ایام ذو الحج جہاں پر قربانی اور حج کی یاد دلاتے ہیں‘ وہیں پر اسی مہینے کی 18 تاریخ کو شہید ہونے والے امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت کی یاد دلاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں کامیابی کو ان لوگوں کا مقدر قرار دیا‘ جو آگ سے بچ کر جنت میں داخل ہو گئے؛ چنانچہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 185میں ارشاد ہوا: ''پس جو بچا لیا گیا (جہنم کی) آگ سے اور وہ داخل کر دیا گیا جنت میںتو یقینا وہ کامیاب ہو گیا ۔‘‘ لیکن تاریخ انسانیت میں بعض ہستیاں ایسی گزری ہیں‘ جن کو اس دنیا میں رہتے ہوئے اس بات کا یقین حاصل ہو گیا کہ وہ جتنی ہیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار بھی ایسی ہی ہستیوں میں ہوتا ہے‘ جن کو نبی کریمﷺ نے اپنی زبان رسالت مآب سے کئی مرتبہ جنت کی بشارت دی۔ حضرت عثمان غنی ؓان دس عظیم صحابہ کرام میں بھی شامل ہیں کہ جن کو ایک ہی نشست میں نبی کریمﷺ نے جنت کا حق دار قرار دیا۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے :
صحیح بخاری میں حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں مدینہ کے ایک باغ ( بئراریس ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ ایک صاحب نے آ کر دروازہ کھلوایا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے لیے دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو‘ میں نے دروازہ کھولا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کے مطابق جنت کی خوشخبری سنائی تو انہوں نے اس پر اللہ کی حمد کی‘ پھر ایک اور صاحب آئے اور دروازہ کھلوایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر بھی یہی فرمایا کہ دروازہ ان کے لیے کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو‘ میں نے دروازہ کھولا تو عمر رضی اللہ عنہ تھے‘ انہیں بھی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی اطلاع سنائی تو انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر ایک تیسرے اور صاحب نے دروازہ کھلوایا۔ ان کے لیے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو ان مصائب اور آزمائشوں کے بعد جن سے انہیں ( دنیا میں ) واسطہ پڑے گا۔ وہ عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ جب میں نے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی اطلاع دی تو انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی مدد کرنے والا ہے۔
حضرت عثمان غنیؓ کے اعزاز میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی شہادت سے قبل ہی بزبان رسالت مآبﷺ آپ کو شہید قرار دے دیا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ‘ ابوبکر‘ عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر احد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اٹھا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "احد! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی‘ ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔‘‘حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اعزاز میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ ؓ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے لیے سب سے پہلے ہجرت کی۔ آپ ؓ کے اعزاز میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپؓ کے عقد میں نبی کریمﷺ کی دو بیٹیاں آئیں۔ بدرکی جنگ میں شریک ہونے والے صحابہ جمیع صحابہ کرام سے افضل ہیں ۔ بدر کے موقع پر حضرت رسول اللہﷺ کی بیٹی جو حضرت عثمان ؓ کے عقد میں تھیں وہ بیمار تھیں‘ چنانچہ حضرت عثمانؓ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے‘ لیکن رسول اللہﷺ نے آپؓ کو بدری صحابہ کی برابری کی نوید سنائی۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں مذکور ہے ''حضرت عبداللہ ابن عمر فرماتے ہیں؛ عثمان رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے تھے۔ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی تھیں اور وہ بیمار تھیں۔ ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں بھی اتنا ہی ثواب ملے گا‘ جتنا بدر میں شریک ہونے والے کسی شخص کو ‘ اور اتنا ہی حصہ بھی ملے گا۔‘‘احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے‘ حضرت شیخین ‘یعنی صدیق ؓوفاروقؓ کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضرت عثمان غنیؓ کی فضیلت کے معترف تھے؛ چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث مذکور ہے: ''بخاری ابن عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہی میں جب ہمیں صحابہ کے درمیان انتخاب کے لیے کہا جاتا تو سب میں افضل اور بہتر ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قرار دیتے‘ پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو۔‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عہد رسالت مآب اور رسول کریمﷺ کے بعد مسجد نبوی شریف کی تعمیر اور ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا اور رسول اللہﷺ کی اس مسجد کی خوبصورتی میں بھی آپ ؓنے نمایاں کردار ادا کیا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی عمارت میں بہت سے اضافے کیے۔ اس کی دیواریں منقش پتھروں اور نگینوں سے بنائیں۔ اس کے ستون بھی منقش پتھروں سے بنوائے اور چھت ساگوان سے بنائی۔حضرت عثمان غنی ؓ کے عظیم کارناموں میں یہ بات شامل ہے کہ آپؓ نے قرآن مجید کی تدوین میں نمایاں کردار ادا کیا اور اس حوالے سے مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ذمہ داریاں لگائیں۔ حضرت انس بن مالک سے بخاری میں روایت ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت‘ عبداللہ بن زبیر‘ سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو بلایا ( اور ان کو قرآن مجید کی کتابت پر مقرر فرمایا؛ چنانچہ ان حضرات نے ) قرآن مجید کو کئی مصحفوں میں نقل فرمایا اور عثمان رضی اللہ عنہ نے ( ان چاروں میں سے ) تین قریشی صحابہ سے فرمایا تھا کہ جب آپ لوگوں کا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ( جو مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے ) قرآن کے کسی مقام پر ( اس کے کسی محاورے میں ) اختلاف ہو جائے تو اس کو قریش کے محاورے کے مطابق لکھنا‘ کیونکہ قرآن شریف قریش کے محاورہ میں نازل ہوا ہے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حوالے سے احتیاط کا عالم یہ تھا کہ آپ نے قرآن مجید کے کسی ایک نکتے کو بھی اس کی جگہ سے تبدیل کرنے کے مشورے کوقبول نہ کیا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ آپ نے حضرت عثمان ؓ سے کہا کہ آپ قرآن مجید کی ایک آیت کے حکم کے منسوخ ہوجانے کی وجہ سے اسے ( مصحف میں ) نہ لکھیں یا ( یہ کہا کہ ) نہ رہنے دیں۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیٹے! میں (قرآن کا ) کوئی حرف اس کی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپؓ ‘نبی کریم ﷺ کی انگوٹھی مبارک کو بھی اپنے ہاتھ میں زیب تن فرماتے رہے۔ صحیح بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس انگوٹھی کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہنا ‘پھر عمر رضی اللہ عنہ اور پھر عثمان نے پہنا۔ ‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلامی سلطنت کی توسیع میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور حضرت فاروق اعظم کے عہد مبارک کے بعد بہت سے علاقوں کو اسلامی سلطنت میں داخل کیا ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر المومنین ہونے کے باوجود اپنے دفاع کیلئے مسلمانوں کا خون بہانا گوارہ نہ کیااور باغیوں کے امیر تک کے پیچھے بھی آپؓ نے مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دی۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ عبیداللہ بن عدی‘ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے‘ جبکہ باغیوں نے ان کو گھیر رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہی عام مسلمانوں کے امام ہیں‘ مگر آپ پر جو مصیبت ہے ‘وہ آپ کو معلوم ہے۔ ان حالات میں باغیوں کا مقررہ امام نماز پڑھا رہا ہے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھ کر گنہگار نہ ہو جائیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا‘ نماز تو جو لوگ کام کرتے ہیں‘ ان کاموں میں سب سے بہترین کام ہے‘ تو وہ جب اچھا کام کریں‘ تم بھی اس کے ساتھ مل کر اچھا کام کرو اور جب وہ برا کام کریں‘ تو تم ان کی برائی سے الگ رہو ۔
حضرت عثمان ؓ کے اوصاف میں بے نفسی‘سخاوت اور حیاء انتہائی نمایاں نظر آتے ہیں۔ نبی رحمت ﷺ بھی حضرت عثمان غنیرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیاء کا پاس کیا کرتے تھے۔
صحیح مسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اس شخص(حضرت عثمان غنیرضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے حیا نہ کروں‘جس سے فرشتے حیاکرتے ہیں؟
نبی کریم ﷺ کی محبت اور آپﷺ کے حرم کااحترام آپ ؓکے لیے بہت بڑا اعزاز تھا؛ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے امہات المومنین کو رسول اللہﷺ کے رخصت ہو جانے کے بعد حج بھی کروایا۔ بخاری میں روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آخری حج کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو حج کی سہولت دی اور ان کے ساتھ عثمان بن عفان اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کو بھیجا تھا۔
حضرت عثمان غنیؓ کو مدینہ طیبہ سے بھی بہت زیادہ محبت تھی ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت عثمانؓ کے رسول اللہ ﷺ کے شہر سے محبت کو قبول فرمایا اور مدینہ طیبہ میں ہی آپ شہید ہوئے اور یہیں پر آپؓ کی تدفین ہوئی اورقیامت کے دن بھی آپؓ شہر نبوی شریف ہی سے اُٹھائے جائیں گے اور دنیا میں سرفرازی کی زندگی گزارنے کے بعد اخروی زندگی میں بھی ہمیشہ کے لیے عزت اور جنت کے حق دار بن جائیں گے ۔