تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     22-08-2019

غلط فہمیوں پہ استوار معاشرہ

ہم جس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں ‘ وہاں تعلیم کی کمی کی وجہ سے ایسی بہت سی غلط فہمیاں یا mythsپائی جاتی ہیں ‘ جن میں انسان اپنی پوری زندگی گزار دیتاہے ۔ حقیقت تک اس کی رسائی ہو ہی نہیں پاتی ۔ مختلف بیماریوں کے وہ علاج تجویز کیے جاتے ہیں ‘ جن میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی ۔ انہی چیزوں میں سے ایک چیز ہے‘ بال گرنا۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سر میں تیل نہ لگانے کی وجہ سے بال گرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تیل ضرور لگانا چاہیے ۔ اس کے کچھ فوائد ہوتے ہیں ‘لیکن بال گرنے کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں ۔ ان میں سب سے اہم وجہ ہے‘ آپ کے جینز ۔ اگر آپ کے جینز میں یہ لکھا ہوا ہے کہ آپ نے گنجا ہونا ہے تو چاہے آپ ساری زندگی اپنے بال تیل میں ڈبو کر رکھیں‘ آپ گنجے ہو کر رہیں گے ۔ زیادہ تر مرد گنجے ہوجاتے ہیں ۔ 
ہمارے خاندان میں ایک لڑکا تھا‘ جس کے بال تیزی سے گر رہے تھے۔ اسے ایک مشہور حکیم نے ایک خصوصی تیل بنانے کا نسخہ بتایا‘ جس میں دوسری چیزوں کے علاوہ انڈے کی زردی استعمال ہوتی تھی ۔سب اجزا ایک برتن میں ڈال کر اسے دیر تک آگ پہ پکانا تھا ۔ اس کے بعد جو تیل تیار ہوتا‘ اسے روزانہ سر پہ ایک دو گھنٹے تک لگا ئے رکھنا تھا۔ اس نے نسخے کے مطابق تیل تیار کیا گیا۔ اس تیل کی اچھی خاصی بدبو تھی ۔ اس نے یہ تیل لگانا شروع کیا۔ پھر اس نے کہا ؛اب اس کے بال مزید نہیں گر رہے ۔ اس پر ایک ستم ظریف نے کہا کہ اب بچا کیا ہے‘ جو گرے گا۔ پھر کچھ عرصے بعد اس نے کہا کہ اب میرے سر پہ چھوٹے چھوٹے بال نکلنا شروع ہو گئے ہیں ۔ دو تین سال تک وہ یہ تیل لگاتا رہا ‘لیکن یہ نادیدہ با ل بڑے نہ ہوئے ۔ 
اسی طرح ایک دوست نے بتایا کہ اس کے محلے میں ایک حکیم صاحب آئے ہیں ۔ ان کے پاس بیس ہزار مالیت کا ایک تیل ہے ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اس تیل سے جس کے بال نہ نکلیں‘ وہ اپنے پیسے واپس لے جائے ۔ پھر اس نے یہ تیل لگانا شروع کیا۔ پھر اس نے مجھے اپنے سر پہ چند ننھے منے بال دکھائے ‘ جو اس تیل کا کرشمہ تھا۔ کئی سال بعد میں اس سے ملا تو وہ پہلے کی طرح گنجے کا گنجا تھا ۔ معلوم نہیں ‘ اسے پیسے واپس ملے یا نہیں ۔ 
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اصل کہانی ہے کیا۔ اصل کہانی یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں میں وراثتی طور پر ان کے جینز میں یہ درج ہوتاہے کہ ان کے بال رفتہ رفتہ گر جائیں گے۔ تو پھر ایسا ہی ہوتاہے ۔ جب بھی کوئی بال گرتا ہے‘ تو اس کی جگہ پہلے سے کمزور بال نکلتاہے ۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ؛حتیٰ کہ نئے نکلنے والے بال اس قدر کمزور اور ننھے منے ہوتے ہیں کہ وہ گنج پن کو چھپانے سے قاصر ہوتے ہیں ‘ اور ہم اس حقیقت کو ماننے سے قاصر ہوتے ہیں۔ 
ماہرین متفق ہیں کہ اگرچہ بال چر جیسی بیماریاں بھی کچھ لوگوں کو لاحق ہوتی ہیں‘ جن کے علاج سے بال واپس آجاتے ہیں ‘لیکن یہ جو بال آپ کے جینز میں درج ہدایات کے مطابق ‘گر رہے ہوتے ہیں ‘ یہ کسی صورت واپس نہیں آسکتے ۔ ان کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے ٹرانسپلانٹ ۔ سر کی اطراف اور پچھلے حصے کے بال ساری زندگی نہیں گرتے ۔ ان میں سے بال نکال کر سامنے اور کرائون کے حصے میں لگائے جاتے ہیں ۔ پہلے بالوں کی ایک stripیا پٹی سر کے پچھلے حصے سے نکالی جاتی تھی ۔ اب ایک ایک بال نکال کر لگایا جاتاہے ‘ جس سے بہت بہتر رزلٹس سامنے آتے ہیں ۔ تین چار ہزار بال سر کے سامنے والے حصے میں ایک ڈیزائن کے مطابق ‘لگائے جاتے ہیں تو انسان کی شکل ہی بدل کے رہ جاتی ہے ۔ 
بال جب گر رہے ہوتے ہیں تو صاف نظر آتاہے کہ یہ گنج پن ایک ڈیزائن یا پیٹرن کے ساتھ ہور ہا ہے ۔ اگر اسے غور سے دیکھیں تو سمجھ آجاتی ہے کہ یہ ڈیزائن کس طرح سے پورے سر پہ پھیل جائے گا ۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اس علاقے کا پانی ٹھیک نہیں ‘ اس لیے ہمارے بال گر رہے ہیں ۔ یہ بات درست نہیں ۔اکثر لوگ کہتے ہیں ‘ ہم تیل نہیں لگاتے‘ اس لیے ہمارے بال گر رہے ہیں ۔ یہ بات بھی غلط ہے ۔ ہمارے ایک سر کہا کرتے تھے کہ اگر سر پہ تیل کی صورت میں خوراک نہیں پہنچائی جائے گی ‘تو وہ سر کے اندر کا خون چوسنا شروع کر دیں گے ۔ میرے علم کے مطابق‘ یہ بات بھی درست نہیں ۔ خون جسم کے ایک ایک خلیے تک پہنچتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ خون بنانے کا ایک سسٹم ہمارے جسم میں موجود ہے ۔ اگر آپ کسی کو ایک بوتل خون کی عطیہ کر دیں‘ تو بھی جسم فوراً ایک سسٹم کے تحت نیا خون بنانا شروع کر دیتاہے ۔
خرابی باہر نہیں ہے ‘بلکہ خلیات کے اندر ہے ۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ جن لوگوں نے کبھی خوردبین سے ان خلیات کو دیکھا تک نہیں ۔جنہیں جینز اور ڈی این اے کی اصطلاحات کا بھی علم نہیں ‘ وہ کیسے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خرابی کو دور کر دیں گے؟ جس شخص کو ایک انجن میں نصب مختلف پرزوں کے نام بھی معلوم نہیں اور وہ اگر یہ دعویٰ کرے کہ وہ آپ کی قیمتی گاڑی کو ٹھیک کر دے گا تو کیا آپ اپنی گاڑی اس کے حوالے کر دیں گے ؟ کبھی بھی نہیں ‘ لیکن ہم اپنا کھربوں ڈالر مالیت کا جسم ہر شعبدے باز کے سامنے پیش کر دیتے ہیں کہ وہ جیسے چاہے اس کے ساتھ کھلواڑ کرتا پھرے ۔ 
بہت سی معمر خواتین سر میں درد اور چکر وغیرہ کا علاج بھی سر میں تیل ڈالنے ہی کی صورت میں کرتی ہیں ۔ جب کہ سردردبلڈ پریشر‘ مائیگرین ‘ یا vertigoکی بیماری کی وجہ سے بھی ہو سکتاہے ۔ اگر آپ کو مائیگرین کا درد ہو رہا ہے تو آپ چاہے جتنا تیل بھی اپنے سر میں ڈالتے رہیں ‘ وہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔نظر کمزور ہونے اور sinusکی وجہ سے بھی سر میں درد ہوتا ہے ۔ سردرد کی وجہ تک پہنچنا بہت ضروری ہے‘ تاکہ اس کا علاج ہو سکے ۔ جب کہ medicationایک بہت بڑی نعمت ہے ‘ لہٰذاہمیں اپنے علاج پر متوجہ ہونا چاہیے ۔
اسی طرح کی ایک myth یہ ہے کہ بچوں ‘ بالخصوص لڑکوں کو بلوغت کی عمر میں پہنچنے پر یہ سمجھایا جاتاہے کہ اگر وہ گناہوں کے مرتکب ہوں گے تو ان کے جسم کمزور ہو جائیں گے ‘ سانس چڑھنے لگے گا‘ ریڑھ کی ہڈی کمزور ہو جائے گی ‘ گال پچک جائیں گے ۔ جب کہ یہ سب باتیں غلط ہیں ۔ بچّہ جب بڑا ہو رہا ہوتا ہے تو قدرتی طور پر اس کا جسم پتلا اور کمزور دکھائی دیتا ہے ۔ پچانوے فیصد لوگوں میں وزن بڑھنے کی عمر تو 24 25سال کے بعد ہی شروع ہوتی ہے ۔ ایسی باتوں کی وجہ سے بہت سے بچّے اندر ہی اندر شدید احساسِ جرم کا شکار تو ہوتے ہی ہیں‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی صحت خراب ہو چکی ہے ۔ جب کہ ان کی صحت بالکل ٹھیک ہوتی ہے ۔جب کہ میری دانست میں انہیں سمجھانا یہ چاہیے کہ گناہ کرنے والا خدا سے دور ہوتا چلا جاتاہے ‘ اگر اسے پلٹنے کی توفیق نہ ہو تو ۔ 
صحت مند معاشروںمیں mythsکی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ سب سے بڑھ کر یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ ان mythsکا خاتمہ کرے !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved