دنیا میں جہاں جہاں استعمار نے جبر کا استعمال کیا وہاں وہاں اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور یہ اس کی جبلت میں شامل ہے کہ وہ غلامی کے خلاف مزاحمت کرے۔ کشمیر میں اس وقت مزاحمت کی طویل ترین تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔ یہ مزاحمت سیاسی اور عسکری‘ دونوں محاذوں پر جاری ہے لیکن مزاحمت کا ایک اور محاذ ادب کا ہے۔ ادب کو یوں تو روایتی طور پر محض خوشی اور مسرت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا‘ جسے پڑھنے والے اس سے حظ اٹھاتے تھے لیکن ماضی قریب میں ادب ایک اہم ہتھیار کے طور پر سامنے آیا ہے جسے ایک طرف سامراجی طاقتوں نے دوسری قوموں پر بالا دستی کیلئے استعمال کیا تو دوسری طرف آزادی کی جنگ لڑنے والوں نے اسے مزاحمت کیلئے استعمال کیا ہے۔
جب کشمیر میں ڈوگرہ راج نے مسلمانوں کا مذہبی اور معاشی استحصال شروع کیا تو مزاحمت کے پرچم یہاں وہاں بلند ہونے لگے۔ قدرت اللہ شہاب‘ جن کا اپنا تعلق بھی کشمیر سے تھا‘ 'شہاب نامہ‘ میں کشمیریوں کے معاشی استحصال کا بیان یوں کرتے ہیں ''کشمیری مسلمان دانۂ گندم کی تلاش میں اپنی جنتِ ارضی سے نکلنے پر مجبور تھا۔ سردیاں آتے ہی وہ گلمرگ، گاندھر بل، اچھابل، تراگ بل، بانڈی پور اور پان پور کے کوہساروں اور مرغزاروں سے نکل کر پنجاب کی دور دراز منڈیوں میں پھیل جاتے تھے۔ دن بھر غلے‘ لوہے اور کپڑے کی بار برداری کرتے تھے۔ بسوں اور تانگوں کے اڈوں پر سامان ڈھوتے تھے ۔ لکڑی کے ٹالوں پر لکڑیاں پھاڑتے تھے اور شام کو مرغی کے بچوں کی طرح چھوٹے چھوٹے گروہوں میں اکٹھے بیٹھ کر کچھ چاول اُبال لیتے تھے۔ خشکہ رات کو کھا کر کھلے آسمان تلے سو رہتے تھے۔ اور صبح اُٹھ کر رات کی بچی ہوئی پیچھ میں نمک ملا کر دن کا کھانا بنا لیتے تھے‘‘۔
علامہ اقبال کے آبائواجداد کا تعلق بھی کشمیر سے تھا۔ اقبال نے کشمیر کے مسلمانوں سے یکجہتی کیلئے عملی طور پر حصہ لیا وہ انجمن کشمیری مسلمانان کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ یہ 1921 کی بات ہے جب اقبال نے سری نگر میں ''ساقی نامہ‘‘ لکھا تھا۔ اس وقت مقامی ریشم بننے والوں کی کیا حالت تھی‘ اقبال کے اس شعر میں اس کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے:
بریشم قبا خواجہ از محنت او
نصیبِ تئش جامۂ تار تارے
)ترجمہ: مزدور کی محنت سے سرمایہ دار نے ریشم کی قبا اوڑھی ہوئی ہے اور مزدور کے اپنے حصے میں پھٹے پرانے کپڑے ہیں(
لیکن جب ظلم اور استحصال حد سے گزرنے لگتا ہے تو مزاحمت کے شعلے کی لو تیز تر ہو جاتی ہے۔ اقبال ''ملا ضیغم لوابی کشمیری کا بیاض‘‘ میں اسی طرف اشارہ کرتے ہیں:
گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھرتھراتا ہے جہانِ چار سوئے و رنگ و بو
کشمیر کی تحریک آزادی کے حوالے سے مختلف ادیبوں اور شاعروں نے اپنے اپنے طور پر لکھا ہے۔ اس میں راجند سنگھ بیدی کا افسانہ ''تعطل‘‘ نمایاں ہے۔ اسی افسانے کو بنیاد بنا کر عطیہ سید نے اپنا افسانہ ''تعطل کے بعد‘‘ تحریر کیا۔ افسانے کے کردار غلام رضا کی نظر سے کشمیر کے باسیوں کی ایک جھلک ''ہجوم میں پہلے ایک بھنبھناہٹ سی تھی۔ پھر وہ ایک لفظ کی صورٹ ڈھل گئی۔ وہ لفظ سینکڑوں انسانوں کے حلق سے ابھرا، ہونٹوں سے پھسلا اور فضا میں بلند ہوا۔ اس کی گھن گرج سے سری نگر کے در و دیوار لرزنے لگے... آزادی! ... آزادی!... سینکڑوں آوازوں کا کورس... سینکڑوں پائوں کا ردھم جس سے زمیں کی رگوں میں لاوا کھولنے لگا۔ اشفاق احمد کا افسانہ ''شازیہ کی رخصتی‘‘ کا موضوع ترقی پسند ادیبوں کی اکثریت کی کشمیر کے حوالے سے خاموشی ہے۔ افسانے کی مرکزی کردار شازیہ افسانہ نگار اشفاق احمد کو مخاطب کر کے کہتی ہے ''آپ تو بہت ہی دہشت زدہ انسان ہیں انکل کہ سوائے پاپولر موضوعات کے اور داد دلانے والے عنوانات کے اور کسی موضوع پر قلم ہی نہیں اٹھا سکتے۔ دراصل آپ کو نا مقبول ہو جانے کے خوف نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور آپ کوئی اصل اوریجنل اور طبع زاد بات کر ہی نہیں سکتے‘‘۔ تھوڑی دیر وہ محبت کے جذبات سے سرشار اسی طرح کھڑی رہی اور پھر کہنے لگی ''آپ کو اس بات کا خوف تو نہیں انکل کہ اگر آپ نے مظلوم کشمیریوں یا ستم رسیدہ افغانیوں کے حق میں کچھ لکھا تو لوگ آپ کو مذہب پسند سمجھنے لگیں گے؟ آپ کو کوتاہ نظر، کوتاہ بین، قدامت پسند اور بنیاد پرست کہہ کر روشن خیال دائروں میں آپ کا داخلہ بند کر دیں گے؟ High Minded Trend Setter سوسائٹی سے آپ پر رجعت پسند کا پکا اور پائیدار ٹھپہ لگوا کر آپ کو ادب کی وراثت سے عاق کر دیں گے؟ آپ اس لئے خوف زدہ ہیں بابا جان کہ آپ کو اس عمر میں بھی مقبولیت کے ساتھ جوانی والا عشق ہے‘‘۔ معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا افسانہ ''ٹیٹوال کا کتا‘‘ کا پس منظر بھی کشمیر کی جنگ ہے۔ نثری ادب میں کشمیر کے حوالے سے سب سے نمایاں کتاب محمود ہاشمی نے لکھی‘ جس کا نام تھا ''کشمیر اداس ہے‘‘ کتاب، جسے مصنف رپورتاژ کہتے ہیں، اپنے اسلوب اور گہرے مشاہدے کی وجہ سے ایک منفرد کتاب ہے۔ کتاب میں ایک کردار گارڈ کا ہے‘ جو وادی میں بھارتی فوج کی چیرہ دستیوں کا ذکر یوں کرتا ہے ''برف کا یہ سب تکلیف ہندوستان کے فوج کی وجہ سے ہے‘‘ ''وہ کیسے؟‘‘ میں اور اپورب دونوں چونک پڑتے ہیں اور ''عرض رپورٹ‘‘ کرنے والا ہوم گارڈ اب ایک بہت بڑے سیاست دان کی مانند اپنے چہرے کو بالکل غیر جذباتی بنائے بڑے سکون سے کہتا ہے ''صاحب! اس بانہال میں ہندوستانی فوج نے بہت ظلم کیا۔ پہلے جو پٹیالہ کا رجمنٹ تھا وہ مسلمان گھروں میں جا کے عورتوں کو بے پردہ کر دیتا تھا اور نشانہ پکا کرنے کے لئے ہر وقت راہ گزر لوگوں پر گولی چلاتا تھا اور اب جو ملٹری آیا ہے وہ شراب بہت پیتا ہے۔ ہر وقت نشہ میں گٹ رہتا ہے۔ پیر پنجال ان پر ناراض ہے اور اس نے ان کا اسی واسطے راستہ بند کر دیا ہے‘‘ اور پھر وہ دفعتاً جذباتی بن جاتا ہے ''ہاں‘۔ شیر کشمیر ہمارا مائی باپ ہے۔ مگر اس نے کیا کر دیا۔ وہ ان کو یہاں کشمیر میں کیوں لایا۔ اب ہمارا بھی راستہ بند ہو گیا ہے اور یہ پیر پنجال ابھی اور عذاب لائیں گا۔ توبہ توبہ صد بار توبہ‘‘۔
نثر کے مقابلے میں شعرا نے کشمیر کی جدوجہد کے بارے میں زیادہ لکھا۔ ان میں علامہ اقبال، جوش ملیح آبادی، حفیظ جالندھری، مجید امجد، احمد ندیم قاسمی، ظہیر کاشمیری، احمد فراز، جعفر طاہر، نعیم صدیقی، افتخار عارف ، احمد شمیم، امجد اسلام امجد، اختر عثمان، عائشہ مسعود ملک، جنید آذر اور آل عمران شامل ہیں۔ یہاں میں احمد فراز صاحب کا ذکر خصوصی طور پر کرنا چاہوں گا۔ بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گا کہ فراز صاحب خود بھی کشمیر کی جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ اس وقت ان کی عمر لگ بھگ سولہ سال ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے حوالے سے ان کی شاعری میں ایک خاص طرح کا جذبہ اور وارفتگی پائی جاتی ہے۔ کشمیر کی تحریکِ آزادی کے حوالے سے ان کی طویل نظم ''غنیم‘‘ سے ایک بند، جس میں کشمیری حریت پسندوں کی بہادری، عزم و استقامت اور اپنے ''مقصد سے لگن کی روشن تصویر نظر آتی ہے‘‘
میرے تن کے زخم نہ گِن ابھی
میری آنکھ میں ابھی نور ہے
میرے بازوؤں پہ نگاہ کر
جو غرور تھا، وہ غرور ہے
کشمیر کی جدو جہدِ آزادی کی تاریخ میں جب بھی بے مثال سیاسی اور عسکری مزاحمت کا ذکر آئے گا وہیں استبداد کے خلاف ادبی محاذ پر مزاحمت کرنے والوں کا تذکرہ بھی شامل ہو گا۔