پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ مزید تین سال کمان سنبھالے رکھیں گے۔ حکومت کے اس فیصلے سے ایک ایسی بحث کا خاتمہ ہو گیا ہے جو وطنِ عزیز میں ایک عرصہ سے جاری تھی۔چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے والوں سے لے کر نجی محفلوں اور ٹاک شوز میں بے لاگ تبصرہ کرنے والے سیاسی پنڈتوں تک اورحکومتوں کے آنے جانے اور ان کے مستقبل کی پیشین گوئیاں کرنے والوں تک‘ سبھی کو آرام آچکا ہوگا۔ جنرل باجوہ کو توسیع ملے گی یا نہیں... اگر ملے گی تو حکومت کو اس سے کیا فائدہ ہوگا... اگر توسیع نہ ملی تو حکومت کو کن حالات سے نبرد آزما ہونا پڑے گا وغیرہ وغیرہ... یہ ساری بحثیں‘ تجزیے اور تبصرے ختم ہو چکے ہیں۔ یقینا ان سب کو اب کوئی نیا کام اور نیا موضوع تلاش کرنا ہوگا۔ اکثر تو موجودہ حکومت کے استحکام اور تسلسل کو جنرل باجوہ کی توسیع سے مشروط بھی کرتے رہے ہیں۔
خیر سارے جہاں کا درد اپنے جگر میں لیے پھرنے والے یہ مبصرین اور سیاسی پنڈت اپنا چورن کچھ اس طرح بھی بیچتے ہیں... حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں یا نہیں؟ یہ پیج لائنوں والا ہے یا سادہ؟ یہ پیج کس کاپی کا ہے؟ یہ کاپی مجلد ہے یا صفحات کا دستہ ہے؟یہ چورن ہمیشہ سے ہی اسی باریک بینی سے بیچا جاتا رہا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل باجوہ کے عرصۂ تعیناتی میں مزید تین سال کی توسیع کے بعد یہ چورن کچھ اس طرح بیچا جائے گا کہ سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے جو وطنِ عزیز کے لیے خوش آئند ہے۔ دونوں قیادتوں کا ایک پیج پر ہونا ملک و قوم کی ترقی کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پاک فوج روزِ اول سے اپنے پیج پر ہی ہے۔ موقع پرستی کی عادت سے مجبور سیاستدان ہی پیج اور پینترے بدلتے رہتے ہیں۔ جب تک سیاسی قیادت فوج کے پیج سے ہم آہنگ رہتی ہے معاملات درست سمت میں چلتے رہتے ہیں۔ جہاں انہوں نے اپنا رنگ بدلا وہاں اختلافات شروع۔ پی ٹی آئی کے دھرنوں کے دنوں میں فوج کو اقتدار سنبھالنے کے لیے کسی موقع کی ضرورت نہ تھی... مداخلت کے لیے جا بجا جواز بکھرے پڑے تھے‘ لیکن پاک فوج نے منتخب حکومت کو پورا موقع فراہم کیا۔ اسی طرح 2013ء کے انتخابات کے بعد سیاسی اور انتظامی بحرانوں پر بھی فوجی قیادت نے کہیں مداخلت نہیں کی جبکہ ڈان لیکس جیسے ایڈونچرز اور کئی دیگر قابلِ اعتراض سرگرمیوں کے باوجود فوج کو سیاسی معاملات سے لاتعلق رکھا اور حکومت کو اپنا عرصۂ اقتدار پورا کرنے کا بھرپور موقع دیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ وطنِ عزیز میں پہلی بار یہ دیکھنے میں آیا کہ تمام مقتدر ادارے اپنی اپنی حدود میں آزادانہ کام کر رہے ہیں۔ عدلیہ سے لے کر احتسابی اداروں تک... حکومتی اداروں سے لے کر عسکری اداروں تک‘ سبھی اپنا اپنا کردار جس طرح ادا کر رہے ہیں ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ سابق حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے ہی اداروں کو سرنگوں اور تابعدار رکھنے کے لیے طاقت اور اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور اداروں کی ساکھ کے ساتھ ساتھ اُن کی اصل حیثیت بھی ختم کر ڈالی تھی۔ جنرل باجوہ صاحب عدلیہ سے لے کر احتسابی اداروں تک اور سیاسی قیادت سے لے کر حکومتی اداروں تک سبھی کی خود مختاری پر یقین رکھتے ہیں۔
ماضی میں بھی بوئے سلطانی کے مارے نواز شریف خود ایسے حالات پیدا کرتے رہے ہیں جن کی وجہ سے انہیں برطرفی کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان سجاد علی شاہ سے لے کر غلام اسحاق خان تک‘ جنرل جہانگیر کرامت سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک‘ انہوں نے کب اور کہاں ایڈونچر نہیں کیا؟ اسی طرح بے نظیر بھٹو کو بھی دو مرتبہ اپنے مشیروں اور بالخصوص آصف علی زرداری کی وجہ سے برطرفی کا سامنا رہا۔ جنرل راحیل شریف اور جنرل باوجوہ کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ وہ حکمرانوں کے کافی ایڈونچرز بحیثیت چیف آف آرمی سٹاف انتہائی تحمل مزاجی سے برداشت کرتے رہے۔ کوئی اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں کرتاتو کوئی اداروں کو متنازعہ بنانے کی دھن میں مگن رہا۔ خیر! ''جیسی کرنی ویسی بھرنی... نہ مانے تو کر کے دیکھ‘‘۔
جنرل باجوہ نومبر 2022ء تک سپہ سالار رہیں گے۔ یہ فیصلہ سیاسی نہیں بلکہ خطے کی نازک ترین صورتحال پر پالیسیوں اور حکمتِ عملی کے تسلسل کے حوالے سے ہے۔ ہم پہلے ہی حالتِ جنگ میں ہیں۔ عیار اور چالاک دشمن خطے کا امن تہ وبالا کرنے کے جنون میں مبتلا ہے۔ وزیراعظم آفس سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا فیصلہ علاقائی سکیورٹی کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ جنرل باجوہ آرمی کی سب سے بڑی اُس کور کو کمانڈ کر چکے ہیں جو لائن آف کنٹرول کی ذمہ داری سنبھالتی ہے۔ انہیں کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے معاملات کو سنبھالنے کا پہلے سے ہی وسیع تجربہ ہے۔ وہ بطور میجر جنرل ناردرن ایریاز کے فورس کمانڈر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے اسی ویژن اور تجربے کے پیش نظر ان کی کمان کی مزید تین سال توسیع کی گئی ہے۔
آپریشن ضرب عضب سے لے کر ردِّالفساد تک‘ جغرافیائی سرحدوں سے لے کر نظریاتی اور فکری سرحدوں تک‘ خارجہ امور پر مؤثر سفارت کاری سے لے کر جمہوریت کے تسلسل اور استحکام تک‘ تمام امور میں سیاسی قیادت کے شانہ بشانہ اور ہم قدم جنرل باجوہ دھیمے مزاج اور پریکٹیکل سوچ کے مالک ہیں۔ وطن عزیز کو درپیش معاشی بحران کے پیش نظر مسلح افواج کی تنخواہوں میں اضافے اور مراعات سے دستبردار ہو کر انہوں نے ملکی معیشت کے استحکام میں سنگ میل کا کردار ادا کیا۔ وطنِ عزیز کو درپیش اقتصادی و معاشی بحران سے نکالنے کے لیے وہ مشرقِ وسطی کی ریاستوں، سعودی عرب، ترکی، ایران، روس، چین اور دیگر دوست ممالک کے مؤثر دورے بھی کر چکے ہیں۔
انہوں نے کئی دوست ممالک کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی اور بحالی میں بھی مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ تین سال قبل متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہمارے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے لیکن جنرل باجوہ کے دورے کے بعد متحدہ عرب امارات کے تحفظات دور ہونا شروع ہوگئے اور بتدریج سردمہری کا شکار تعلقات بحال ہو کر اب گرمجوشی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم کے حالیہ دورئہ امریکہ کے دوران وہ ہر موقع پر ان کے شانہ بشانہ اور ہم قدم نظر آئے۔ پینٹاگان میں اہم ملاقاتیں کیں۔ وہاں انہیں اکیس توپوں کی سلامی دے کر غیر معمولی پروٹوکول دیا گیا۔ ان ملاقاتوں کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں نہ صرف بہتری آئی ہے بلکہ ٹوٹے ہوئے رابطے بھی بحال ہو چکے ہیں۔ اسی دورے کے دوران امریکہ نے کھل کر اپنے تحفظات اور گلے شکووں کا اظہار بھی کیا جس پر پاکستان نے اپنی نہ صرف پوزیشن واضح کی بلکہ دہشت گردی کے خلاف اپنی قربانیوں اور خدمات کو بھی باور کرایا۔
جنرل باجوہ نے 24اکتوبر 1980ء کو 16بلوچ رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ ماضی کے تین فوجی سربراہان کا تعلق بھی اسی رجمنٹ سے ہے‘ جنرل یحییٰ خان‘ جنرل اسلم بیگ اور جنرل اشفاق پرویز کیانی۔ اس طرح بلوچ رجمنٹ کے وہ چوتھے جنرل ہیں جنہیں پاک فوج کی سربراہی کا اعزاز حاصل ہوا۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ وطن عزیز کے وسیع تر مفاد میں سیاسی اور عسکری قیادتیں اسی طرح ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اور ہم قدم چلتی رہیں اور ایسے عناصر پر کڑی نظر رکھی جائے جو ہر دور میں حکمرانوں اور پاک فوج کے درمیان اختلافِ رائے کو ہوا دے کر انتشار اور مخالفت کی حد تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہ عناصر کہیں باہر سے نہیں آتے بلکہ ہر دور میں حکمرانوں کے اردگرد اور جابجا نظر آتے ہیں اور غیر محسوس طریقے سے اپنا کام کر کے چلے جاتے ہیں۔ ماضی میں ایسے کئی کردار سیاسی اور عسکری قیادتوں کے درمیان اختلافِ رائے سے لے کر بغض اور عناد تک سبھی کچھ اتنی صفائی سے کرتے رہے ہیںکہ حکمرانوں کو سمجھ ہی نہیں آئی ''کون کیا چال چل گیا‘‘ اور پتا اس وقت چلتا ہے جب تیر کمان سے اور بات زبان سے نکل چکی ہوتی ہے۔