تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     21-08-2019

پہلا سال

عمران خان صاحب کی حکومت ایک سال بعد بھی وہیں کھڑی ہے جہاں سے چلی تھی۔ پہلے دن بھی اس کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے، اسے آج بھی ملکی مسائل کا ادراک نہیں۔ پہلے دن جو نا تجربہ کاری معلوم ہوتی تھی، تین سو پینسٹھ دن گزرنے کے بعد نالائقی ثابت ہو رہی ہے۔ پاکستان کی بہتّر سالہ تاریخ کسی شک و شبہ کے بغیر حکومتی نالائقیوں کی عظیم داستان ہے‘ لیکن یہ حکومت تو ایسی ہے کہ اس کی نا اہلی کے اظہار کے لیے ہر لفظ بے معنی معلوم ہوتا ہے۔ اگر ٹی وی نہ ہوتا اور وزرا کو لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا سنا نہ ہوتا تو یقین مانیے کوئی بھی قابل اشاعت پیرایہ ان کی کیفیت بیان نہ کر سکتا۔ ایسا لگتا ہے سکول کے بچے تفریح کرنے اسلام آباد آن براجے ہیں اور حکومتی دفتروں میں گھس کر سرکاری کاغذوں کی کشتیاں اور جہاز بنا بنا کر خوش ہو رہے ہیں۔ کوئی وزیر کی کرسی پر بیٹھ کر تصویر بنواتا ہے تو کوئی مائیک پکڑ کر حلق سے طرح طرح کی بے معنی آوازیں نکال کر داد کا طالب ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور دو چار وزرا کو چھوڑ کر امیر ماں باپ کے ان بچوں کا اتنا بھی ذوق نہیں کہ چلو شرارت میں ہی کوئی ندرت پیدا کر لیں۔ ہونا ہوانا ان سے کیا ہے، ذرا سمجھداری کی بات ہی کر لیں تو کافی ہے۔ لیکن نہیں۔ یہ لوگ اتنا بھی نہیں کر سکتے۔ یہ وہ ہیں کہ چلے گئے تو انہیں کوئی پوچھے گا بھی نہیں لیکن ان کی دھماچوکڑی اس تاریخ کو برباد کر ڈالے گی‘ جو عمران خان صاحب نے بائیس برسوں میں اپنی محنت سے لکھی ہے۔ یہ وہ طفیلیے ہیں جو عمران خان صاحب کی کمائی پر عیاشی کر رہے ہیں۔ ان نکھٹو دامادوں کی طرح جو شریف اور کھاتے پیتے گھروں کی لڑکیوں سے شادی کرکے ساری زندگی سسرال پر بوجھ بنے رہتے ہیں۔ کیا محترم عمران خان اپنے ارد گرد موجود ان لوگوں سے جان چھڑا پائیں گے یا اپنی عمر بھر کی پونجی لٹنے کا تماشا دیکھتے رہیں گے؟ 
خوش گمانی یہ ہے کہ عمران خان صاحب زیادہ دیر تک نالائق خوشامدیوں کی یہ بے ڈھنگی سرکس برداشت نہیں کریں گے۔ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ اب سوال ان سے کارکردگی کا ہو گا، سابقہ حکومتوں کی کرپشن کی کہانیوں کے بارے میں نہیں۔ اپنے سے پہلے والوں کو کوس کوس کر انہوں نے ایک سال گزار لیا یا یوں کہیے کہ وزرا کی نا اہلی پر پردہ ڈالے رکھا۔ اب ایک سال بعد وہ ساری خرابی کی ذمہ داری ماضی پر نہیں ڈال سکتے۔ انہیں اپنی صفوں میں دیکھنا ہو گا‘ جہاں انہیں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جو ان کی امیدوں یا کارکردگی کے کم از کم معیار پر پورا اترا ہو۔ ان کی ٹیم کی حالت یہ ہے کہ جسے بجلی کا کام سونپا وہ بجلی چوری میں کمی نہیں کر سکا۔ جسے تیل و گیس کا قلمدان دیا، وہ پہلے سے زیادہ نقصان کر رہا ہے۔ جس کے ذمے بندرگاہوں کی ترقی لگائی تھی اس کو خود ہی کراچی کے نالے صاف کرنے بھیج دیا کہ بندرگاہیں اور جہاز رانی اس کے بس کی بات نہیں۔ حق یہ ہے کہ کراچی کے نالوں کی صفائی بھی ان صاحب کی بساط سے باہر ہے۔ جس کے ذمے آبی وسائل لگائے تھے اس کھلنڈرے کے بارے میں اب پتا چلا ہے کہ اسے سوائے موٹر سائیکل اور گاڑی چلانے کے کوئی کام نہیں آتا۔ جس کو ریلوے دی تھی وہ سوائے لا یعنی باتیں بنانے کے کچھ نہیں کر سکتا۔ جس پر بیوروکریسی کے بارے میں اعتماد کیا تھا وہ چند ایسے سرکاری افسر بھی نہیں ڈھونڈ سکا جو حکومتی پالیسیوں پر ہی عمل درآمد کرا سکیں۔ مبلغ نتیجہ ان تمام نابغوں کی یلغار کا یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک میں معاشی اور انتظامی بحران سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ خود وزیر اعظم بھی ان سے تنگ آ چکے ہیں اور اپنے وزرا کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جس کا کم از کم نتیجہ کچھ وزرا کے قلمدانوں میں تبدیلی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ 
وزرا کے قلمدانوں میں تبدیلی چہار سو چھائی نالائقی کا علاج شاید اب نہیں رہی۔ اس کا مداوا عمران خان صاحب کو اپنی صاف ذہنی سے کرنا ہو گا۔ ان کا اب تک مسئلہ یہ رہا ہے کہ انہیں اپنے ارد گرد سے الجھا دینے والے مشورے مل رہے ہیں۔ بھانت بھانت کی ان بولیوں کو سن کر بڑے سے بڑا سیاستدان بھی فکری الجھاؤ کا شکار ہو جائے گا۔ کوئی انہیں احتساب پر ڈٹ جانے کا مشورہ دے رہا ہے تو کوئی درخت لگانے کو ہی سب کچھ بنا کر پیش کرتا ہے۔ انہیں یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ جنابِ وزیر اعظم! معیشت حکومت کی اولین ترجیح ہوا کرتی ہے، باقی کام اس کے بعد آتے ہیں۔ ان حالات میں ان کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے کم از کم معیشت کی اوپر کی سطح پر کچھ نظم و ضبط پیدا کر لیا ہے، لیکن یہ سب کچھ صرف اور صرف آئی ایم ایف کی پالیسی کی بدولت ممکن ہو سکا ہے۔ اب انہیں یہ سمجھنا ہے کہ حکومت کو معاشی طور پر مزید بھی کچھ کرنا ہے، مگر یہ کام ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ یا رضا باقر صاحب نہیں کر سکتے۔ یہ دونوں منشیوں کی طرح حساب کتاب تو سیدھے کر سکتے ہیں‘ کاروبار چلانا ان کے بس سے باہر کی بات ہے۔ اس کے لیے انہیں خود میدان میں آنا ہو گا۔ وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک‘ جو انہیں روزانہ بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس پیسہ نہیں، سرے سے یہ جانتے ہی نہیں کہ حکومت کا کام کاروبار کو پیسہ دینا یا اس میں پیسہ لگانا نہیں بلکہ پالیسی بنانا اور مدد دینا ہے۔ حالت یہ ہے کہ وہ پالیسیاں جو ڈھنگ کے آدمی مل جانے پر چند دنوں میں بن سکتی تھیں، ایک سال بعد بھی نہیں بن پائیں۔ کئی سادہ سے کام ایسے ہیں کہ چھ مہینے پہلے ہو جاتے تو آج ان کے نتائج ہمارے سامنے آ رہے ہوتے مگر نہیں ہوئے۔ اس فضا میں آج بھی عمران خان معاشیات سے متعلق صرف دو کام اپنی فہرست میں رکھ لیں تو حکومتی مشینری کو سمت مل جائے گی۔ وہ دو کام ہیں، بند ہوتے ہوئے کارخانوں کو چلانا اور نئے کارخانے لگانا۔ 
پہلے سے موجود کارخانے اس لیے بند ہو رہے ہیں کہ ان میں سے بیشتر کا انحصار صرف اور صرف حکومت سے ملنے والی امداد پر تھا۔ مثلاً دھاگہ بنانے والے کارخانے دو ڈالر سبسڈی لے کر ایک ڈالر کی برآمد کر کے سالہا سال سے معیشت کا تباہ کیے جا رہے تھے۔ اب یہ کام ختم ہوا ہے تو وہ بھی بند ہو کر رہ گئے۔ ایسے میں ضروری تھا کہ حکومت میدان میں آتی اور دھاگہ بنانے والے چھوٹے چھوٹے کارخانوں کو آپس میں ملا کر بڑے بنانے میں مدد دیتی تو یہ بند نہ ہوتے۔ اس کو یوں سمجھیے کہ ایک آدمی نے پچیس پچیس ہزار تکلوں کے چھ کارخانے لگا رکھے ہیں جو سبسڈی پر چل رہے تھے۔ اگر ان چھ کارخانوں کی مشینری کو ملا کر ڈیڑھ لاکھ تکلوں کی ایک ٹیکسٹائل مل لگ جائے تو ملکی پیداوار وہیں رہے گی اور سبسڈی کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔ اب کام صرف یہ تھا کہ چھوٹی ٹیکسٹائل ملوں کے مالکان کو پیار محبت کے ساتھ تھوڑی سی مدد فراہم کرکے نئے ماحول میں کام کرنے کے لیے تیار کیا جاتا۔ صنعتی شعبے کو سمجھنے والا کوئی ایک شخص بھی کابینہ میں ہوتا تو معاملات ٹھیک ہو جاتے۔ اب ملکی پیداوار گر رہی ہے لیکن وجہ کسی کو معلوم نہیں۔ اسی طرح نوجوانوں کو نئے کاروبار کی طرف راغب کرنے کے لیے رعایتی نرخ پر قرضے دینے تھے کہ وہ مقامی مشینری سے کارخانے لگائیں۔ اس طرح پہلے سے موجود کارخانوں کا کاروبار بھی چلتا، نئی صنعت لگتی اور روزگار بھی ملتا۔ اس سکیم پر سرکار کو شرح سود پر رعایت کی مد میں پانچ سال میں تیس پینتیس ارب روپے خرچ کرنے تھے لیکن یہ سادہ سی سکیم بھی اس حکومت میں بیٹھے نام نہاد ماہرین کو سمجھ نہیں آ رہی۔ اسی طرح زراعت، خدمات اور دوسرے شعبوں میں چھوٹی چھوٹی اصلاحات کرکے ملکی معیشت کا راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کوئی بھی وزیر اعظم تنہا یہ نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے انہیں ماہر لوگوں کی ضرورت ہے۔ عمران خان صاحب کا المیہ یہ ہے کہ ان کے ارد گرد صرف نالائق ہیں۔ جن کا نہ ہونا، ہونے سے کہیں بہتر ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved