کے اثاثوں پر بھی قرقی وغیرہ کے ذریعے قبضہ کر رہی ہے‘ حالانکہ آئین پاکستان کے مطابق ہر شہری اپنی استطاعت اور مرضی کے مطابق اثاثے بنا سکتا ہے‘ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ملک عزیز میں آئین پر بھی عمل نہیں ہو رہا۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
گھبرانے والے نہیں‘ ہمارے قائد نواز شریف ہی ہیں: مریم اورنگزیب
سابق وزیر اطلاعات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''ہم گھبرانے والے نہیں‘ ہمارے قائد نواز شریف ہی ہیں‘‘ اور اس کے باوجود کہ جو دن ہمیں دیکھنا پڑ رہے ہیں اس کی بڑی وجہ بھی نوازشریف ہی ہیں‘ ہم اُنہی کو اپنا قائد سمجھتے ہیں‘ اگرچہ اُن کے خلاف متعدد مقدمات اور بھی ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ جوں جوں ان کے خلاف مقدمات میں فیصلوں پر وہ مزید سزا یاب ہوتے رہیں گے تُوں تُوں وہ ہمارے مزید قائد بنتے جائیں گے جس کے بعد شہباز شریف‘ مریم نواز‘ حمزہ شہباز اور شاہد خاقان عباسی کی باری ہے کہ وہ بھی ہمارے قائد بن سکیں کیونکہ انہوں نے بھی ہمیشہ سرکار کے مہمان ہی رہنا ہے اور ہماری قیادت کرتے رہنا ہے کیونکہ اصل اور زیادہ جاندار قیادت جیل سے ہی ہو سکتی ہے؛چنانچہ اس بارے کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ فی الحال ہمارے قائد نواز شریف ہی ہیں اور اگر کوئی کہے تو لکھ کر دینے کو بھی تیار ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
درستی
برادرم آصف عفان نے آج اپنے کالم ''خدا کی بستی‘‘ میں کچھ اشعار درج کیے ہیں جن میں سے بعض محلِ نظر ہیں۔ مثلاً ایک مصرعہ ہے ؎
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے۔اس کے آخر میں لفظ ''ہیں‘‘ آتا ہے جس سے مصرعے کا وزن بھی پورا ہو جاتا ہے۔ ایک اور مصرعہ اس طرح سے نقل کیا ہے ؎
گلشن میں کوئی پھول‘ غنچہ نہ کلی ہے
یہ مصرعہ دراصل یوں ہے ؎
گلشن میں کوئی پھول نہ غنچہ نہ کلی ہے
ایک اور جگہ مصرعہ اس طرح درج کیا ہے ؎
کہاں لے آئے ہو رہبرو تم
یہ مصرعہ بھی بے وزن ہے، اس طرح لکھنے سے اس کا وزن پورا ہو جاتا ہے ؎
کہاں لے آئے ہو اے رہبرو تم
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
کاش میں اس خراب خانے سے
بچ نکلتا کسی بہانے سے
بڑھ گئی ہیں رکاوٹیں کیا کیا
ایک دیوار کے گرانے سے
آگ روشن نہیں ہوا کرتی
مُفت کی لکڑیاں جلانے سے
خامشی میں صدا دھڑکتی ہے
خواب جُڑتا ہے ٹوٹ جانے سے
کم نہیں ہو گی روشنی گھر کی
ایک دل کا دیا بجھانے سے
فیض پایا کسی نے تو آخر
تیرے بے فیض آستانے سے
خود ہی بن جائے تو یہ بن جائے
شعر بنتا نہیں بنانے سے
چُپ ہی رہنا ہے سر بسر ابلاغ
بات رہ جائے گی بتانے سے
کاٹنا بھی ہے یہ درخت‘ ظفر
ہے محبت بھی آشیانے سے
آج کا مقطع:
اک ندی بھی نکل سکی نہ ، ظفر
سات دریاؤں کے دہانے سے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved