کامیابی کسے ملتی ہے؟ کسی سے بھی پوچھ دیکھیے‘ پلک جھپکتے میں جواب مل جائے گا۔ جواب کیا ہوگا؟ یہی کہ کامیابی محنت کرنے والوں کو ملتی ہے۔ بات درست ہے ‘مگر مسئلہ یہ ہے کہ محض کہہ دینے سے کوئی بات یا حقیقت کہاں بیان ہو پاتی ہے۔ ہر معاملہ چاہتا ہے کہ اُسے اُس کی اصل کے ساتھ سمجھا اور پرکھا جائے۔
ہم جس ماحول میں جی رہے ہیں اُس میں ناکام افراد اور گھرانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کی تعداد اس لیے زیادہ ہے کہ کامیابی کے لیے جو کچھ لازمی قرار پاچکا ہے وہ کم ہی لوگ کر پاتے ہیں۔ ناکامی کی طرف لے جانے والے راستے بے حساب ہیں۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ناکامی کی طرف جانے والے راستوں کو اچھی طرح جانتے ہوئے بھی لوگ اُن پر چلنے سے باز نہیں آتے اور کامیابی کی طرف لے جانے والی ہر راہ کو شناخت کرلینے کے بعد بھی اُس پر گامزن رہنے کا نہیں سوچا جاتا۔ بھرپور کامیابی صلاحیت اور سکت دونوں کی بھرپور آزمائش چاہتی ہے۔ ہم کامیاب افراد کو دیکھ کر خوش تو بہت ہوتے ہیں اور وقتی طور پر تحریک بھی پاتے ہیں مگر اس حوالے سے کچھ کرنے کا ذہن نہیں بنا پاتے۔ بات سیدھی سی ہے‘ کسی بھی حوالے سے تحریک پانے اور عمل کی دنیا میں قدم رکھنے میں بہت فرق ہے۔ بہت سے کامیاب افراد کو دیکھ کر انہی کی طرح کامیاب ہونے کا سوچتے ہیں مگر یہ محض وقتی معاملہ ہوتا ہے۔ فلم یا کھیلوں کا کوئی مقابلہ دیکھ کر ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ کرنے کی تحریک بھی پاتے ہیں‘ مگر یہ شعلہ کچھ ہی دیر میں بُجھ جاتا ہے۔ فلم کے ہیرو کی طرح بہت کچھ کرنے کی خواہش ہمارے دلوں میں بھی انگڑائیاں لیتی ہے‘ مگر جب ہم عمل کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تب اندازہ ہوتا ہے کہ سینما کی سکرین پر دکھائی دینے والی مفروضے پر مبنی دنیا اور حقیقت کی دنیا میں بہت فرق ہے۔ جو اس فرق کو نظر انداز کرکے خوش فہمی کی دنیا میں زندہ رہتے ہیں وہ ناکامی سے دوچار بھی رہتے ہیں۔
زیادہ دور نہ جائیے‘ اپنے قریب ترین یا بنیادی ماحول ہی پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ بھرپور کامیابی بالعموم اُنہی کو ملتی ہے جو تواتر سے محنت کیے جاتے ہیں اور اس راہ پر اُن کے قدم ڈگمگاتے نہیں۔ کامیابی کے لیے باصلاحیت ہونا بھی شرط ہے‘ مگر صلاحیت کے حوالے سے پائی جانے والی کمی یا خامی کو دور کرنے میں محنت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ کسی بھی ماحول میں انہیں زیادہ پسند کیا جاتا ہے جو محنت کرتے ہیں۔ کسی بھی بستی میں چند گھرانے زیادہ خوش حال ہوتے ہیں اور اُن کا ہر انداز نرالا ہوتا ہے۔ وہ سب کی نظر میں رہتے ہیں۔ اُن سے حسد کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں اور کچھ کرنے کی تحریک پانے والے کم۔ کامیابی اپنے ساتھ بہت کچھ لاتی ہے۔ بہت سی اچھی باتوں کے ساتھ کامیابی کے پہلو بہ پہلو ایک بُری بات یہ ہوتی ہے کہ اس کے نتیجے میں انسان میں تھوڑی سی اکڑ بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ بھرپور محنت کے بعد کامیابی سے ہم کنار ہونے والوں میں تھوڑی سی اکڑ کا پایا جانا فطری امر ہے کیونکہ دوڑ میں دوسروں سے آگے نکلنے کے لیے انہوں نے
دوسروں سے بڑھ کر محنت کی ہوتی ہے۔ دوسروں کو پیچھے چھوڑنے کی صورت میں اُن کا کچھ الگ دکھائی دینا فطری ہے۔ ہاں‘ اکڑ بڑھتے بڑھتے تکبّر یا گھمنڈ کی شکل اختیار کرلے تو نفسی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بہر کیف‘ بات ہو رہی تھی دوسروں سے زیادہ محنت کرنے کی۔ اگر آپ مشاہدے کے لیے زیادہ دور نہیں جاسکتے تو اپنے علاقے میں اُن گھرانوں کو دیکھیے جو دوسروں سے کہیں زیادہ کامیاب ہیں اور کامیابی کی راہ پر بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ ذرا غور سے دیکھنے اور معاملات کا جائزہ لینے پر آپ اندازہ لگا پائیں گے کہ کامیاب گھرانے وہی ہیں جو اوروں سے زیادہ محنت کرتے ہیں اور اس راہ پر گامزن رہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔
پاکستانی معاشرے میں واضح اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو بھرپور کامیابی کے لیے نصیب کے یاور ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اُن کی نفسی ساخت میں یہ بات گڑ چکی ہے کہ کامیابی بہت حد تک نصیب کا معاملہ ہے۔ وہ اپنی صلاحیت کو محنت سے ضرب دے کر زندگی کا حساب کتاب اپنے حق میں کرنے پر اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ حالات کے پلٹا کھانے کا انتظار کریں۔ دنیا بھر میں لاٹری کے ٹکٹ خریدنے والے کروڑوں ہیں۔ پس ماندہ اور ترقی پذیر ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی بڑی تعداد میں لوگ لاٹری کے ٹکٹ خریدتے ہیں تاکہ راتوں رات سب کچھ بدل جائے‘ سارے دَـلدّر دور ہو جائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جن کی لاٹری نکل آتی ہے اُنہیں سارے ارمان نکالنے کا موقع مل جاتا ہے‘ مگر اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ لاٹری کے ٹکٹ خریدنے والے ہزاروں‘ بلکہ لاکھوں افراد سے چند ایک ہی کو اتنا زر ملتا ہے کہ زندگی کا رُخ بدل سکیں! باقی سب تو صرف خواب ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
جو لوگ کامیابی کے معاملے میں نصیب کی یاوری پر یقین رکھتے ہیں وہ بالعموم اس دنیا سے ناکام جاتے ہیں۔ حالات کی مہربانی سے چند ایک افراد کو کامیابی مل بھی جائے تو اُسے حقیقی مفہوم میں کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس حقیقت کو کم ہی لوگ سمجھ پاتے ہیں کہ صورتِ حال میں رونما ہونے والی موافق تبدیلی یعنی نصیب کی یاوری سے جو مل جاتا ہے وہ اصلاً کامیابی نہیں۔ اگر کسی کو اچانک ورثے میں کچھ دولت مل جائے تو اُسے کامیابی قرار دینا درست نہیں۔ کامیابی زندگی میں رونما ہونے والی وہ مثبت و موافق تبدیلی ہے جو ہماری محنت کا نتیجہ ہو۔ اپنی محنت کے نتیجے میں انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے اُس کی قدر بھی کرتا ہے اور اُس پر فخر بھی کرتا ہے۔
حالات میں کسی موافق تبدیلی کے رونما ہونے کا انتظار کرنے والوں کو یہ نکتہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ نصیب کی اگلی نسل نہیں ہوتی جبکہ محنت کا پورا خاندان‘ بلکہ قبیلہ پایا جاتا ہے! نصیب اگر یاوری کرتا بھی ہے تو ایک آدھ بار اور اُس کے مہربان ہونے کا انتظار کرنے والوں کو بھی پورا یقین نہیں ہوتا کہ وہ مہربان ہوکر ہی رہے گا۔ دوسری طرف محنت کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ حالات پر نظر رکھتے ہوئے‘ جامع منصوبہ سازی کے ساتھ کی جانے والی محنت رنگ لاتی ہے‘ کچھ نہ کچھ دے جاتی ہے۔ جن گھرانوں کو ہم کامیابی کے حوالے سے جانتے ہیں انہیں دراصل محنت کے حوالے سے جاننا چاہیے۔ یہ محنت ہی ہے جس کا تواتر کامیابی کا تسلسل یقینی بناتا ہے۔ نصیب اولاد چھوڑ کر نہیں جاتا جبکہ محنت کی نسلیں آتی رہتی ہیں۔
جو لوگ بھرپور کامیابی کے لیے محنت کے بجائے صرف نصیب کی یاوری کے منتظر رہتے ہیں انہیں اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ محض لاٹری کا ٹکٹ خرید لینے سے کبھی کچھ ایجاد ہوا ہے نہ دریافت۔ دنیا اگر بدلی ہے تو صرف محنت کرنے والوں کے دم سے۔ اس دنیا کو غیر معمولی پیش رفت سے ہم کنار انہوں نے کیا ہے جو محنت کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے رہے ہیں۔ تمام محنت کرنے والوں کو پورا صِلہ مل پاتا ہے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ساری رونق محنت کے دم سے ہے۔ نصیب کی راہ دیکھنے والوں کی اکثریت ناکامی کا منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔