تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     20-08-2019

جنرل قمر جاوید باجوہ کا موجود رہنا ناگزیر ہے!

لکھنے کیلئے بہت کچھ ہے، بہت سے موضوعات۔ داخلی سیاست۔ احتساب کا جاری عمل۔ بہت سوں کی سیاست کے چراغ گل ہونے کو ہیں۔ یہ کہ آل پارٹیز کانفرنس میں بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کی عدم موجودگی محض اتفاق ہے یا پھر مولانا فضل الرحمان کے کمبل سے راہ فرار۔ زرداری صاحب کو بھی فریال تالپور کی ہمسائیگی میں اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا اور ان کی منتقلی کی وجہ سے نیب راولپنڈی اور اسلام آباد میں کافی جگہ خالی ہو گئی ہے‘ جہاں نئے مہمانوں کو رکھا جائے گا۔ کسی کو بھی سی پیک اور ملک کی خراب اقتصادی صورتحال کے پیچھے چھپنے کی اجازت نہیں ہو گی‘ نہ ہی مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے کسی ملزم‘ مجرم حوالاتی سے مدد مانگی جائے گی بلکہ خراب اقتصادی صورتحال سے بھی حکومت اور ان کے اتحادی ہی نبرد آزما ہوں گے اور مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور بھارت کے جارحانہ رویے سے بھی پاکستان کی سول اور عسکری قیادت اپنے دوست ممالک کی مدد، تعاون اور مشترکہ حکمت عملی سے ہی نمٹے گی اور یوں موجودہ سول و عسکری قیادت کی پارٹنرشپ جاری رہے گی۔ اس میں ہفتوں‘ مہینوں اور برسوں کی قید نہیں ہے‘ بلکہ ہمارے قواعد و ضوابط اس نوعیت کے ہیں کہ ان میں تمام مسائل کا حل موجود ہے اور وزیر اعظم کے بعض صوابدیدی اختیارات بھی ایسی ہی صورتحال کیلئے رکھے جاتے ہیں۔
اپنے صوابدیدی اختیارات میں سے ایک کو بروئے کار لاتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمرجاوید جاوید باجوہ کو مزید تین سال کیلئے آرمی چیف مقرر کر دیا ہے۔ ان کا نیا دور اس سال نومبر سے شروع ہو گا۔ اب وہ نومبر دو ہزار بائیس تک افواج پاکستان کے سپہ سالار کے فرائض سرانجام دیں گے۔ اس سے قبل ماضی قریب میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کو پیپلز پارٹی کی حکومت نے توسیع دی تھی۔ اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے یہ اختیار استعمال کیا تھا‘ جبکہ ماضی بعید میں جنرل وحید کاکڑ کو نواز شریف نے توسیع دینے کی پیشکش کی تھی لیکن بقول مجید نظامی صاحب مرحوم جنرل وحید کاکڑ کی بیگم نے اپنے شوہر کو توسیع نہ لینے کا مشورہ دیا تھا‘ جس پر انھوں نے معذرت کر لی تھی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ پونے تین سال بھرپور کام کیا۔ وہ فیصلے لینے میں دیر نہیں کرتے۔ انھیں پختہ فیصلہ کرنے والا سپہ سالار شمار کیا جاتا ہے۔ جنرل راحیل شریف کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے نئے آرمی چیف کا تقرر کرنا تھا۔ بحث چل رہی تھی اور جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف بننے یا بنائے جانے کی دوڑ میں شامل نہیں تھے۔ وہ پہلے تین جرنیلوں میں شامل بھی نہیں تھے۔ انہی دنوں جنرل قمر جاوید باجوہ کے ایک بیچ میٹ ریٹائرڈ میجر جنرل نے ان سے مذاق میں کہا کہ قرعہ آپ کے نام ہی نہ نکل آئے تو جنرل باجوہ نے بڑی بے تکلفی سے برجستہ جواب دیا: جہاں تک پہنچنا تھا‘ پہنچ گئے‘ میں آرمی چیف کی دوڑ میں شامل نہیں ہوں۔ لیکن چند روز بعد وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ہی آرمی چیف مقرر کر دیا‘ یوں یہ تاثر عام ہونے لگا کہ نواز شریف نے ایک جونیئر افسر کا انتخاب کر لیا ہے۔ تقرر سے پہلے ان کے بارے میں مربوط پروپیگنڈا بھی کیا گیا جو وقت نے غلط ثابت کر دیا۔ آرمی چیف مقرر ہونے کے بعد وہ وزیر اعظم ہائوس میں نواز شریف سے ملے ‘ انہیں سلیوٹ کیا اور کہا کہ آپ میرے باس ہیں‘ آئین اور قانون کے مطابق جو بھی حکم دیں گے اس پر من و عن عمل کیا جائے گا ''میں آپ کا ماتحت ہوں اور جناب وزیر اعظم آپ میرے باس ہیں‘‘۔
اس کے بعد بہت سے نشیب و فراز آئے۔ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے پانامہ کے مقدمے سے نکلنے کیلئے مدد مانگی اور کہا کہ پانامہ جے آئی ٹی میں شامل ایم آئی اور آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر بہت تنگ کر رہے ہیں‘ انہیں کنٹرول کریں‘ باقی جے آئی ٹی کو وہ سنبھال لیں گے‘ تو انہوں نے پیغام رساں سے کہا کہ پانامہ کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے‘ اس لئے وہ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ وزیر اعظم کو سلیوٹ کیا اور عرض کیا کہ جناب وزیر اعظم آپ میرے باس ہیں‘ میں آپ کا ماتحت ہوں‘ آپ آئین اور قانون کے مطابق جو حکم دیں گے اس پر خلوص نیت سے عمل کروں گا۔ 
جنرل باجوہ اور شاہد خاقان عباسی کے درمیان بہترین ورکنگ ریلیشن شپ قائم رہی۔ پھر دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کا دور آیا تو جنرل باجوہ پر بے پناہ بیرونی اور اندرونی دبائو تھا کہ شریف خاندان کیلئے کچھ آسانیاں پیدا کریں‘ لیکن وہ کسی دبائو کو خاطر میں نہ لائے اور اپنا کام جاری رکھا۔ عام انتخابات کے بعد عمران خان وزیر اعظم بنے تو جنرل باجوہ بطور سپہ سالار وزیر اعظم آفس میں حاضر ہوئے‘ وزیر اعظم کو سلیوٹ کیا اور ان کے سامنے بھی وہی الفاظ دہرائے جو اس سے پہلے وہ نواز شریف اور خاقان عباسی کی خدمت میںعرض کر چکے تھے۔ عمران خان صاحب نے کہا کہ جنرل صاحب امورِ مملکت چلانے میں آپ اور ہم پارٹنر ہیں۔ جنرل باجوہ نے بڑے ادب سے واضح کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم صاحب میں پارٹنر ہرگز نہیں ہوں‘ میں آپ کا ماتحت ہوں اور آپ میرے باس ہیں‘ آئین اور قانون کے تحت آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر۔ یوں جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر اعظم عمران خان کی پہلی آفیشل ملاقات اختتام پذیر ہوئی۔ اس دن سے لے کر آج تک عسکری اور سول قیادت کے تعلقات خوشگوار ہیں اور تمام فیصلے باہمی مشاورت سے ہو رہے ہیں۔ دونوں قیادتیں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔
اس وقت سب سے اہم موضوع ہے‘ مسئلہ کشمیر اور خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال ہے‘ جہاں کرفیو اور بھارتی فوج گردی تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے۔ مقبوضہ وادیٔ کشمیر کے شہری گزشتہ بہتّر سالوں کے بد ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ پوری مقبوضہ وادی کو جیل بنا دیا گیا ہے۔ دس لاکھ بھارتی فوجی ریاستی دہشتگردی کا عملی نمونہ بن چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی کوئی گلی‘ کوئی گھر ایسا نہیں جس کے باہر بھارتی فوجی دہشتگردی پھیلانے کیلئے موجود نہ ہوں۔ گھر گھر تلاشی کا سلسلہ جاری ہے۔ کشمیریوں کو شہید، زخمی کیا جا رہا ہے اور اے ایف پی، بی بی سی، سمیت دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ بتا رہے ہیں کہ اب تک پانچ ہزار سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
مقبوضہ وادی کے مکین تعلیم‘ صحت اور اب تو کھانے پینے کی بنیادی خوراک سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس بھی بتا رہی ہیں کہ غذائی قلت پیدا ہو چکی ہے اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے بھارت کے مقبوضہ کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے کیلئے آرٹیکل تین سو ستر اور پینتیس اے کی منسوخی کو بھارت کے وفاق کے بنیادی ڈھانچے، جمہوری آزادیوں کے خلاف اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیا ہے۔ اس بھارتی اقدام کیخلاف دنیا بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ آر ایس ایس اور مودی کے انتہا پسندانہ اقدامات نے بھارت کے اندر دوسری اقلیتوں یعنی سکھوں، عیسائیوں، دلتوں کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور یوں دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں میں مودی کو ہٹلر اور بی جے پی کو جرمن کی نازی فاشسٹ پارٹی سے تشبہیہ دی جا رہی ہے۔
لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور فوجی و عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی درخواست پر بہتّر گھنٹوں کے اندر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے انعقاد نے بھارت اور اس کے حواریوں کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے۔ بھارت نے سکیورٹی کونسل کا اجلاس رکوانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ حیلے بہانے، دھونس‘ دھمکی، تجارتی اور دفاعی سودوں کی بلیک میلنگ سمیت ہر حربہ استعمال کیا‘ لیکن وہ سکیورٹی کونسل کے اجلاس کو رکوانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ بھارت کو ایسے اقدامات پر اکسانے والوں نے بھی بھارت کی کھلم کھلا حمایت سے معذرت کر لی اور امریکہ، برطانیہ، چین، روس سمیت متعدد ممالک نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر کھلے عام تشویش کا اظہارکیا۔ سکیورٹی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس سے ایک روز پہلے بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ نے ایٹم بم استعمال کرنے کی دھمکی بھی دے دی (باقی صفحہ 11 پر )
اور دھمکی واضح کر رہی تھی کہ اگر سکیورٹی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس میں بھارت کو بند گلی میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی اور بھارت کے مفادات کا خیال نہ رکھا گیا تو پھر وہ ایٹمی جنگ کی طرف جائیں گے۔ بھارت کی دھمکی کام آئی اور سکیورٹی کونسل مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اوپن سیشن بلانے پر متفق نہ ہو سکی۔ لیکن پاکستان کی بہترین حکمت عملی‘ موثر خارجہ پالیسی اور چین جیسے قابل اعتماد دوست کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ نصف صدی کے بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں زیر بحث آیا‘ اور بھارت کی یہ کوشش کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے بری طرح ناکام ہوا۔ بھارت کو یہ شکست کیوں اور کیسے ہوئی؟ سول قیادت کی کوششیں تو ہمیں نظرآرہی تھیں لیکن عسکری قیادت جناب جنرل قمرجاویدباجوہ کی لیڈرشپ میں کی جانیوالی کوششیں سب کی نظروں سے اوجھل تھیں۔ یہ جنرل قمرجاوید باجوہ ہی تھے جنہوں نے خاص طورپر امریکہ کی عسکری قیادت کویہ باورکرایا کہ مسئلہ کشمیر پربھارتی یکطرفہ اقدامات کسی طور قابل قبول نہیں اور ہم ایٹمی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگربھارت کے جارحانہ اقدامات کاسلسلہ جاری رہا توافغانستان کاامن عمل نہ صرف متاثر ہوگابلکہ پوراخطہ جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ چین،برطانیہ اورروس کی عسکری قیادت کوبھی جنرل قمرجاویدباجوہ کی طرف سے خصوصی پیغامات پہنچائے گئے جس کے نتیجے میں پاکستان کوبڑی سفارتی کامیابی حاصل ہوئی۔ کشمیر کے معاملے پربھارت کے ساتھ تنازعہ مزید شدت اختیارکرے گا اوردوسری جانب افغانستان کے امریکی فوج کا انخلا اور افغانستان میں مستقبل کے سیٹ اپ میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ ایک طویل دورانیے کے تھکا دینے والے معاملات ہیں‘ جن میں جنرل قمرجاوید باجوہ کا موجود ہونا ناگزیر ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved