تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     20-08-2019

ویرانے میں بہار

آج کافی عرصے کے بعد محبی سرور سکھیرا کا فون آ گیا ع
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے۔
فارم ہائوس سے ماڈل ٹائون اپنی ہجرت کا بتایا تو بہت خوش ہوئے۔ تھوڑی گپ شپ کے بعد فون بند کیا تو ''دھنک‘‘ کے زمانے کی گویا ایک فلم چل پڑی۔ یہ ایک جہازی سائز کا ماہنامہ تھا جس میں ادب‘ سیاست‘ فلم اور سپورٹس وغیرہ سب کچھ تھا۔ یہ بات خالی از دلچسپی نہ ہوگی کہ سب سے پہلے میرا کالم ''دھنک‘‘ ہی میں چھپنا شروع ہوا اور سٹیشنری کے خرچے کے طور پر مجھے پچھتر روپے ملا کرتے تھے۔ وہ کالم کم اور مزاحیہ مضامین زیادہ ہوا کرتے تھے۔میرا مضمون یہاں چھپتا تو امریکہ میں مقیم ہماری بہن بشریٰ رحمن کے شوہر میاں عبدالرحمن وہاں ان کا انگریزی میں ترجمہ کر کے چھپوایا کرتے تھے۔بھٹو صاحب کے خلاف ہم نے نئی نئی بغاوت کر رکھی تھی اور ''دھنک‘‘ کا مزاج بھی اینٹی بھٹو ہی تھا اور بھٹو صاحب کا حکم تھا کہ ''دھنک‘‘ کا تازہ پرچہ ان کی میز پر ہونا چاہیے۔ اس کا سب سے دلچسپ صفحہ ''ان اینڈ آئوٹ‘‘ تھا جس میں سکھیرا حکومت کے اندر کی خبریں دیا کرتے تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ خبریں انہیں بیگم نصرت بھٹو مہیا کرتی تھیں۔ مضامین کے علاوہ ظاہر ہے کہ میری غزلیں بھی یہیں چھپتیں مثلاً غزل ؎
روٹی کپڑا بھی دے مکان بھی دے
اور مجھے جان کی امان بھی دے
اور
ہم نے جدوجہد کرنا تھی، ظفرؔ جن کے خلاف
وہ سبھی آ کر ہماری صف میں شامل ہو گئے
وغیرہ۔ لکھنے والوں کی ایک پوری کہکشاں وہاں جمع ہو گئی تھی جن میں حسن نثار‘ محمود احمد مودی اور ضیا ساجد نمایاں تھے۔ شاید نصرت جاوید بھی ہمارے ساتھ ہی تھے۔ پرچہ ویسے بھی سکھیرا کی شرارتوں سے بھرا ہوتا مثلاً انہوں نے ایک ایکٹریس کے ساتھ اپنی تصویر چھاپی جس کے نیچے کیپشن یہ لگایا:فرق صاف ظاہر ہے
انہی دنوں جب بھٹو صاحب کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس چل رہا تھا تو انہوں نے ایک شمارے میں یہ اشتہار لگایا:
''دھنک کا اگلا شمارہ جالندھر نمبر ہوگا‘‘
جبکہ چیف جسٹس انوارالحق کے علاوہ جنرل ضیا الحق اور پی ٹی وی کے چیئرمین ضیاجالندھری‘ سب جالندھر کے تھے۔ جالندھر نمبر تو کیا چھپنا تھا‘ بس ایک شرارت تھی۔
ایک موقعہ پر حسن نثار ناراض ہو کر دھنک سے الگ ہو گئے اور غالباً ''تصویر‘‘ کے نام سے اسی سائز اور طرح کا ایک اپنا پرچہ نکال لیا جو زیادہ دیر نہ چلا۔ حسن نثار انہی دنوں کراچی میں تھے کہ میں نے انہیں فون کیا‘ جس پر وہ بولے: ظفر صاحب میرے پاس اس وقت فلاں فلاں صاحب بیٹھے ہیں‘ ان سے پوچھ لیجئے گا کہ میں آپ کا فون سننے کے لئے کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا ہوں۔ وہ ان دنوں وہاں کسی چائے کمپنی کی مارکیٹنگ کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے اور اس کیلئے کسی لوگو کی تلاش میں تھے۔ چائے کا نام پوچھنے پر بتایا ''ریڈ لیبل‘‘ میں نے ذرا تؤقف کے بعد کہا لکھیے:
ریڈ لیبل کی چائے / ہر ٹیبل کی چائے
سرور سکھیرا نے دھنک کو خیرباد کہی تو کچھ عرصہ اسے ملتان کے ایک سید زادے چلاتے رہے۔ اس کے بعد برادرم مسعود اشعر نے بھی اس کے کچھ شمارے نکالے‘ لیکن اس میں وہ سرور سکھیرا والا مرچ مسالہ موجود نہ تھا‘ سو یہ یادگار رسالہ بند ہو گیا۔ میرے پاس دھنک میں شائع ہونے والے مضامین کا ریکارڈ نہیں ہے۔ اگر کسی صاحب کے پاس اس کی فائل موجود ہو اور وہ مہربانی کریں تو میں اپنے مضامین کی نقول حاصل کر لوں۔
دی فیمس رائے منظور ناصر اگلے روز آئے تو جنید سے ملنے کیلئے تھے‘ لیکن ملاقات اور تعارف نہ ہونے کے باوجود مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو یہ ہو بھی گئی۔وہ خود پی سی ایس تھے اور ڈی ایم جی والوں کے ساتھ حکومت کے امتیازی سلوک اور پی سی ایس کیڈر کی حق تلفیوں کے خلاف ایک محاذ انہوں نے قائم کیا اور ڈی ایم جی والوں کا پوچھل کافی عرصے تک اٹھوائے رکھا۔ پتہ نہیں اب کیا حیثیت ہے۔ آپ اَپ رائٹ اور دبنگ افسر ہونے کی خصوصی شہرت رکھتے ہیں اور پھر جنگِ آزادی کے ہمارے ہیرو رائے احمد خان کھرل کے قبیلے سے بھی ہیں۔ اپنی حرکات و سکنات کی وجہ سے کبھی حکومت کے منظورِ نظر نہیں رہے۔ انہوں نے بتایا کہ شریفوں کی حکومت آئی تو بہت جستجو کی گئی کہ ان کے خلاف کچھ نکل سکے‘ لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ وہ جہاں جہاں بھی اے سی‘ اے ڈی سی یا ڈپٹی کمشنر رہے وہاں اپنے ہرکارے بھیج کر تلاش کروائی گئی لیکن کچھ نہ ملا۔ انہی دنوں ٹریکٹر سکیم حکومت نے شروع کی جس میں درخواستیں طلب کی گئیں۔ ہر درخواست دہندہ کو فیس کے طور پر 250 روپے جمع کروانا تھے۔ ہزاروں درخواستیں موصول ہوئیں اور کچھ لوگوں کو وہ ریلیف ملا بھی ‘تاہم ایک کثیر تعداد محروم رہ گئی اور جن کے جمع کرائے گئے پیسے واپس کرنا تھے اور جس کی متعلقہ ڈپٹی کمشنروں کو ہدایت بھی کردی گئی لیکن اتنی تھوڑی رقم کی واپسی کیلئے زیادہ تر لوگوں نے رجوع نہ کیا اور وہ پیسے ڈی سی حضرات ڈکار گئے۔ حکومت کو خیال آیا کہ یہاں ہاتھ پڑ سکتا ہے۔آپ اس وقت کھاریاں میں تعینات تھے۔ رائے صاحب نے پہلے تو اخبار میں اشتہار دیا کہ متعلقہ لوگ دفتر آ کر پیسے لے جائیں ‘لیکن کوئی نہ آیا۔ انہوں نے اپنے تبادلے کے وقت تقریباً ڈیڑھ لاکھ کی وہ رقم اپنے پی ایس او کے سپرد کی اور ان سے رسید بھی حاصل کر لی۔ پی ایس او سے کہا گیا کہ تم بیان دے دو کہ تمہیں وہ پیسے دئیے ہی نہیں گئے ‘جس پر وہ بولا کہ آپ مجھے کھمبے کے ساتھ باندھ کر جتنے مرضی جوتے لگا لیں میں ان پر تہمت نہیں لگائوں گا! جبکہ وہ پیسے تو میں کھا گیا ہوں!
آج کا مقطع:
عمر کی آخری مہلت بھی گزاری ہے، ظفر
ان اندھیروں پہ کسی خواب کو لہرانے میں

 

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved