تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     18-08-2019

عالمی سیاست کے بدلتے افق اور ہمارا قومی رویہ

انڈین پارلیمنٹ کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا تحفظ کرنے والے آئین کے آرٹیکل 370 اور35A کو ختم کر کے لداخ کو یونین کے تابع اور وادی کی خود مختار پوزیشن ختم کرنے کا معاملہ اس خطہ میں سیاست کی بدلتی حرکیات کا پتا دیتا ہے۔یہ پیش دستی فقط انتہا پسند ہندو قیادت کی سوچ کا شاخسانہ نہیں ‘بلکہ اس کے پیچھے ان عالمی طاقتوں کے وسیع تر مفادات کی خفیہ سکیم کارفرما ہو گی ‘جو جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو بدلنا چاہتی ہیں‘تاہم مودی نے صرف کشمیر کا آئینی سٹیٹس ہی نہیں بدلا ‘بلکہ بھارتی ریاست کی پوری نظریاتی اساس تبدیل کر ڈالی۔یہی تغیر اب جنوبی ایشیا کے معاشی و سیاسی مرکز‘ ہندوستان‘کے مستقبل کا تعین بھی کرے گا۔بھارتی رویہ میں یہ تبدیلی؛ چونکہ جنوبی ایشیا میں برپا عالمی طاقتوں کی پیکار سے جڑی ہوئی ہے۔اس لیے اسے عالمی تناظر سے جداکر کے سمجھنا مشکل ہو گا۔
بھارت کی طرف سے کشمیر جیسے بین الاقوامی طور پہ مسلمہ تنازعہ کو بلڈوز کرنے کی جسارت دراصل امریکہ کی جنوبی ایشیا پالیسی میں بڑی شفٹ کی تمہید نظر آتی ہے۔ اس سے نا صرف پاک و ہندکے سیاسی تمدن میں گہری تبدیلیوںکی راہ ہموار ہوگی‘ بلکہ انہی عوامل کے تال میل سے خطہ کے دیگر ممالک کے مفادات بھی متاثرہوں گے۔فی الحال کشمیریوں کے مستقبل بارے کوئی پیشگوئی کرنا تو ممکن نہیں ‘لیکن یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ اب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے والی بھارتی ریاست بتدریج استبدادی نظام کی طرف بڑھتی جائے گی اور انتہا پسندی اور دہشت گردی کا الزام پانے والا پاکستان‘ایک ساورن جمہوری ریاست بن کے ابھرے گا۔اگر ہم موجودہ حالات کو تقسیم ہند کے تاریخی تناظر میں رکھ کے دیکھیں توبظاہر یہی لگتا ہے کہ تقسیم ہند کے وقت ہندو اور مسلمانوں کے درمیان بھڑکنے والی کشیدگی کی لہریں ابھی تھمی نہیں اورشاید یہی جنونِ استرداد ہندوستان کو سیکولرجمہوریت ترک کرکے مذہبی انتہا پسندی کی راہ دِکھا رہا ہے۔
لیکن حالیہ تبدیلیوں کی وجوہ صرف مذہبی تضادات تک محدود نہیں ہیں‘ بلکہ حالات کی یہ غیر معمولی کروٹیں عالمی سیاست کے تقاضوں کی تکمیل سے منسلک ہیں۔یہ بات ریکارڈ پہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے وقت کانگریس کے لیڈرجواہرلعل نہرو نے برطانوی گورنمنٹ پہ واضح کردیا تھاکہ انڈین آرمی برطانیہ سمیت مغربی طاقتوں کے دفاعی معاہدات کا حصہ نہیں بنے گی۔شاید نہرو کے اسی موقف نے برٹش اسٹیبلشمنٹ کو ہندوستان کی تقسیم کی راہ دکھائی‘جب تک ہندوستان میں انڈین نیشنل کانگریس حکمراں تھی۔ اس وقت تک بھارتی سیاست پہ نہرو ڈاکٹرین کو بالادستی حاصل رہی اورحیرت انگیز طور پہ غیرجانبدارممالک سے وابستگی کے باوجود بھارت کے ساتھ دائیں اور بائیں بازو کی مغربی طاقتوں کا رویہ نہایت ہمدردانہ رہا۔دنیا نے حقیقی اولاد کی مانند انگلی پکڑ کے انڈین جمہوریت کی چلنا سیکھایا اور ہندوستان کی معاشی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی۔اس کے برعکس امریکہ سمیت مغربی اشرافیہ نے روزاول ہی سے پاکستان میںجمہوریت کی حوصلہ شکنی کرنے کے علاوہ یہاں کی اقتصادی ترقی کی رخ گردانی کر کے ہمیں معاشی خود مختاری‘جمہوری آزادیوں اورسیاسی حاکمیت کے حصول سے روکنے میں اپنا مفاد تلاش کیا‘ لیکن مغرب کی خودغرضانہ پالیسیوں کے باوجود یہاں ایک زبردست فوجی قوت ارتقاء پذیر رہی‘جو اس وقت نا صرف خطہ کی سیاست کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے‘ بلکہ ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے عالمی معاملات میں بھی اس کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔
امرواقعہ بھی یہی ہے کہ عالمی طاقتوں کے جنگی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر طویل مدت تک تازہ خون اور گرائونڈ فورسز کی فراہمی کیلئے یہاں نچلی سطح تک عسکریت پھلتی پھولتی رہی‘لیکن 1979ء میں افغان جنگ کے دوران جنرل ضیاء الحق نے غیر اعلانیہ انداز میں ایٹمی قوت حاصل کرنے کے علاوہ مغربی مفادات کیلئے کام کرنے والی کوآرڈی نیٹنگ آرمی کے تصور کو بدل کے دفاعی اداروں سمیت عسکری تنظیموں کو مخصوص نظریاتی اساس فراہم کر کے یہاں ایک مسلم نظریاتی محاذکھڑا کرنے میں کامیابی پائی۔ضیاالحق کی یہی جسارت پاک امریکہ تعلقات میں پہلی دراڑ بنی اور شاید یہی گستاخی ضیا الحق کو راستے سے ہٹانے کا سبب بھی بنی ہو۔بہرحال‘جنیوا معاہدہ کے ذریعے افغانستان کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنے‘طالبائزیشن اورنائن الیون کی آڑ میں 2001ء میں افغانستان پہ امریکی جارحیت اسی بنیادی پالیسی سے انحراف کا ردعمل تھی۔نان نیٹو اتحادی کا درجہ دے کر ہمیں نامطلوب جنگ میں گھسیٹنے کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما تھی کہ پاکستان کو سیٹو سنٹومعاہدات کی پرانی ڈگر پہ واپس لایا جائے‘ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہماری مقتدرہ میں قومی سلامتی سے متعلق اہم فیصلے خود کرنے کی صلاحیت بڑھتی گئی اور وہ امریکہ کی پروا کئے بغیر چین‘روس اور مڈل ایسٹ کے ساتھ آزادانہ تعلقات کی استواری کے ذریعے دفاعی و معاشی خودمختاری حاصل کرنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے لگی۔
دریں اثناء امریکہ مقتدرہ بھی پاکستان سے مایوسی کے بعد اسرائیل کی وساطت سے بھارتی سیاست میں ابھرتی ہوئی بھارتیہ جنتا پارٹی کی صورت میں ایک ایسی سیاسی قوت سے ہم آہنگ ہونے میں کامیاب ہو گئی‘ جو عالمی سیاست میں پاکستان کے بڑھتے ہوئے رسوخ اور فوجی طاقت سے خوفزدہ تھی؛چنانچہ ان حالات میں مودی انتظامیہ نہرو ڈاکٹرین کو پس پشت ڈال کے بخوشی انڈین آرمی کو امریکہ کی کوآرڈی نیٹنگ آرمی بنانے پہ تیار ہو گئی۔اس وقت امریکہ و ہندوستان کے درمیان تعاون کی اساس کوآرڈینٹنگ آرمی کا یہی تصور ہے‘جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارتی سیاست میں انتہا پسندی اورفوج کے اثر ورسوخ کوبڑھاتا جائے گا اور بہت جلد پنڈت جواہر لعل نہرو کا غیروابستہ‘سیکولرجمہوری ہندوستان مغربی استعمار کے مفادات کی خاطر اتھاریٹیرین رجیم میں بدل دے گا۔اسی عالمی تناظر میں ہماری داخلی سیاسی کشمکش بھی نئی راہیں متعین کرے گی؛اگرچہ بظاہر حکومت کی طرف سے نوازلیگ کی صف اول کی قیادت کی مشکیں کسنے اور قومی دھارے کے میڈیا میں اس کی آواز کو دبانے کی صورت مشرقی و مغربی سرحدات پہ برپا ہنگام میں ڈوب گئی‘ لیکن حیران کن طور پہ دن بدن بڑھتی ہوئی سیاسی مزاحمت کو کہیں نہ کہیں سے توانائی ضرور مل رہی ہو گی۔شاید عالمی ذرائع ابلاغ بھی بہت جلد یہاں جمہوریت کی پشت پناہی پہ اتر آئیں؛اگرچہ بظاہر اب بھی یہی لگتا ہے کہ ہماری منتخب لیڈر شپ ابھی ان تصورارت سے ہمیں نجات نہیں دلا سکتی‘ جس کی وہ خود اسیر رہی‘ لیکن حالات اب بدل رہے ہیں۔
تاہم اختیارات میں حصہ پانے کیلئے سیاستدانوں کوغیرمتزلزل عوامی حمایت اور وہ عقلی اہلیت حاصل کرنا پڑے گی‘ جو انہیں عالمی سیاست کے ابدی دھارے سے ہم آہنگ رکھ سکے۔حالات کی کوکھ سے پیدا ہونے والے ان مواقع سے نوازلیگ فائدہ اٹھا سکتی تھی‘ لیکن اس وقت صرف پیپلزپارٹی ہی وہ جماعت ہے ‘جو عالمی سیاست کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کہ ملک کے اندر سیاسی جوڑتوڑ میں اپنی راہیں متعین کرتی نظر آتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved