تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     23-08-2019

اوجڑیاں‘ میک اَپ اور ریمانڈ

انتہائی تعجب کی بات ہے کہ عام آدمی کسی چھوٹے موٹے کیس میں پکڑا جائے تو دو چار دن کے ریمانڈ کے بعد اس کی حالت ہی غیر ہوتی ہے۔ جب اسے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو تفتیش کے نام پر جس ریمانڈ گردی کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ صرف ملزم کی حالتِ زار سے لگایا جا سکتا ہے۔ اکثر تو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہی نہیں رہتے‘ جبکہ جسم پر ظاہری اور پوشیدہ تشدد کے نشانات گواہی دیتے ہیں کہ اس ستم رسیدہ کے ساتھ کیا سلوک ہو اہے‘ دوسری طرف ملکی خزانے کا صفایا کرنے والوں سے لے کر وسائل کو بھنبھوڑنے والوں تک۔۔۔بھتہ خوروں سے لے کر ٹیکس خوروں تک ‘ عوام کی فلاح و بہبود کا پیسہ کنبہ پروری اور اللوں تللوں پر اڑانے والوں تک‘ سبھی زیر حراست کئی کئی ہفتوں کے ریمانڈ کے بعد جب عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو ان کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ کلف لگی قمیص شلوار اور واسکٹ زیب ِ تن کیے ہوئے ‘ چم چم کرتے جوتے ‘ سلیقے سے بنائے گئے بال اور کھینچ کر کی گئی شیو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ پیشی بھگتنے نہیں ‘بلکہ کوئی فیتہ کاٹنے آئے ہیں۔ 
نیب کی اسیر ایک خاتون سیاسی رہنما جب پیشی پر آتی ہیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیشی پر آنے سے پہلے انہوں نے کتنا وقت بننے سنورنے میں لگایا ہو گا‘ یعنی جتنا بڑا ملزم اتنا بڑا پروٹوکول ۔ اگر ان اسیر سیاستدانوں پر پیشی پر آنے سے پہلے ان کے گیٹ اپ اور میک اپ پر پابندی لگا دی جائے تو ان کی شکلیں دیکھنے سے تعلق رکھیں گی۔ اپنی اصل شکلیں چھپانے کے لیے یہ سب یقینا نقاب لگا کر پیشیوں پر آیا کریں گے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ پیشی کے بعد عدالتوں کے باہر یہ مجمع نہیں لگائیں گے اور نہ ہی لمبے چوڑے بھا شن دیں گے۔ اور یہ ترلا بھی کریں گے کہ انہیں خاموشی سے لایا جائے اور خاموشی واپس لے جایا جائے۔
کراچی میں بارشوں اور عیدِ قرباں کے بعد عوام تاحال عذاب سے دو چار ہیں ۔ قربانی کے جانوروں کی آلائشیں اور خون ملا پانی عوام کے سکون اور صحت دونوں کے درپے ہے۔ عوام کے مال سے اپنی اوجڑیاں بھرنے والے سماج سیوک نیتائوں نے کون سی کسر چھوڑی ہے‘ اس شہر کے امن و امان سے لے کر اداروں کی بربادی تک۔ نیت سے لے کر معیشت تک ۔ حکمرانوں نے عوام کو کہاں معاف کیا۔ ووٹ دینے والوں کی اتنی سزا تو بنتی ہے کہ جن کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے انہی کی زندگی اجیرن کر ڈالی۔زرداری اینڈ کمپنی ہو یا ایم کیوایم کی خدمت خلق فائونڈیشن ‘ پول سبھی کے کھل چکے ہیں۔ شہر کی صفائی پر مامور حکام ہاتھ کی صفائی کو نصب العین بنا لیں تو شہر قائد کی موجودہ حالتِ زار پر تعجب کیسا؟ شہر قائد کی بربادی ‘ لوٹ مار اور ہاتھ کی صفائی میں برابر کے شریک میئر کراچی رنگے ہاتھ لیے شہر میں گندگی اور غلاظت کا واویلا کرتے نظر آتے ہیں۔ عجیب نو ٹنکی ہے‘ ایسا معلوم ہوتا ہے‘ قاتل خود ہی مقتول کے جنازے پہ گریہ زاری کر رہا ہو۔ 
سلام ہے‘ کراچی کے عوام کو جو کئی دہائیوںسے کئی قسم کے عذاب مسلسل جھیل رہے ہیں۔ سیاسی مصلحتیں ہوں یا اقتدار کی بھوک ‘ حکمرانوں نے ہر ناسور کو گلے سے لگاکر کون کون سا ظلم نہیں کمایا؟ قتل و غارت ‘بھتہ خوری ‘ دادا گیری اور سیا سی بلیک میلنگ کے زور پر شہر پر کئی دہائیاں اپنا سکہ چلانے والی سیاسی جماعت کو سبھی نے گلے کا ہار بنایا ۔ نواز شریف سے لے کر بینظیر بھٹو تک ۔پرویز مشرف سے لے کرآصف علی زرداری تک۔ سب نے اپنے اقتدار کے حصول اور تسلسل کے لئے اس جماعت کو شہر قائد کی بربادی اور لوٹ مار کا لائسنس دیئے رکھا۔وطن ِ عزیز کے طول و عرض میں کوئی ایساسیاستدان نہیں‘ جو سیاسی تعاون کی بھیک کے حصول کے لئے اس دیوتا سمان قائد کے در پر سوالی بن کر نہیں گیا اور تعاون کی بھیک نہیں مانگی۔ پھر چشم ِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ اس سیاسی مفاہمت اور تعاون کے نتیجے میں بننے والا گٹھ جوڑ کراچی کے عوام کے لئے عذابِ مسلسل ہی رہا۔ غور طلب اور سبق آموز امر یہ ہے کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں لگائے گئے اس زہریلے پودے کو بھر بھر مشکیں ڈال کر پروان چڑھانے اور اس کی آبیاری کرنے والے سبھی کردار اپنا اپنا انجام خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اگر کہیں کمی ہے تو صرف عبرت پکڑنے والوں کی ۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ سیاسی مصلحتوں اور مجبوریوں کا یہ سفر تاحال جاری ہے۔ تحریک ِ انصاف کی حکومت بھی وہی طوق اپنے گلے کا ہار بنائے ہوئے ہے ۔ چندوں‘ بھتوں‘ لوٹ مار‘ دادا گیری ‘ قتل و غارت اور دیگر ناجائز ذرائع سے کمائی گئی دولت سے اپنے دیوتا سامان قائد کو پالنے والوں میں وفاقی وزیر قانون بھی پیش پیش رہے۔وہ اپنے قائد کی اطاعت گزاری میں بابر غوری‘ خالد مقبول‘ وسیم اختر‘ رئوف صدیقی‘ ارشد وہرہ سمیت دیگر قائدین کے شانہ بشانہ رہے۔ آج وہی تحریک انصاف کی حکومت کے وزیرِ قانون ہیں۔ بھائی گیری نے نجانے کتنا خون بہایا؟ کتنی مائوں کی گود اجاڑی؟ کتنے سہاگ دن دہاڑے خون میں نہا ڈالے؟ کتنی ہی بہنوں کے بھائی آج تک گھر نہیں لوٹے؟ کتنے بچوں کو یتیمی کا روگ لگا؟ کسی افسر یا اہلکار کی کیا مجال کہ ان کی منشا کے مطابق کام نہ کرے؟ جس نے جہاں آواز اٹھائی اس کی آواز ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئی۔ جس نے مزاحمت کی وہ آن کی آن میں اگلے جہان پہنچا دیا گیا۔
کراچی میں قتل و غارت اور بھتہ خوری تو وہ پہلے والی نہیں رہی ‘لیکن بارشوں میں کرنٹ لگنے اور دیگر حادثات کے نتیجے میں مرنے والوں کا بھی کوئی پرسانِ حال نہیں۔اب عوام اُس طرح نہیں تو اس طرح مر رہے ہیں ۔ نا حق مرنا ان کانصیب ہی بن چکا ہے۔ میئر کراچی وسیم اختر کتنی معصومیت سے وسائل کی کمی کا رونا روتے پھرتے ہیں ‘ان وسائل کی بربادی کا ذمہ دار کون ہے؟ رہی سہی کسر پیپلز پارٹی کی حکومت نے پوری کر ڈالی۔ انہوں نے بھی اس کارِ بد میںنہ صرف حصہ ڈالا‘بلکہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ خوب ڈبکیاں بھی لگائیں۔ قربانی کے جانوروں کی آلائشیں اٹھانے والے جب اپنی اوجڑیاں بھرنا شروع کر دیں توعوام کی جان و مال کا بس اللہ ہی حافظ ہے۔ وطن عزیز کی صورتحال کی عکاسی کے لیے چند حسب ِ حال اشعار پیش خدمت ہیں : ؎
اقبالؔ تیرے دیس کا کیا حال سناؤں؟ 
دہقاں تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاؤں 
ملتا ہے کہاں خوشۂ گندم کہ جلاؤں 
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی 
اس کے تنِ خستہ پہ دانت ہیں سب کے 
ہر داڑھی میں تنکا ہر آنکھ میں شہ تیر 
مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر 
شاہیں کا جہاں آج کرگس کا جہاں ہے 
ملتی ہوئی ملا سے مجاہد کی اذاں ہے 
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور 
شاہیں میں مگر قوتِ پرواز کہاں ہے 
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے 
تقدیر امم سو گئی طاؤس پہ آکر 
اقبالؔ تیرے دیس کا کیا حال سناؤں؟
کراچی میں بارشوں اور عیدِ قرباں کے بعد عوام تاحال عذاب سے دو چار ہیں ۔ قربانی کے جانوروں کی 
آلائشیں اور خون ملا پانی عوام کے سکون اور صحت دونوں کے درپے ہے۔ عوام کے مال سے اپنی اوجڑیاں بھرنے والے سماج سیوک نیتائوں نے کون سی کسر چھوڑی ہے‘ اس شہر کے امن و امان سے لے کر اداروں کی بربادی تک۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved