تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     23-08-2019

A fraud on the constitution

آئینی تنازعات اور مو شگافیوں کی دنیا میں (Constitutional Practice)کرنے والے وکیل صاحبان اور جج حضرات(Fraud on Statutes) کی اصطلاح سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ جس کا مطلب ہے ایسی قانون سازی‘ جس کے ذریعے قانون کے نام پر قانون کو دھوکا دیا جاسکے۔ معلوم تاریخ میں اس دھوکہ دہی اور نوسر بازی کی کئی مثالیں ملتی ہیں‘ مگر ایک مثال ایسی ہے‘ جو مودی کے ''شائننگ انڈیا‘‘ کے علاوہ آئینی ممالک میں کہیں اور نہیں ڈھونڈی جاسکتی ۔ ہم اسے (A fraud on the constitution) کا نام دے سکتے ہیں۔اس انوکھے فراڈکی کئی مثالیں آپ بھی Constitution of India 1950میںدیکھ سکتے ہیں‘لیکن انڈیا کی کرم فرمائیوں کے آگے'' کوٹی کوٹی‘‘ پرنام کرکے جھکے ہوئے امن کی بھاشا کے کارندے بھارتی آئین کو سیکولر کہتے ہوئے نہیں تھکتے ۔
حالیہ دنوں میں آرایس ایس کی حکومت نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میںاسی آئین کے آرٹیکل نمبر370اور آرٹیکل-A 35 کے نام پہ جغرافیائی فراڈکیا‘ جسے پہلے دن سے ہی عالمی طور پر مذمت اور مزاحمت دونو ں کا سامنا ہے ۔ اسی تناظر میں بھارت کے چہرے سے پہلا نقاب یہ اُترا کہ وہ سیکولر ریاست نہیںرہی ‘کیونکہ سارے حقوق صرف ہندوؤں کے لیے ہی ہیں‘جنہیں انڈیا میںاکثریتی مذہب سمجھا جاتا ہے ۔یہی آج کے وکالت نامے کا دوسرا موضوع ہے۔کیا بھار ت میں ہندو مذہب کے ماننے والے اکثریت میںہیں یا دوسرے تمام مذاہب کو ہندوؤںپر عددی برتری حاصل ہے؟ دوسرے مذاہب کی اس مجموعی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور ہندوؤں کی اکثریت دکھانے کے لیے آئینی اور قانونی فراڈ کس طرح کہاں کہا ں ہوتے ہیں۔ آئیے اس کا سراغ لگائیں:
سب سے پہلے بھارتی آئین1950ء کا آرٹیکل 25دیکھنا ضروری ہے۔ ا س کی ذیلی(Explanation)(ii)پر نظر ڈالیے۔
In sub-clause (b) of clause (2), the reference to Hindus shall be construed as including a reference to persons professing the Sikh, Jaina or Buddhist religion, and the reference to Hindu religious institutions shall be construed accordingly. 
آرٹیکل 25کا یہ حصہ ہر اعتبار سے کھلم کھلا فراڈ نہیں ‘کئی نوسر بازیوں کا مجموعہ ہے۔
٭پہلا فراڈ اوپر مذکورسب آرٹیکل آئین میں موجود لفظ ہندو کی تشریح فراہم کرتا ہے‘جس میںکہا گیا ہے کہ جہاں جہاں لفظ ہندو کا ریفرنس آئے گا‘ اس میں وہاں ‘ وہاں سکھ مذہب کے ماننے والے بھی ہندو تصورہوں گے۔ کون نہیںجانتا کہ سکھ ہندو مت کا سیکشن‘ ذیلی شاخ یافرقہ نہیں جو ہزاروںسال پرانا مذہب ہے ‘بلکہ سکھ مت کی بنیاد گرو نانک (29 نومبر22-1469ستمبر(1539نے ڈالی۔ جو پاکستان کے ضلع ننکانہ کے گاؤں رائے بھوئی کی تلونڈی میں 1469 ء میں پیدا ہوئے ۔پھر پاکستان میں ہی کرتارپور کے مقام پر1539ء میںزندگی کی آخری سانس لی۔ہندوبُت پرست ہیں ‘جبکہ سکھ مذہب کی بنیاد ایک رب کی عبادت پر رکھی گئی ۔ہندو کے رام کی جنم بھومی انڈیا میں ہے‘ جبکہ تقریباً پانچ سو پچاس سال پرانے سکھ مذہب کے بانی کا جنم استھان پاکستان میں ہے۔ ہندو مذہب کی کتابیں ویداس‘رامائین اور مہا بھارت ہیں‘جبکہ سکھ مذہب کی واحد کتاب گرنتھ صاحب ہے‘ ہندو مذہبی کتابیں پرانے زمانے کی مذہبی جنگوں اور مذہبی پیشین گوئیوں پر رکھی گئی ‘ جبکہ سکھوں کی گرو گرنتھ صاحب مسلم صوفیانہ کلام اور گورو نانک کے اشلوک پر مشتمل ہے۔ ہندوؤں کا ہیرو رام نامی بادشاہ ہے‘ جس کے برعکس سکھ مذہب کے ماننے والے دس گروؤں کو مانتے ہیںاور آخری جگت گرو اپنی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب کو کہتے ہیں۔ہندوؤں کی مذہبی نشانیاں کشکول ‘قشقہ‘سیندور اور بن واس ہے۔ سکھ مذہب کے پیروکار کڑا ‘ کاچھا‘ کیس‘ کرپان اور کنگھا کو پانچ ککے مانتے ہیں ۔ 
٭دوسرا فراڈیہ کہ آرٹیکل 25کے سب آرٹیکل 2کا پارٹ (b)یوں فریم ہوا۔
(b) (providing for social welfare and reform or the throwing open of Hindu religious institution of a public character to all classes and sections of Hindus.)
جس کا سادہ مطلب ہے کہ سکھ برادری ‘جین مت یا بدھ مت کی جتنی بھی جائیدادیں ہیں ‘وہ ہندو اوقاف ہی میںشامل ہوگئیں۔ ا سی طرح گوتم بدھ اور گورونانک کی نشانیاں اُن کے ماننے والوں کی عطیہ کردہ پراپرٹی تمام گُردوارے‘جین مت کے سارے ٹیمپل اور بدھ ازم کے پگوڈا ہندوؤں کی ملکیت میںچلے گئے۔ اس فراڈ کے خلاف بھارتی آئین کے فائنل ڈرافٹ پر ہندوستان کے سکھ ممبرانِ دستور ساز اسمبلی نے دستخط کرنے سے انکا ر کر دیاتھا۔ اُن کاکہنا تھا‘ سکھ مذہب ہندو مت کے خلاف بغاوت کے طور پہ معرضِ وجود میں آیا۔ 
٭تیسرا فراڈکائستھ کمیونٹی کے خلاف ہوا ‘جن کو ہندو قرار دیا گیا۔ انہوںنے اس فراڈ کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ بھارتی ریاستوں کرناٹیکااور مہاراشٹرا میں کائستھ آباد ہیں جن کی آبادی ساڑھے سات کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔کرناٹیکاکی سیاست میں ان کا کردار فیصلہ کن ہے۔ دو سو سالہ فرنگی راج میںکائستھوں کو ہندوؤں سے الگ قوم ماناگیا۔ 1947ء سے آج تک ساٹھ مرتبہ اُن کے دھرم گرو اور جگت گرو سنٹرل گورنمنٹ کے خلاف احتجاج کر چکے ہیں ۔ا ن کا مذہبی لٹریچر الگ ہے ۔ کائستھ مذہبی لٹریچر کا انگریزی زبان میں بھی ترجمہ ہو چکا۔کائستھ مذہب تقریباً آٹھ سو سال پہلے ویدک دھر م کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں معرض وجودآیا۔ کائستھ مذہب میں مورتی کی پوچا‘ بُت پرستی کو ناجائز سمجھا جاتا ہے۔
٭چوتھا فراڈآدھی واسی مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ کیا گیا۔ انڈیا میںان کی آبادی ساڑھے گیارہ کروڑ سے زیادہ ہے۔ سکھ اور کائستھ مذہب کے ماننے والوں کی طرح آدھی واسی بھی چلّا چلّاکر کہتے ہیں‘ ہم ہندو نہیںہیں۔ بھارت کی ہندو سرکار منہ سے کچھ نہیں بولتی‘ لیکن قانونی طور پر آدھی واسی کو ہندو کہتی ہے۔ اس وجہ سے آدھی واسی بھارتی ریاستوں جھاڑ کھنڈ ‘چھتیس گڑھ‘ مدھیاپردیش اور گجرات میں منظم جدوجہد کر رہے ہیں۔ خاص طور سے جھاڑ کھنڈ میں لاکھو ں آدھی واسی بہت بڑ ی بڑی ریلیوں میں ہندو مت سے بریت کا اعلان کر رہے ہیں۔
٭پانچواں فراڈبھارتی محکمہ مردم شماری کے ذمہ ہے۔ ہندوؤں کے علاوہ بھارتی محکمہ مردم شماری کے کاغذات میں سارے مذاہب کے ماننے والوںکو(OBC)کہاجاتاہے۔جن کی آبادی کی تعداد کو آزاد ادارے 52 پرسنٹ کہتے ہیں۔ OBC کا مطلب (Other backward classes) ہے۔ انڈین مردم شماری کا ریکارڈ گواہ ہے ‘چاہے شمار کردہ گھرانہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو (OBC) کے خانے میں لفظ ہندو لکھا جاتاہے۔
٭چھٹا فراڈبھارت کے طول وعرض میں ٹرائبل ایریاز ہیں‘ جن کی اکثر آبادی کے اپنے چھوٹے چھوٹے مذاہب ہیں ۔ ٹرائبل ایریاز میںبُت اور مورتیوں کے پوجنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کو بھی گاؤرکھشا کے مسلح جتھوں نے کاغذوں میں ہندو لکھا۔؎
سوگواری ساتھ کیا دیتی مرا / غم سوا نیزے سے بھی نزدیک تھا 
٭نیا فراڈ محمڈن عائلی قوانین کے بارے میں کیا گیا‘ جس کا موضوع تین طلاق کے شورپر ڈرامے کی صورت میں چُنا گیا۔مودی حکومت نے تاثر دیا جیسے وہ مسلمان عورت کا بڑا ہمدردہے‘ جبکہ بھارت خواتین کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک اور ورلڈ ریپ کیپٹل ہے۔ ٹرانسپورٹ کا کوئی ذریعہ محفوظ نہیں۔حال ہی میں ایک مسلم خاتون کو چلتی ٹرین میں سارے ہندوؤں نے مل کر اجتماعی طور پر بے آبروکیا۔اس آبرو باختہ نظام میں آئین سے فراڈ چھوٹا سا جرم دکھائی دیتا ہے۔فرحت عباس یُوں نوحہ گر ہیں۔؎
وہ مجھ سے پوچھتی ہے کون لاوارث ہے مقتل میں
میں کہتا ہوں وہی جو قتل کرنے کے لیے آئے
وہ بولی درد کے اس پار بھی اک درد ہوتا ہے
میں اس کے بعد کتنی دیر تک کچھ بھی نہیں بولا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved