قوم جو تاریخ کے دوراہے پر سوئی پڑی ہے۔شاید جاگ اٹھی ہے۔ شب بھر کا خمار اگرچہ باقی ہے ؎ نیند سے گو نماز بہتر ہے اثر خواب ہے اذاں میں ابھی اٹھ، اے انسانوں کے سمندر اٹھ‘ غفلت کی نیند سے اٹھ کہ آگ دہلیز سے دیوار تک آ پہنچی! ایک پسندیدہ غیر سیاسی پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے ہوٹل کے کمرے سے نکلا تو معلوم نہیں یکا یک طبیعت ماند کیوں ہوگئی۔اتنے میں برادرم علی عباس کا فون آیا ،ام البنین روتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی ہیں۔کپتان سٹیج پر بیٹھا تھا کہ بے ہوش ہوگیا۔ایک ہفتے میں پچاس اجتماعات سے جنگجو نے خطاب کیا۔بعض معاملات میں کس قدر عدم احتیاط ۔میانوالی کے ایک گائوں میں پانی کے گلاس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو حفیظ اللہ خان نے کہا : مت پیو گدلا ہے ، گائوں کے تالاب کا ۔بولا: نہیں تو سکنجبین ہوگی۔اس کے بعد احتیاط برتنے لگا۔دیکھا: میزبان سے فرمائش کرتا نہیں اور سفر میںپہروںپیاسا رہتا ہے۔ہم تو نلکے کا پانی پی لیتے۔ وہ صبر کا دامن تھامے رکھتا ۔کسی سے کہنا چاہیے کہ ہیلی کاپٹر اور گاڑی میں پانی کی بوتلیں رکھ چھوڑا کرے۔ اس کے بعض فیصلوں سے اختلاف ہوا مگر نیت پر شبہ ؟ بالکل نہیں۔فیصلوں پر تنقید کی ،اس کی ذات پر ہرگز نہیں۔تین دن تک میں پارلیمانی پارٹی کے ارکان اور حفیظ اللہ سے التجا کرتا رہا کہ جہلم میں نعیم عالم ، گجر خاں میں عظیم چودھری اور ملتان کے حلقہ این اے 177 میں رانا محبوب اختر اُجلے اور مقبول امیدوار ہیں۔اب بھی اپنی اس رائے پر میں قائم ہوں کہ وہ آسانی سے جیت سکتے اور پارٹی کے لیے نیک نامی کا باعث ہوتے۔المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور مذہبی اداروں سے ذہین اور صحیح لوگ گریزاں رہتے ہیں۔تحریک انصاف سے بھلے آدمیوں کو جوڑنے کی مقدوربھر میں نے کوشش کی۔گھبرائی ہوئی نون لیگ کے کارندوں اور بھاڑے کے دوسرے ٹٹوئوں کی طرف سے کردار کشی کی مہم کے خلاف کپتان کا دفاع کیا ،تو ہرگز اس پر کوئی احسان نہ کیا۔الحمدللہ تنقید کی تو وہ بھی اصلاح کی تمنا سے۔ رائے میری غلط ہوسکتی ہے اور اگرا یسا ہے توانتخابی نتائج سے آشکار ہو جائے گا۔یہ بات البتہ میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ڈوم ، میراثی اور بھانڈ کیوں چلاّ رہے ہیں۔شدید اختلاف کے باوجود کپتان ،تحریک کی پوری قیادت اور تمام کارکنوں کو تو اس ناچیز کی دیانت پر کبھی شبہ نہ ہوا ۔ عربوں کا محاورہ یاد آیا: آدمی خود کو دوسروں پر قیاس کرتا ہے۔ان کی بوکھلاہٹ کا بڑا سبب یہ ہے کہ بعض بڑی غلطیوں کے باوجود تحریک انصاف کے بہادر ، بے باک اور سچے کارکنوں نے چیلنج قبول کرلیا ہے۔سب سے زیادہ خود کپتان نے ۔اپنے خیرہ کن عزم اور ولولے سے ، ایک برقی لہر پشاور سے کراچی تک اس نے دوڑا دی ہے۔اب ان کے خواب پریشان ہیں۔وزیر ، سفیر اور سینیٹر بننے کے ۔بے چارے ذہنی غلام ، قلی اور مزارع ، غصہ نہیں ،ان پر ترس آتا ہے۔ تیس برس ہوتے ہیں ۔بے ریا سید فاروق گیلانی مرحوم نے ایک تحریر میں اپنے دوست جاوید ہاشمی کی ستائش کی تو ان کے گرامی قدر والد سید اسعد گیلانی ناخوش ہوئے۔خاکسار کو یاد کیا اور یہ کہا : اپنے دوست کو بتائو ، قلم کی تقدیس کیا ہوتی ہے۔اسے بتائو کہ لفظ کی حُرمت کا خیال رکھے۔اللہ اور اس کے سچے رسول ؐ کے سوا ، غیر مشروط تائید کسی کی نہیں کی جاسکتی۔ہم کس شمار قطار میں ،اقبال ایسے اخلاص کے پتلے نے قائداعظم سے اختلاف کیا تھا۔اختلاف الگ مگر مقصد میں شراکت داری اُسی خلوص ، اسی وفاداری کے ساتھ۔بِھک منگوں اور خانہ زادوں کو مگر یہ بات کون سمجھا سکتا ہے۔پارٹی الیکشن کا فیصلہ درست تھا یا نا درست ، اس کا وقت موزوں تھا یا ناموزوں ؟ آنے والا کل اس کا فیصلہ کرے گا۔جن چیزوں پہ طالب علم کو اصرار تھا ، اب بھی ہے۔مثال کے طور پر سپریم کورٹ کا فیصلہ صادر ہونے کے بعد، سمندر پار پاکستانیوں کے حق رائے دہی کے لیے تحریک برپا کی جاتی۔ایک اور بات لکھنے سے گریز تھا مگر اب لکھتا ہوں۔پروفیسر صاحب کو عملی سیاست سے ہرگز کوئی دلچسپی نہیں۔ان کے دو لاکھ سے زیادہ معزز، معتبر اور مقبول شاگردان گرامی کو بھی۔اس ناچیز کے پیہم اصرار پر مائل ہوئے۔میری آرزو تھی کہ سیاست کو چوروں اور ڈاکوئوں سے نجات دلانے کے لیے پوری طرح وہ متحرک ہوں۔ٹکٹوں کی تقسیم میںبے احتیاطی کے سبب یہ خواب پوری طرح متشکل نہ ہوسکا۔اس کا قلق ہے لیکن پھر یہ سوچا کہ اللہ کے ہاں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے ، پھر ڈھارس بندھی کہ اللہ کے فضل سے بیداری کی ایک بے کراں لہر اٹھی ہے۔پھر اللہ کے اس فرمان نے قوت بخشی کے بعض (بدنہاد) گروہوں کو بعض دوسرے (بدنہاد)گروہوں کے ذریعے نمٹا دیا جاتا ہے۔وہ نمٹ رہے ہیں۔پگھل رہے ہیں۔ایک پاگل پن ان پہ طاری ہے ۔ جیسے انہیں شیطان نے چُھو لیا ہو۔ یاد آکر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو سحر سانس لیتی تھی، جب اپنے کمرے میں واپس پہنچا، کہ ٹی وی پروگرام کے بعد کچھ باخبر لوگوں سے تادیر گفتگو رہی۔اس اطمینان کے ساتھ ، بستر پہ دراز ہوا کہ عہدِ آئندہ کا آغاز،نئی نویلی کرنوں کی نمود سے ہوگا۔کچھ دیر میں تصدیق ہوگئی جب ایک چمگادڑ کو چیختے سنا۔ اتنے میں خبر آئی، جس کا اندیشہ دل میں بہت دن سے دھڑک رہا تھا ۔ سید عباس اطہر اپنے اللہ کے پاس چلے گئے۔کیسا یکتا ، کیسا بہادر ، کیسا متحمل آدمی۔بیالیس برس ہوتے ہیں،ایک دن سو کر اٹھا تو ساتھ کے بستر پر کسی کو محو خواب پایا۔دل جیت آدمی جاگا اور یہ کہا : میرا نام عباس ہے ، تھک گیا تھا ، سعید اظہر مجھے تمہارے کمرے میں چھوڑگئے ، یہ ایک طویل رفاقت کا آغاز تھا ۔ملک کی اردو صحافت پہ تخلیق کار کے اثرات گہرے ہیں۔اس قدر وہ منفرد آدمی تھا کہ چند سطور میں احاطہ ممکن نہیں۔یوں بھی دل اس وقت غم سے بوجھل ہے۔ایک قول اس کا ہمیشہ یاد آتا ہے ، مرد اور گھوڑے کے پائوں پیٹ میں ہوتے ہیں ۔عمر بھر ریاضت کی ، عمر بھر اُفتادگانِ خاک پہ مہرباں۔آخری دن تک چہرے پر معصومیت ۔اس کا دکھ ا گر نہ رُلائے تو خدا نے دکھ کا یہ جذبہ آدمی کے پیکر میں رکھا کس لیے ہے؟ دستر خوانوں پر ریزہ چینی کرنے والے تو ادراک نہیں کرسکتے،مگر ایک اور اعتبار سے بھی یہ ایک سیاہ دن ہے۔میاں محمد نوازشریف نے ایک بھارتی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے جو کچھ ارشاد کیا ، اس پر کیا عرض کیاجائے؟ ان کی عقل کا ماتم ہے ۔ گویا یہ شخص اپنی قبر ہی کھودنے پر تُلا ہے۔ بھارتیوں کو اس پیشکش کا مطلب کیا کہ کارگل کی جنگ پر تحقیقات ہوگی تو بھارت کو اس کے نتائج سے آگاہ کیاجائے گا؟ بھارت کو کس لیے ؟ ایک بھارتی اخبار نویس کے ساتھ قومی سلامتی کے سنجیدہ معاملات پر ، اس بے تکلفی سے بات کرنے کا مطلب کیا ، جو صرف دوست ممالک سے روا رکھی جاتی ہے اور وہ بھی بند کمروں میں ۔ بار بار عرض کرتا ہوں ، امریکہ اور برطانیہ کے ایماء پر وجود پانے والے میثاقِ جمہوریت کی سترہویں شق کو یاد کیجیے۔لکھا ہے: (پاکستان دشمن )بھارت اور (امریکہ کے لے پالک) افغانستان سے ہر حال میں خوشگوار مراسم برقرار رکھے جائیں گے۔ ہر حال میں امن لازم ہے۔ امن ترجیح ہے۔ احمقوں اور جنونیوں کے سوا دو ایٹمی طاقتوں میں جنگ کا کون آرزومند ہوگا!۔ انکل سام کی خاطر اس لجاجت سے مگر امن کی بجائے بربادی حاصل ہوگی۔ قریش مکّہ کو پروردگارنے اپنے دو احسان یاد لائے۔ بھوک میں رزق دیا اور خوف میں امن ۔ امن مگر بھیک میں نہیں ملتا۔ دو برس ہوتے ہیں جب سیفما کے اجلاس میں بھارتی مہمانوں کی موجودگی میں انہوں نے ارشاد کیا تھا: ہندوئوں اور مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں۔ اسی زمانے میں قادیانیوں کو انہوں نے بھائی کہا۔ غیر مسلم کا قتل مسلمان کے قتل سے چھوٹا جرم ہرگز نہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے دمِ رخصت ان کے لیے فکر مندی کا اظہار کیا تھا۔ قادیانی مگر نوازشریف کے بھائی کیسے ہوگئے؟ عاصمہ جہانگیر نگران وزیراعظم کے لیے ان کی پسندیدہ امیدوار کیسے بن گئیں؟ پاکستانی جیل میں بھارتی قیدی کی ہلاکت پراس خاتون نے کہا: اسٹیبلشمنٹ کی اجازت اور اشارے کے بغیر یہ سانحہ کبھی نہ ہوتا۔ یقینا یہ ایک سانحہ ہے اور کوئی دل اگر اس پر دکھتا نہیں تو وہ دل نہیں ،پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو انہوں نے کیونکر ذمہ دار ٹھہرایا؟یہ تو بھارت کی بولی ہے ۔اس کے سوا دنیا کے کسی ملک نے یہ نہ کہا۔ جموں میں پاکستانی قیدی پر حملہ ہوا اور آخری اطلاع کے مطابق وہ زندگی ہار گیا ہے تو نوازشریف کی پسندیدہ لیڈرکو سانپ کیوں سونگھ گیا؟ نیند غائب، خیالات پریشان۔ قوم جو تاریخ کے دوراہے پر سوئی پڑی ہے۔شاید جاگ اٹھی ہے۔ شب بھر کا خمار اگرچہ باقی ہے ؎ نیند سے گو نماز بہتر ہے اثر خواب ہے اذاں میں ابھی اٹھ، اے انسانوں کے سمندر اٹھ‘ غفلت کی نیند سے اٹھ کہ آگ دہلیز سے دیوار تک آ پہنچی!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved