زندگی جتنی حسین ہے ‘اُتنی ہی غیر لچک دار‘ غیر جانب دار اور بہت حد تک سفّاک بھی ہے۔ یہ قدم قدم پر انتخاب کے مرحلے سے گزارتی ہے۔ ہمیں فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ فیصلے وہیں کرنے ہوتے ہیں ‘جہاں انتخاب کا مرحلہ درپیش ہو۔ اگر ہمارے سامنے کئی آپشن نہ ہوں تو فیصلہ کرنے کی زحمت بھی نہ اٹھانا پڑے اور وہی کچھ قبول کرنا پڑے تو سامنے آرہا ہو۔ قدرت نے ہمیں انتخاب کی آزادی بخشی ہے۔ انتخاب کے لیے آپشنز کا ہونا لازم ہے۔ یہ بھی قدرت کی مہربانی ہے کہ ہمیں کئی آپشن دے کر انتخاب کی آزادی دی ہے‘ تاکہ ہم اپنی مرضی کی زندگی منتخب کرسکیں۔ جب ہم اپنے لیے کوئی راستہ منتخب کرتے ہیں تو اُس پر چلنے کی صورت میں منزل تک نہ پہنچ پانے پر کسی کو موردِ الزام ٹھہرانے کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قدم سوچ سمجھ کر رکھنا ہے‘ تاکہ غلط فیصلے کی صورت میں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ زندگی کا ہر معاملہ انتخاب کے مرحلے سے گزرتا ہے۔ کچھ خریدنا ہو تو آپشن ہوتے ہیں۔ کہیں جانا ہو تو وقت اور ذریعے کے حوالے سے بھی آپشنز کی کمی نہیں ہوتی۔ کیریئر کے انتخاب میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ ہم اگر کچھ بننا چاہتے ہیں تو کئی آپشن موجود ہوتے ہیں ‘تاکہ اپنے لیے درست راہ کا تعین مشکل ثابت نہ ہو۔ قدرت نے ہر معاملے میں آپشنز دے کر بھرپور فیاضی کا ثبوت دیا ہے۔ اب یہ تو ہم پر منحصر ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں کرتے؟
آپ نے دیکھا ہوگا کہ جہاں لوہے کے کام کی دکانیں ہوں‘ وہاں مٹی میں لوہے کے ذرات اور ٹکڑے پائے جاتے ہیں۔ خراد مشین پر کام کرنے والے جب دکان کا کچرا نکالتے ہیں تو لوہے کے تار‘ ٹکڑے اور ذرے باہر جا گرتے ہیں۔ کچرا چُننے والے پیٹھ پر تھیلا لیے ایسی دکانوں کے سامنے سے گزرتے ہیں تو تار سے باندھا ہوا مقناطیس مٹی میں گھماتے ہیں۔ لوہے کے ذرات اور ٹکڑے مقناطیس سے چمٹ جاتے ہیں۔ یوں کچرا چُننے والے لوہے کی دکانوں کے کچرے سے اپنے لیے روزی روٹی کا اہتمام کرتے ہیں۔ اب آپ تصور کیجیے کہ ہم جو زندگی بسر کر رہے ہیں‘ اُس میں بھی ایک مقناطیس کا کردار ہے اور کردار بھی ایسا ہے‘ جو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ نادیدہ مقناطیس ہے‘ جس سے بہت کچھ چمٹتا رہتا ہے۔ ہمارے وجود کے ساتھ ساتھ چلنے والا یہ نادیدہ مقناطیس بہت سے معاملات اور تعلقات کو اپنی طرف کھینچ کر ہماری زندگی کا حصہ بناتا رہتا ہے۔ بیشتر معاملات میں ہم لاشعوری طور پر ایسا بہت کچھ اپنا لیتے ہیں ‘جو ہماری مرضی کا ہوتا ہے ‘نہ کام کا۔ تعلقات کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ زندگی کی راہ پر ہم جُوں جُوں آگے بڑھتے جاتے ہیں‘ بہت سے تعلقات‘ نہ چاہتے ہوئے بھی ‘یعنی غیر ارادی اور لاشعوری طور پر‘ ہماری زندگی کا جُز بنتے جاتے ہیں اور ہم کسی نہ کسی طور اُن تعلقات کو نبھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ انسان معاشرتی حیوان ہے۔ مل جل کر ہی اچھی زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔ جو لوگ معاشرے کے مرکزی دھارے سے الگ ہوکر زندگی بسر کرتے ہیں ‘وہ بیشتر معاملات میں زندگی بسر نہیں کر رہے ہوتے‘ بلکہ زندگی کی گاڑی کو محض دَھکّا دے رہے ہوتے ہیں۔ دوسروں سے کٹ کر جینے میں سو طرح کے جوکھم ہیں۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ مل کر رہے‘ دوسروں میں دلچسپی لے اور جہاں جہاں ضرورت محسوس ہو وہاں دوسروں سے مدد لے۔
معاشرے کی گاڑی مل جل کر چلنے سے چلتی ہے۔ جب ہم دوسروں سے ملتے ہیں تو اُن پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اُن سے اثرات قبول بھی کرتے ہیں۔ کبھی یہ عمل شعوری ہوتا ہے اور کبھی تحت الشعور کے تحت۔ بیشتر معاملات میں ہم ایسا بہت کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں ‘جو ہماری مرضی کا ہوتا ہے نہ کام کا۔ بعض عادات ہمارے تحت الشعور میں داخل ہوکر ہماری زندگی یا وجود کا حصہ بن جاتی ہیں اور ہمیں اس حقیقت کا علم بہت دیر سے ہو پاتا ہے۔
معاشرتی تعلقات میں سب سے بلند مقام دوستی کا ہے۔ رشتہ دار ہمیں انتخاب کی زحمت سے بچالیتے ہیں۔ ہمیں قدرت کے بخشے ہوئے رشتہ دار قبول کرنا پڑتے ہیں۔ اِس راہ میں انتخاب کی منزل آتی ہی نہیں۔ خُونی رشتہ زمینی حقیقت کے مانند ہوتا ہے‘ یعنی ہوتا ہے اور ہر حال میں رہتا ہے۔ ہاں‘ دیگر تعلقات ہماری مرضی پر منحصر ہوتے ہیں۔ اُن کے معاملے میں ہمیں انتخاب کی آزادی میسر ہے۔ خُونی رشتے بنائے نہیں جاتے‘ ہمارے مقدر میں لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ دیگر تعلقات ہمیں اُستوار کرنا ہوتے ہیں۔
دوستی کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ احباب ہمیں قدرت کی طرف سے نہیں ملتے۔ یہ خالصاً انتخاب کا معاملہ ہے۔ دوست بنانا پڑتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ بہت سے لوگ ہماری زندگی میں آتے ہیں اور ہمیں انتخاب کے مرحلے سے گزرنے کی تحریک دیتے ہیں۔ کسی بھی ذریعے سے ہم تک پہنچنے والے تمام افراد اِس قابل نہیں ہوتے کہ ہم اُنہیں حلقۂ احباب میں شامل کریں۔ بہت کچھ دیکھنا اور سوچنا پڑتا ہے۔ ایسا نہ کیا جائے تو معاملات خرابی کی طرف جاتے ہیں۔
دوست بنے بنائے نہیں ملتے‘ خاصی محنت اور توجہ سے بنانا پڑتے ہیں۔ فی زمانہ دوستی پر مبنی تعلق نعمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ نعمت یوں کہ خُونی رشتوں میں غیر معمولی کھچاؤ پایا جاتا ہے۔ لوگ بات بات پر رُوٹھنے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر مُنہ پُھلاکر بات چیت بند کردینا عمومی چلن کا حصہ ہوکر رہ گیا ہے۔ مُنہ پُھلانے کا کوئی بھی سبب ہوسکتا ہے۔ کسی کو کسی بھی وقت کوئی بھی بات بُری لگ سکتی ہے۔ اور لگ کیا سکتی ہے‘ لگ ہی جاتی ہے!
خُونی رشتوں میں پائے جانے والے کھچاؤ‘ تناؤ اور کشیدگی کے ستائے ہوئے لوگ نئے تعلقات اُستوار کرنے پر مائل ہوتے ہیں۔ ایسے میں دوستی کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ برملا تسلیم کرتے ہیں کہ خُونی رشتہ داروں سے کہیں بڑھ کر وہ ہیں‘ جن سے دوستی کا تعلق ہے‘ کیونکہ دوست بات بے بات مُنہ پُھلانے کے شوقین اور عادی نہیں ہوتے۔ دوستی میں بہت سی تلخ باتیں بھی برداشت کرلی جاتی ہیں۔ انسان اپنے رشتہ داروں سے جو کچھ شیئر نہیں کر پاتا وہ دوستوں سے شیئر کرتا ہے اور مطمئن رہتا ہے کہ بات آگے نہیں بڑھے گی۔ اس بہانے مشاورت بھی ممکن ہو پاتی ہے۔ دوستوں میں لین دین کا معاملہ بھی رشتہ داروں کے مقابلے میں بہت بلند سطح کا ہوتا ہے۔
بات پھر مقناطیس تک آئی جاتی ہے۔ جس طور مقناطیس سے لوہے کے ذرات اور ٹکڑے چمٹ جاتے ہیں ‘بالکل اُسی طور بہت سے لوگ دوستی کے نام پر یا کسی اور تعلق کی آڑ میں جی کا جنجال ہو جاتے ہیں۔ ہر چمکیلی چیز سونا نہیں ہوتی۔ اسی طور ہر انسان اس قابل نہیں ہوتا کہ حلقۂ احباب میں شامل کیا جائے۔ دوستی کی صورت میں پنپنے والا تعلق نعمت سے کم نہیں ‘مگر ہم اپنی لاپروائی سے اِس تعلق کو بھی اپنے لیے زحمت میں تبدیل کرلیتے ہیں۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر انتخاب کے حوالے سے باہوش رہنے کا تقاضا کرتی ہے۔ دوستی کا معاملہ بھی اس کُلیے سے مستثنیٰ نہیں۔ اور حق تو یہ ہے کہ دوستی کے معاملے میں غیر معمولی احتیاط لازم ہے۔ لاپروائی برتنے کی صورت میں دوستی کے نام پر ایسے لوگ ہماری زندگی میں آ جاتے ہیں ‘جو رسمی سی‘ برائے نام دعا سلام کے لائق بھی نہیں ہوتے۔
دعا ہے کہ دوستی کا حسین تعلق قائم رہے ‘مگر اِس طور کہ ہمارے دوست اعلیٰ درجے کے ہوں ‘یعنی ہم سوچ سمجھ کر اُنہی کو اپنائیں جو اپنائے جانے کے لائق ہوں۔