تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     23-08-2019

سرخیاں‘متن‘ ریکارڈ کی درستی اور ’’شام‘‘

شادی کرنا چاہتا تھا‘ لیکن والد جیل میں ہیں: بلاول بھٹو زرداری
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''شادی کرنا چاہتا تھا‘ لیکن والد جیل میں ہیں‘‘ اور جس کا مطلب ہے کہ کم از کم دس سال تک تو شادی نہیں ہو سکتی‘ کیونکہ دس سال تک تو وہ وہیں رہیں گے اور بڑے آرام سے رہیں گے ‘کیونکہ جیل ان کا دوسرا گھر ہے‘ بلکہ میرا اپنا بھی اُن کے ساتھ جا شامل ہونا یقینی بات ہے‘ اس لیے بہتر ہے کہ شادی کا خیال دل سے نکال ہی دوں‘ کیونکہ بڑھاپے کی شادی تو کوئی شادی نہیں ہوتی ‘کیونکہ جعلی اکائونٹس کا جتنا بوجھ مجھ پر ڈال دیا گیا ہے‘ بیس پچیس سال تو وہاں رہنا ہی پڑے گا اور اس وقت تک تو دانت وغیرہ بھی جھڑ جائیں گے اور ساتھ صرف کھانسی ہی رہ جائے گی۔ اور ہو سکتا ہے ‘وہ بھی ساتھ چھوڑ جائے‘ کیونکہ چیزیں جب ساتھ چھوڑنے پر آ جائیں تو تھوک کے حساب سے ہی چھوڑتی ہیں۔ اس لیے میں نے تو اب‘ شادی کے خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیئے ہیں۔ آپ اگلے روز گلگت میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
500 ارب میں سے ایک فیصد مجھے دے
دیں اور باقی خود رکھ لیں: خورشید شاہ
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''500 ارب میں سے ایک فیصد مجھے دے دیں اور باقی خود رکھ لیں‘‘ کیونکہ ایک فیصد بھی ماشاء اللہ اتنا ہوگا کہ نسلوں تک ختم نہیں ہوگا ‘کیونکہ حق حلال کی کمائی کا پیسہ تو ویسے بھی بہت بابرکت ہوتا ہے اور ختم ہونے کا نام ہی نہیںلیتا اور اگر زرداری صاحب‘ ان کی ہمشیرہ صاحبہ اور برخوردار بلاول بھی ایک فیصد رکھ کر باقی سارا واپس کر دیں تو ان کیلئے بھی یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا‘ جبکہ پلی بارگین میں اور کوئی نقصان نہیں ہوتا اور آدمی نہایا دھویا گھوڑا بن کر پھر سابقہ مقام پر پہنچ جاتا ہے اور کمائی کا موقعہ پھر میسر آ سکتا ہے ۔ آپ اگلے روز سکھر میں کارکنوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
ڈیل چاہیے ‘نہ ڈھیل ‘ صرف انصاف چاہیے: اعتزاز احسن
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ''ڈیل چاہیے‘ نہ ڈھیل‘ صرف انصاف چاہیے‘‘ کیونکہ جب ہماری پارٹی کے قائدین ایک پیسہ بھی واپس کرنے کو تیار نہیں‘ تو کسی ڈیل یا ڈھیل کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا‘ جبکہ پیسہ بنانا کوئی آسان کام نہیں ۔اس کام میں خون پسینہ ایک ہو جاتا ہے۔ اس لیے اپنے خون پسینے کی کمائی سے جدا ہونا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ اس لیے احتساب اداروں کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘ جبکہ زرداری صاحب کو وہ پہلے بھی آزماچکے ہیں اور دس گیارہ سال جیل میں رکھ کر بھی انہیں کچھ نہیں ملا ‘کیونکہ ان کیخلاف ثبوت کی ساری فائلیں ہی اتفاق سے جل کر راکھ ہو گئی تھیں‘ جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ واقعی پہنچے ہوئے ہیں اور وہ اس دفعہ بھی کوئی کرامت دکھا سکتے ہیں۔ بقول شاعر ''پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی‘‘ آپ اگلے روز کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
درستی
برادرِ عزیز محمد اظہار الحق نے اپنے ایک کالم میں گزشتہ روز ایک شعر اس طرح نقل کیا ہے: ؎
شیر بی دم و سرو اشکم کہ دید
ایں چنیں شیری خدا خود نافرید
پہلے مصرعہ میں شکم سے پہلے الف زائد ہے‘ جو ظاہر ہے کہ ٹائپ کی غلطی ہے‘ لیکن گڑ بڑ یہ ہوئی ہے کہ دونوں مصرعے الگ الگ بحر میں ہیں؛ چنانچہ دوسرے مصرعہ کی بحر پہلے سے مختلف بھی ہے اور لمبی بھی۔ اب اس کی وضاحت بھائی صاحب ہی کر سکتے ہیں ‘کیونکہ دونوں مصرعے با معنی بھی ہیں۔ اس کی درستی میرے بس میں نہیں ہے ‘اس لیے اسے ریکارڈ کی درستی کی بجائے نشاندہی ہی کہا جا سکتا ہے۔
شام
یہ آفتاب خان کا مجموعہ غزلیات ہے‘ جسے پرائم ٹائم پبلی کیشنز نے چھاپا ہے۔ انتساب ماں کی دعائوں‘ ہمشیرہ اور چھوٹے بھائیوں ؛الیاس خان‘ زاہد خان‘ اشتیاق خان کے نام‘ شریکِ زندگی نبیلہ آفتاب خان‘ شریکِ زندگی انعم آفتاب خان اور جانشین نسل دانیال‘ دانش اور ثاقب خان کے نام ہے۔
جبس کمرے میں چھت پہ بارش ہے
اپنے بچّے کہاں سلائوں میں
دیباچے لکھنے والوں میں علامہ شبیر رزمی‘ شفیق سلیمی‘ احسان اللہ ثاقب‘ شاعر علی شاعر‘ منزہ شاہد‘ صائمہ نورین بخاری ہیں ‘جبکہ پیش لفظ ''میری بات‘‘ کے عنوان سے شاعر کا بقلم خود ہے۔ پس سرورق شاعر کی تصویر‘ شہزاد احمد کی رائے اور شاعر کی آنے والی کتابوں کی تفصیل درج ہے۔ نمونۂ کلام پیش ہے: 
تری نگاہ جمی ہے فقط چراغوں پر
مگر میں تیرے لیے آفتاب لایا ہوں
............
بارشوں کے لیے دعا مانگی
آسماں گر پڑا ہتھیلی پر
............
اگر میں آج اندھیروں سے دوستی کر لوں
تو کل کہے گا بھلا کون آفتاب مجھے
............
روح تک درد کی چبھن آئی
چیخ اٹھا گلاب مٹھی میں
آج کا مطلع
بار بار دل کی یہ حالت ہوتی رہنی چاہیے
مجھ سے اگر پوچھیں تو محبت ہوتی رہنی چاہیے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved