کشمیر کے معاملے میں عالمی برادری کا ردعمل اب تک تو ٹھنڈا ٹھار ہی ثابت ہوا ہے۔ پاکستان نے اپنی سی کوشش کی ہے اور اس فلیش پوائنٹ کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کے لیے جو کچھ کیا جانا چاہیے تھا‘ وہ کیا جاچکا ہے۔ سلامتی کونسل کا اجلاس بھی ہوچکا۔ ہاں‘ اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے خاصا ''ماٹھا‘‘ ریسپانس دیا ہے۔ عرب دنیا اور دیگر خطوں کے مسلم ممالک اب تک تجارتی و صنعتی مفادات کو اولیت دے رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کا خطہ بھرپور فلیش پوائنٹ ہے‘ مگر ایسا لگتا ہے کہ بڑی طاقتوں کو اس کی چنداں پروا نہیں۔ کیا فیصلہ کیا جاچکا ہے؟ کیا امریکا اور یورپ نے مل کر بھارت کو جموں و کشمیر کے معاملے میں گرین سگنل اور فری ہینڈ دے دیا ہے؟ سینہ بہ سینہ چلنے والی باتوں کے مطابق تو مقبوضہ کشمیر کی تقدیر کا فیصلہ کیا جاچکا ہے اور اب جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ اُس فیصلے پر عمل کا ابتدائی مرحلہ ہے۔
بھارت کے انتہا پسند‘ بلکہ جنونی وزیر اعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے حوالے سے جو کچھ کیا ہے ‘اُس کی ٹائمنگ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا نے عمران خان کو وہائٹ ہاؤس میں جو بھی یقین دہانی کرائی اور کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں مدد دینے کی جو پیش کش کی وہ دیکھتے ہی دیکھتے فضاء میں تحلیل ہوگئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کی پیش کش کی تو بھارت میں کہرام مچ گیا۔ اور پھر چشم زدن میں نریندر مودی کا اقدام سامنے آگیا۔
مقبوضہ کشمیر کو قید خانے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار ملک نے تقریباً ایک کروڑ کشمیریوں کو گھروں میں محصور کر رکھا ہے اور عالمی برادری محض تماشا دیکھ رہی ہے۔ میانمار میں روہنگیا نسل کے مسلمانوں کو جس طور گھیر کر موت کے گھاٹ اتارا گیا کم و بیش ویسا ہی ماحول یہاں بھی تیار کیا جارہا ہے۔ کشمیریوں کو فون پر بات کرنے کی اجازت ہے‘ نہ انٹرنیٹ استعمال کرنے کی۔ سوشل میڈیا پر بھی مقبوضہ کشمیر سے حقائق پر مبنی خبریں نہیں آرہیں۔ بھارتی میڈیا کے مقامی نمائندوں یا مقامی میڈیا کے نمائندوں کی تو بساط ہی کیا ہے‘ بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے نمائندوں تک کو مقبوضہ وادی میں آزاد نقل و حرکت کی اجازت نہیں دی جارہی۔ یہ سب کچھ ہو نہیں رہا ہے‘ بلکہ ہونے دیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کا اگر سوچا بھی گیا ہے تو اس وقت کیوں سوچا گیا ہے؟ چین اور روس نے مل کر خطے کو نئی شکل اور نیا رخ دینے کی کوششوں کا آغاز کیا ہے تو امریکا اور یورپ کے پیٹ میںمروڑ اٹھا ہے اور اُنہوں نے مل کر رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سوچا ہے۔ امریکی قیادت چین کے مقابل ''کشمیر کارڈ‘‘ کے ذریعے بھارت کو خوب بروئے کار لارہی ہے۔
نئی دہلی کے پالیسی میکرز جو کچھ کر رہے ہیں‘ وہ حیرت انگیز ہے‘ نہ زیادہ افسوس ناک۔ موقع ملتے ہی بھارت کو یہ سب تو کرنا ہی تھا۔ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر جو چیز موجود ہے اُس کے حوالے سے کوئی بھی اقدام کیونکر گوارا کرلیا گیا ہے؟ معاملے کو محض رسمی نوعیت کی مذمت تک محدود رکھا گیا ہے۔ بیجنگ کی قیادت بھی سمجھتی ہے کہ اُسے گھیر کر محدود رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو کے تحت چینی قیادت اپنی سرزمین کو مین لینڈ یورپ سے جوڑنا چاہتی ہے ‘تاکہ تجارتی اموال کی ترسیل میں زیادہ سے زیادہ آسانی رہے‘ لاگت گھٹے‘ قیمتیں نیچے لاکر تجارتی حجم بڑھانا ممکن ہو اور منافع کا گراف بلند تر کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے۔ یہ کھیل امریکا کو ایک آنکھ نہیں بھایا ہے۔ بھائے بھی کیسے؟ اگر چین کو روکا نہ گیا تو بھارت‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ افغانستان‘ نیپال‘ سری لنکا اور وسط ایشیا پر مشتمل منڈی ہاتھ سے نکل جائے گی۔
امریکا اپنی طاقت میں واقع ہونے والی کمی سے اچھی طرح واقف ہے۔ یورپ بھی جانتا ہے کہ وہ اصولوں کی بنیاد پر لڑی جانے والی کوئی بھی معاشی لڑائی جیت نہیں سکتا۔ ایسے میں بارآور اور مفید آپشن یہ رہ گیا ہے کہ ''نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ والی کیفیت پیدا کردی جائے۔ اور اس سوچ پر عمل بھی شروع کردیا گیا ہے۔ امریکا اور یورپ نے جنوبی و جنوب مشرقی ایشیا کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے ''مقامی مہرہ‘‘ ایک بار پھر بھرپور منصوبہ بندی کے تحت استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ علاقے کا چودھری بننے کا خواب دیکھنے والے بھارت کو فی الحال چین کو لگام دینے پر مامور کیا گیا ہے۔ امریکا اور یورپ کی براہِ راست حمایت و معاونت کے بغیر بھارت چین اور روس کے مقابل کتنی دیر ٹِک سکے گا‘ یہ بات متعلقہ امور کے ماہرین اچھی طرح جانتے ہیں۔ امریکا اور یورپ نے دیگر تمام امور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سارا زور عسکری قوت بروئے کار لانے پر لگا رکھا ہے۔ عرب دنیا‘ بالخصوص سعودی عرب کو بڑے پیمانے پر ہتھیار بیچ کر امریکا اور یورپ نے پورے خطے کو خاک و خون میں غلطاں رکھنے کی بھرپور منصوبہ سازی کرلی ہے۔ مسلم دنیا کو تفرقوں میں تقسیم کرنے کی تیاریاں حتمی مرحلے میں ہیں۔ ایک طرف بھارت اپنا کھیل پوری تندہی سے کھیل رہا ہے اور دوسری طرف سعودی عرب و ایران اپنے اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مغربی‘ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا پر مشتمل خطہ کتنے بڑے فلیش پوائنٹ میں تبدیل ہوجائے گا ؟اس کا اندازہ لگانے والے کم بھی ہیں اور خاموش بھی۔
امریکا بظاہر پسپا ہوتے ہوئے افغانستان سے نکلنے کا عندیہ دے رہا ہے۔ ایسا ہوا تو وہاں طالبان بہت مضبوط ہوکر ابھریں گے۔ طالبان کا مضبوط ہونا افغانستان میں بھارتی مفادات کے لیے انتہائی خطرناک ہوگا۔ گویا بھارت کو ایک طرف تو چین اور روس کے خلاف بروئے کار لایا جارہا ہے اور دوسری طرف طالبان کے ہاتھوں اُن کی واٹ لگانے کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے! اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ جن طالبان کو امریکا اور یورپ کے غیر معمولی تربیت یافتہ فوجی بھی مکمل طور پر زیر نہ کرسکے‘ اُنہیں بھارت کسی بھی طور قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ اور اگر بھارت نے افغانستان میں کوئی بڑی کِھلواڑ کی تو اُسے پاکستان اور ترکی کی طرف سے ٹھیک ٹھاک ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارت کا ساتھ دینے کے معاملے میں امریکا اور یورپ ہر جگہ کھل کر سامنے نہیں آسکتے۔ اگر بھارتی مفادات کو خرابی سے بچانے کے لیے یورپی حکومتوں نے افغانستان میں دوبارہ فعال ہونے کا سوچا تو شدید اندرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کچھ کچھ ایسی ہی کیفیت سے امریکی قیادت کو بھی دوچار ہونا پڑے گا۔ جس بکھیڑے سے بمشکل جان چُھڑائی گئی ہے ‘اُس میں دوبارہ پڑنے کا سوچا گیا تو امریکی قیادت کو بھی پریشان کن اندرونی دباؤ کا سامنا ہوگا۔
پاکستان سمیت مسلم دنیا کے پاس واحد قابلِ اعتبار آپشن یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کی ذہنی غلامی کا طوق گردن سے اتار پھینکے اور خطے میں رونما ہونے والی حقیقی تبدیلیوں کا ساتھ دے۔ چین اور روس مل کر نیا بلاک بنانے کی جو کوشش کر رہے ہیں‘ اُس کا کھل کر ساتھ دینا فی الحال ممکن نہ ہو تو اُس کے خلاف بھی نہ جایا جائے۔
کشمیر کے حوالے سے بھارت کی مہم جُوئی ہمارے لیے چیلنج ہے‘ جس کا بھرپور جواب دینا پڑے گا۔ یہ جواب مسلم دنیا کے بھرپور سفارتی ریسپانس کے علاوہ مغرب پر مدار کی شدت کم کرنے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔ ہچکچاہٹ نہیں چلے گی۔ مسلم دنیا کے لیے واضح فیصلے کی گھڑی آپہنچی ہے۔