ہٹلر جیسا شخص‘ جو کسی کی تعریف کرنے میں انتہائی بخیل سمجھا جاتا تھا‘ جرمن قوم سے خطاب کرتے ہوئے ہمیشہ یہ فقرہ بولتا تھا ''ہر جرمن کو شکاری کتے سے بھی زیادہ تیز اور کرپس (Krupp) (جرمن Krupp‘ انگلش کرپس)کے سٹیل کی طرح مضبوط بننا ہو گا‘‘۔
قیام پاکستان کے بعد ملتان میں اسی کرپس فیملی کی مدد اور تعاون سے پہلی سٹیل مل لگانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ اس فیملی کی بنیاد1587 میں پڑی تھی۔ 400 برس پرانی کرپس فیملی دوسری جنگ عظیم سے پہلے بہت بڑی صنعتی ایمپائر بن چکی تھی۔ اس کے تیار کردہ ہتھیار پہلی اور دوسری عظیم جنگوں میں استعمال میں لائے گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد امریکہ اور تمام اتحادی ممالک نے کرپس پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے اسے جرمنی میں اپنی تباہ شدہ سٹیل مل کی بحالی سمیت سٹیل سے متعلق کسی بھی قسم کا پلانٹ لگانے یا کام کرنے سے روک دیا تھا۔ بعد میں اس کے افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا لیکن کچھ عرصے بعد امریکی مداخلت پر رہا کر دیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست سے قطع نظر اتحادی ممالک جانتے تھے کہ میدان جنگ میں کرپس کی سٹیل ملوں میں وہ تمام جنگی بحری جہاز، U Boats، آبدوزیں، ٹینک اور توپیں تیار کی جاتی ہیں جو جنگ کے دوران جرمن فوجوں کے استعمال میں آتی ہیں۔ یہ جنگی جہاز اور دوسرا ساز و سامان سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں تیار کیا جاتا تھا جبکہ بہت سے چھوٹے ہلکے اور خطرناک ہتھیار بھی انہی کے تیار کئے گئے ہوتے تھے۔ کرپس فیملی نے دوسری جنگ عظیم کے دوران سپلائی میں کمی نہ آنے دی۔ امریکہ کو کرپس فیملی کے سٹیل اور لوہے کے کام کا ذاتی تجربہ بھی تھا کیونکہ1929 میں امریکہ میں بچھائی جانے والی ریلوے لائن کیلئے 'کرپس سٹیل‘ کا لوہا ہی استعمال ہوا تھا۔ اس صنعتی ایمپائر کی وسعت کا اندازہ کرنے کیلئے یہی کافی ہے کہ 1887 میں ان کے پاس کام کرنے والے ملازمین کی تعداد 75 ہزار سے بھی زائد تھی۔
پاکستان بنتے کے بعد اس کو ملنے والی بیوروکریسی میں‘ چند ایک کو چھوڑ کر‘ اس نئے وطن کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا جذبہ موجزن تھا۔ ایسے ہی کچھ افسران نے 1956 میں کرپس کو کراچی آنے کی دعوت دی۔ جب وہ کراچی اترے تو اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا گیا اور دوران قیام ان سے پاکستان میں سٹیل مل لگانے کی درخواست کی گئی جسے انہوں نے بخوشی منظور کر لیا۔ سٹیل مل لگانے کیلئے مناسب جگہ کے انتخاب کیلئے کرپس مختلف مقامات کے دورے کرتا رہا۔ بالآخر اس نے سٹیل مل کیلئے ملتان کا حتمی طور پر انتخاب کیا‘ جس کیلئے کوئٹہ کا کوئلہ اور میانوالی کا خام مال استعمال ہونا تھا۔ کرپس کے ساتھ طے ہوا کہ سٹیل مل کیلئے مطلوبہ جگہ حکومت پاکستان فراہم کرے گی اور اس کے علاوہ اس کے منتخب کردہ ڈیزائن کے مطابق عمارت بھی تعمیر کر کے دے گی۔ اس تعمیر کے دوران ہی ملتان سے کوئٹہ اور ملتان سے میانوالی تک علیحدہ علیحدہ ریلوے لائن بھی بچھائی جائے گی‘ جن سے اس سٹیل مل کیلئے مطلوبہ سامان کی سپلائی ممکن ہو گی۔ معاہدے کے دوسرے حصے کے مطابق سٹیل مل کیلئے درکار تمام مشینری کی فراہمی کرپس کی ذمہ داری ہو گی۔ جیسے ہی اس معاہدے کا اعلان ہوا دشمن اور اس کے کارندے فوری طور پر حرکت میں آنا شروع ہو گئے‘ جنہوں نے کوششیں شروع کر دیں کہ کرپس کو پاکستان سے بھگا دیا جائے۔
میرے اس مضمون کا بنیادی مقصد آج کی نئی جنریشن کو یہ بتانا ہے کہ ان کے ملک کے ساتھ کس طرح کے کھلواڑ کئے گئے اور کئے جا رہے ہیں۔ اور یہ کہ ان کے مستقبل کن لوگوں نے تباہ کئے۔ ان کے ملک کا اقوام عالم میں ترقی یافتہ چہرہ کن لوگوں نے بگاڑا۔ 1956 میں جب اس سٹیل مل پر کام شروع ہونے لگا تو خفیہ ہاتھ حرکت میں آ گئے اور کراچی میں بیٹھے ہوئے اسی سرشت کے لوگوں کی جانب سے کرپس کو کہا گیا کہ دیکھئے آپ کام تو شروع کرنے جا رہے ہیں لیکن اگر آپ کا تیار کر دہ لوہا عالمی معیار کا نہ ہوا تو پھر؟ اس پر کرپس نے کہا کہ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہو گی‘ میں اسے اپنی ذمہ داری پر ایکسپورٹ کر دوں گا۔ لیکن وہ لوگ کب ہار ماننے والے تھے۔ کہنے لگے: یہ تو ٹھیک ہے کہ آپ اس کم معیار کے لوہے کو ایکسپورٹ کر دیں گے لیکن اس پر کوئلے اور خام مال کی صورت میں ہمارے اخراجات کا کیا ہو گا؟ اس پر کرپس نے تحریری طور پر لکھ کر دے دیا کہ اگر میرا تیار کردہ لوہا آپ کے معیار کے مطابق نہ ہوا تو اس پر آنے والی لاگت آپ کو انٹرنیشنل نرخوں پر ادا کرنے کا پابند ہوں گا۔
ان وطن دشمنوں نے جب دیکھا کہ کرپس تو ان کی ہر بات تسلیم کئے جا رہا ہے تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ اب کیا کریں؟ ان کے آقائوں نے نیا دائو پیچ سکھاتے ہوئے کرپس کو دوبارہ میٹنگ کیلئے بلا کر کہا ''دیکھیں جی یہ جو ملتان سے کوئٹہ اور میانوالی کیلئے نئی ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ ہمارے ذمہ کیا گیا ہے اس کیلئے فی الحال حکومت پاکستان کے پاس مطلوبہ رقم نہیں ہے‘‘۔
Krupp فیصلہ کر چکا تھا کہ یہ لوگ جتنی شرائط بھی بہانوں کی شکل میں سامنے لاتے جائیں گے میں چیلنج سمجھ کر انہیں منظور کرتا جائوں گا اور اپنے مخالفین اور اس چھوٹے سے نئے نئے آزاد ہونے والے ملک کی اقتصادیات کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کروں گا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ پاکستان کے حصے میں نہ تو کوئی سٹیل مل آئی ہے اور نہ ہی کوئی اسلحہ ساز فیکٹری جبکہ اس کے مقابل بھارت کے حصے میں 19 اسلحہ ساز فیکٹریاں اور چار سٹیل ملیں آ چکی ہیں۔ کرپس کے سامنے کوئی ایک سو برس پرانی جرمن فرم کی وہ رپورٹ بھی گھومنے لگی جس کے مطابق بلوچستان میں ہر قسم کی معدنیات کے بیش بہا ذخائر کی نشاندہی کی گئی تھی اور وہ جانتا تھا کہ امرتسر اور اس کے ارد گرد کے لوگ‘ جو اب گوجرانوالہ اور لاہور کے اضلاع میں آباد ہو چکے ہیں‘ بہترین کاریگروں میں شمار ہوتے ہیں۔ جیسے ہی کرپس کے سامنے ڈھیر ساری شرائط رکھ دی گئیں تو کرپس نے کھڑے ہو کر کہا: سٹیل ملز کیلئے بلڈنگ کی تعمیر کا بہانہ جو آپ نے مجھ سے بعد میں کرنا ہے اسے بھی اپنے خرچ پر تعمیر کروں گا اور ریلوے لائن کی تعمیر سمیت آپ کی باقی تمام شرائط بھی مجھے منظور ہیں۔
غالباً1980 کی بات ہے‘ مال روڈ پر الفلاح بلڈنگ کے پاس سے گزر رہا تھا تو مجھے بھارت سے آئے ہوئے کچھ سردار صاحبان نظر آئے۔ میں نے واپڈا ہائوس اور الفلاح بلڈنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: 'سردار جی پاکستان دی ترقی ویکھی جے؟ (سردار جی پاکستان کی ترقی دیکھی ہے؟) اس پر سردار جی کا دیا ہوا جواب مجھے آج بھی یاد ہے۔ وہ بولے ''ترقی تاں ہندوستان نے کیتی اے ساڈے مرسیڈیز بنتی ہے تسیں کی بناندے او؟‘‘ (ترقی تو بھارت نے کی ہے ہم مرسیڈیز بناتے ہیں‘ آپ کیا بناتے ہو؟) اس جواب نے مجھے اس وقت خاموش تو کر دیا لیکن جب کرپس اور ملتان میں لگنے والی سٹیل مل کی کہانی میرے سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ مرسیڈیز بھارت میں اس لئے تیار ہونے لگیں کہ کرپس بے چارہ پاکستان کے ایک وزیر کے اعتراضات اور شرائط کی ایک نئی فائل دیکھ کر بھاگ نکلا اور جیسے ہی وہ پاکستان سے بھاگا تو بھارت نے اسے یہاں سے نکلتے ہی پکڑ لیا اور پھر اس نے اڑیسہ میں سٹیل مل لگائی۔ بھارت میں کاروں، مشینری سمیت صنعتی ترقی میں اسی کرپس کا سب سے بڑا ہاتھ تھا۔ وہ وزیر تجارت جس نے کرپس کو پاکستان سے بھگانے میں اہم کردار ادا کیا اس کو بطور انعام بعد میں یونیسکو کا ڈائریکٹر لگا دیا گیا۔ کرپس نے میکسیکو میں رولنگ ملیں، مصر میں پیپر ملز، ایران میں فائونڈریز، یونان میں ریفائنریز، سوڈان میں ویجی ٹیبل آئل اور پراسیسنگ پلانٹس اور برازیل میں اپنی ذاتی سٹیل مل قائم کی اور پاکستان‘ جہاں اس نے سب سے پہلے قدم رکھا تھا‘ وہاں سے تائب ہو کر ایسا بھاگا کہ دوبارہ ادھر کا رخ ہی نہ کیا۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اگر کرپس کو پاکستان کے قیام کے ابتدا میں کام کرنے دیا جاتا تو آج ہم بھارت اور خطے کے کئی ممالک سے کئی گنا زیا دہ ترقی کر چکے ہوتے۔
کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے