حکومت نے کشمیر کا مقدمہ مضبوطی سے نہیں لڑا: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور ن لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت نے کشمیر کا مقدمہ مضبوطی سے نہیں لڑا‘‘ جبکہ ہمارے قائد نے یہ مقدمہ بہت مضبوطی سے لڑا‘ جس کیلئے مودی صاحب کو اپنی نواسی کی شادی میں شرکت کی دعوت دی اور کافی دیر تک ان کے ساتھ کشمیر کا مقدمہ لڑتے رہے۔اس کے علاوہ انہوں نے بھارت میں جندال وغیرہ کے ساتھ مل کر بزنس بھی کیا؛ حتیٰ کہ انہیں بھارت سے اتنی نفرت تھی کہ انہوں نے اپنی زبان سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا کبھی نام تک نہیں لیا۔ اس کے علاوہ وہ اکثر اوقات مودی جی کے ساتھ ٹیلی فون پر بھی کشمیر کی لڑائی لڑا کرتے تھے اور بھارت اسی لیے کبھی مذاکرات پر تیار نہ ہوا تھا کہ اسے یقین تھا کہ ہمارے قائد کی خدا داد ذہانت و فطانت کی وجہ سے وہ کشمیر کا مقدمہ ہار جائے گا‘ جبکہ اب وہ جیل سے بھی یہ مقدمہ زور و شور سے لڑ رہے ہیں اور خاندان کے دیگر افراد کو بھی اسی مقصد سے وہاں بلا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہاؤس سے باہر میڈیا کے نمائندوںسے گفتگو کر رہے تھے۔
مضبوط مسلم لیگ ہی پاکستان کی خوشحالی کی ضامن ہے: کامل علی آغا
نواز لیگ کے مرکزی رہنما کامل علی آغا نے کہا ہے کہ ''مضبوط مسلم لیگ ہی پاکستان کی خوشحالی کی ضامن ہے‘‘ کیونکہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہمارے قائدین کی خوشحالی ہی ملک کی مضبوطی کی ضامن ہے اور اگر ہمارے قائدین خوشحال ہوں تو ملک بھی مضبوط اور خوشحال ہوگا‘ بلکہ ان کیلئے دیگر معززین بھی ملک کو مضبوط کرنے اور خوشحال ہونے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے‘ جن سے حکومت رفتہ رفتہ اس مضبوطی کا حساب مانگتی رہتی ہے‘ جو کہ اس قدر بے حساب ہے کہ اس کا اندازہ خود ان شرفاء کو بھی نہیں ہے؛ چنانچہ جب سے ہمارے قائدین نے اندر ہونا شروع کیا ہے‘ اس سے ملک کی مضبوطی بہت متاثر ہوئی ہے ‘جبکہ عوام اُس مضبوطی کو یاد کر کے عبرت حاصل کر رہے ہیں ‘کیونکہ عبرت جہاں سے بھی مل سکتی ہو‘ حاصل کرنی چاہیے؛ بشرطیکہ وہ مفت مل رہی ہو۔ آپ اگلے روز لیبرونگ راولپنڈی کے کارکنوں کو عہدے سنبھالنے پر مبارک باد دے رہے تھے۔
کشمیریوں کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے: افضل کھوکھر
نواز لیگی رکن قومی اسمبلی ملک محمد افضل کھوکھر نے کہا ہے کہ ''کشمیری بھائیوں کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے‘‘ اور اس سے بھی زیادہ اپنے قائدین کے حالات دیکھ کر روتا ہے‘ جس سے آنسوؤں میں خون تو ختم ہو گیا ہے اور اب پھوکے آنسو ہی رہ گئے ہیں اور حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوتا ہے کہ اتنی خدمت کرنے کے بعد بھی وہ ایسے حالات سے دوچار ہیں اور اگر انہوں نے چار پیسے بنا ہی لیے ہیں تو کونسی قیامت آ گئی ہے کہ پیسے بنانے کیلئے ہی تو ہوتے ہیں ‘بلکہ ان کے پیسے تو اپنے آپ ہی بنتے جاتے تھے اور خود انہیں بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ کہاں سے اور کتنے آ رہے ہیں؛ ا لبتہ اب حکومت ان کا حساب کتاب لگا رہی ہے ۔ آپ اگلے روز رائے ونڈ میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
مفرور مگرمچھ
ایک اخباری اطلاع کے مطابق ‘کراچی کے ایک فارم ہاؤس سے سات مگرمچھ بھاگ نکلے۔ بارشوں کی وجہ سے فارم ہاؤس کی دیوار گر گئی تھی‘ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ وہاں سے کھسک لیے۔ وائلڈ لائف کے اہلکاروں کی مدد سے پانچ مگرمچھ تو پکڑ لیے گئے ہیں ‘جبکہ دو کی تلاش جاری ہے اور چونکہ بارشوں کی وجہ سے فارم ہاؤس سے باہر بھی پانی کی کمی نہیں ہے‘ اس لیے وہ کہیں بھی قیام کر سکتے ہیں‘ جبکہ پانی خشک ہونے کے بعد خود ہی برآمد ہو جائیں گے اور اگر یہ مگرمچھ کی بجائے اگرمچھ ہیں تو شاید ان کا سراغ کبھی نہ ملے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پانی کی فراوانی سے وہ لوگوں میں اس قدر گھل مل جائیں کہ لوگ خود بھی اُن سے جدا ہونے سے انکار کر دیں کہ پانی تو وہاں مستقل رہے گا؛ البتہ اس میں چونکہ گٹر کا پانی بھی شامل ہوگا ‘اس لیے مگرمچھوں کیلئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور اگر علی زین کی کوششیں رنگ لے آئیں اور پانی خشک ہو جائے ‘تو اس صورت میں مگرمچھ خود وہاں سے کوچ کرنے کو تیار ہو جائیں گے۔اور اب آخر میں ابرارؔ احمد کی نظم:
ایک چہرہ
میرے ماتھے کی چمک میں ہے
کسی اور زمانے کی جھلک
میرے ہونٹوں پہ لرزتے ہیں
کسی اور ہی دل کے نغمے
میرے کاندھے پہ چہکتے ہیں
کسی اور زمیں کے پنچھی
دُور افتادہ کسی بستی میں
بادلوں میں کہیں
برفیلی ہواؤں سے لرزتے ہوئے دروازوں تک
یاد کرتا ہے مجھے
ایک چہرہ کوئی میرے جیسا
یا پھر آنکھیں ہیں کوئی‘ گہرے سمندر جیسی
جن میں بہتا چلا جاتا ہے‘ وہ چہرہ
کسی ٹوٹے ہوئے پتّے کی طرح
یا وہ چہرہ ہے ‘کہیں مٹی میں
پاس آتا ہے‘ بلاتا ہے مجھے
مجھ سے ملتا ہے‘ نہ ملنے کی طرح
کسی آئندہ زمانے کی تھکن کے مانند
عہد ِرفتہ کی جھلک کی صورت
جانے اس چہرے کی پہچان ہے کیا
جانے اُس کا یا مرا نام ہے کیا؟
آج کا مطلع
اُس کو آنکھوں میں گھر بنا دیا ہے
اور‘ بارِ دگر بنا دیا ہے